شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ’’ یوں تو قادرِ مطلق ہے مگر تیرے جہاں میں ، ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات ‘‘ ۔ غریب مزدور پر پوری دنیا میں ظلم ہوتا ہے ، یکم مئی مزدوروں پر ظلم کے یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے ۔ پاکستان میں کراچی واحد شہر ہے جہاں سب سے زیادہ تعداد میں مزدور کام کرتے ہیں۔ کراچی مزدوروں پر ظلم کے واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ ظلم کا ایک واقعہ 9 اگست 2019 ء کو تھانہ فیروز آباد ایسٹ کراچی کے علاقے میں رونما ہوا جہاں رحیم یارخان کے علاقے رکن پور سے تعلق رکھنے والے غلام یٰسین کی بیٹی کو بے دردی کے ساتھ قتل کر دیا گیا اور اسے خودکشی کا رنگ دینے کی ناکام کوشش کی گئی ۔جس کی ایف آئی آر نمبر 466 بجرم 302/34 واقعے کے 14 دن بعد 23 اگست 2019 ء کو تھانہ فیروز آباد ایسٹ کراچی میں درج کی گئی ۔ مقتولہ کے والد غلام یٰسین نے پولیس کو بتایا کہ میں ڈرائیوری کرتا ہوں ۔ میں نے اپنی بیٹی فضہ کو سیٹھ ذیشان کے گھر 13 ہزار ماہوار پر ملازم کرایا ، وہ ذیشان کے گھر 24 گھنٹے کام کرتی تھی ۔ مورخہ 9 اگست 2019 ء کو میرے ماموں زاد بھائی اقبال نے اطلاع دی کہ آپ کی بیٹی کا ذیشان صاحب کے گھر کوئی مسئلہ ہو گیا ہے ، آپ فوراً ذیشان کے گھر جاؤ ۔ جب میں فوری طور پر ذیشان کے گھر پہنچا تو میری بیٹی فضہ یٰسین پنکھے سے لٹک رہی تھی ، جب میں نے سالکہ اور اسکے شوہر ذیشان سے اس واقعے کے متعلق پوچھا تو وہ تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ موقعہ پر پولیس موجود تھی ، جنہوں نے میری بیٹی کی لاش کو پنکھے سے نیچے اتار کر ایمبولینس کے ذریعے جناح ہسپتال پہنچایا اور بعد ازاں میری بیٹی کی لاش میرے حوالے کر دی ۔ غلام یٰسین نے پولیس کو بتایا کہ مجھے قوی یقین ہے کہ ذیشان ،کاشف اور عثمان نے زیادتی کی کوشش میں ناکامی پر اپنا جرم چھپانے کیلئے میری بیٹی کو پھانسی کا پھندا لگا کر قتل کیا اور بعد میں خودکشی کا رنگ دینے کی کوشش کی ۔ استدعا ہے کہ ذیشان ، کاشف اور عثمان پر میری بیٹی کے گلے میں ڈوپٹہ ڈال کر پھانسی کا پھندا لگا کر قتل کرنے پر قانونی کارروائی کی جائے ۔ یہ تھا مقتولہ کے والد کا بیان ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ بچی کے قتل کی وجہ سے والد اور دوسرے لواحقین کی کیفیت ناقابل بیان ہے۔ والدین صدمے سے اچھے طریقے سے بات بھی نہیں کر سکتے ، زبان لڑکھڑاتی ہے ، وہ رونا چاہتے ہیں مگر رو بھی نہیں سکتے کہ آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے ہیں ۔ یہی کیفیت دوسرے لواحقین کی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ ضیا الحق دور میں ایک مہاجر بیٹی بشریٰ زیدی کا روڈ ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو پورا کراچی بلاک کر دیا گیا تھا ۔ یہ واقعہ اس سے زیادہ مہلک ہے کہ یہ روڈ ایکسیڈنٹ نہیں بلکہ تیرہ سال کی ایک بچی کو زیادتی کرنے کی کوشش میں قتل کر دیا گیا مگر ایم کیو ایم بھی خاموش ہے اور بختاور بھٹو زرداری کی جماعت پیپلز پارٹی جو کہ صوبے میں بر سر اقتدار بھی ہے ، اس مسئلے کا ایکشن نہیں لے رہی ۔ تحریک انصاف جو کہ انصاف کے نام پر بر سر اقتدار آئی کے سربراہ اور وزیراعظم عمران خان بھی اس مسئلے پر خاموش نظر آتے ہیں ۔ ایک ذمہ داری وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی بھی بنتی ہے ۔ مقتولہ کا تعلق وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار اور صوبائی وزیر مخدوم ہاشم جواں بخت کے حلقے سے ہے ، ان دونوں کو بھی وزارتی کاموں سے ’’ فرصت ‘‘ نہیں ، انہوں نے ابھی تک مقتولہ کے لواحقین سے نہ تعزیت کی اور نہ ہی ان کی دلجوئی کی ۔ فضہ یٰسین قتل کیس کے سلسلے میں رکن پور کے نوجوان صحافی ملک آصف خالد نے سب سے پہلے ظلم کے خلاف آواز بلند کی ، نوجوان صحافی غفار مہر بھی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے ، کراچی کے ارشاد سولنگی نے بتایا کہ سرائیکی قومی اتحاد کے سربراہ کرنل عبدالجبار عباسی اور مخدوم اکبر شاہ ہماری مدد کر رہے ہیں مگر ہمیں دکھ اس بات کا ہے کہ پاکستان کا میڈیا جو کراچی میں کچرے جیسے مسائل کو ہنگامہ خیز انداز میں بیان کرتا ہے، وہ اس بہیمانہ قتل پر خاموش کیوں ہے ؟لڑکی کا والد غلام یٰسین انصاف کے لئے در بدر دھکے کھار ہا ہے ۔ اس نے سیکرٹری ہیلتھ حکومت سندھ کو اسپیشل میڈیکل بورڈ برائے پوسٹ مارٹم و قبر کشائی کی درخواست دیتے ہوئے لکھا کہ انکوائری افسر معین میری بیٹی فضہ یٰسین کو پوسٹمارٹم کرانے کیلئے جناح ہسپتال لایا تو وہاں موجود لیڈی ڈاکٹر نے ملزمان اور پولیس کے ساتھ ملکر ان سے رشوت لی اور میری بیٹی کا پوسٹ مارٹم صحیح طریقے سے نہیں کیا ، صرف خانہ پوری کر کے PM Report No 314/2019 رپورٹ ملزمان کے حق میں جاری کر دی ۔ انہوں نے استدعا کی کہ میری بیٹی کی قبر کشائی کر کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا جائے اور اسپیشل میڈیکل بورڈ بنایا جائے اور ڈاکٹرکے خلاف ملزمان کا ساتھ دینے پر قانونی کارروائی کی جائے ۔ مگر ابھی تک غریب مزدور کی بیٹی کو انصاف نہیں ملا ۔ ملزمان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ کروڑ پتی سیٹھ ہیں اور ہر جگہ پیسہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں ۔ یہ بھی تو حقیقت ہے کہ کراچی میں نقیب اللہ محسود کو جب ماورائے عدالت قتل کیا گیا تو اس پر پورے ملک میں احتجاج ہوا ، خصوصاً خیبرپختونخواہ کے بعد سب سے بڑے احتجاجی کیمپ کراچی میں لگائے گئے ۔ احتجاجی کیمپوں میں جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق ، جمعیت العلمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن ، اے این پی کی جملہ قیادت کے ساتھ ساتھ خود موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی پہنچے تھے اور نقیب اللہ محسود کے لواحقین سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک نقیب اللہ محسود کو قتل کرنے والے گرفتار نہیں ہونگے ‘ تو میری ان تمام زعماء سے اتنی گزارش ہے کہ جس طرح نقیب اللہ محسود کسی کا بیٹا تھا یا جس طرح بشریٰ زیدی کسی کی بیٹی تھی تو فضہ یٰسین بھی کسی کی ماں جائی ہے۔