کراچی کی بربادی کا نوحہ ہر زبان پر ہے۔ بارش کے پانیوں میں ڈوبا ہوا کراچی۔ پانی اتر گیا تو غلاظت بھرے کیچڑ میں لتھڑا ہوا کراچی۔ بارش کے موسم سے پہلے‘ کچرے سے بھرا ہوا کراچی کہ لکھنے والے اسے کچراچی لکھنے لگے۔ میں اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ کراچی کا اصل المیہ اس کا سیاسی کچرا ہے جس نے آج اس شہر بے مثال کو بدبودار کر رکھا ہے۔ بے حس سیاسی جماعتوں اور اہل اختیار و اہل اقتدار کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا شہر جو کھینچا تانی کرنے والوں کے ہاتھوں سے گرتا ہے‘ ٹوٹتا ہے‘ اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر مفاد پرست اسے جوڑتے ہیں‘ پھر توڑتے ہیں۔ یہ ایک پگڈنڈی کی طرح روندا گیا۔ اتنا روندا گیا کہ اس پر اگا سبزہ پامال ہوتا گیا۔ پامالی کے دکھوں سے بے خبررہے۔ یہ سیاستدان‘ انسان کے روپ میں جونکیں تھیں‘ جونکیں جو جانداروں کے جسم سے چمٹ کر خون چوستی ہیں۔ جونکوں کے اندر احساس نہیں ہوتا‘ سوچ نہیں ہوتی‘ دماغ اور دل نہیں ہوتا۔ بس خون چوستے رہنے کی جبلت ہوتی ہے۔ ان کی شکلیں مختلف ہوں گی مگر ان سیاستدانوں کے کرتوت‘ ان کی ہوس‘ ان کے مفادات سب ایک جیسے ہیں۔ کسی کے ہوس زدہ چہرے پر ایم کیو ایم اکا ٹیگ لگا ہے جس کے لالچ سے بھرے ہوئے وجود پر پیپلزپارٹی کی تختی لٹک رہی ہے۔ ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی۔ یہ دو سیاسی جماعتیں برسوں سے کراچی پر مسلط ہیں۔ بس چہرے اور سیاسی پارٹیوں کے نام ہی تو بدلتے رہے ہیں۔ اس شہر کم قسمت میں جو بھی اختیار والا آیا وہ اس شہر کی شادابی کے لیے آکاس بیل بن گیا‘ زرد آکاس بیل ،جو شاداب اور ہرے بھرے‘ درختوں کے سبزے کو رفتہ رفتہ چاٹتی جاتی ہے اور درخت اپنی بہار کھوتا چلا جاتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پتے شاخوں سے جدا ہونے لگتے ہیں۔شاخیں برہنہ ہو جاتی ہیں‘ آکاس بیل درخت کی خالی شاخوں سے لپٹ جاتی ہے۔ نمی چوسنے کا عمل اور تیز ہو جاتا ہے اور پھر درخت کو سوکھنے کی بیماری ایسی لگتی ہے کہ وہ جڑوں سے بھی کھوکھلا ہو جاتا ہے۔ بالکل یہی۔ یہی سب کچھ میرے کراچی کے ساتھ ہوا یہاں اہل اختیار اہل اقتدار کے روپ میں جونکیں‘ طفیلئے اور آکاسبیلیں اس شہر کو چمٹی رہیں۔ بارش کیا دنیا بھر میں ہوتی نہیں‘ کہیں دیکھی ہے ایسی مثال کہ ڈھائی کروڑ آبادی کا ملک کا سب سے بڑا شہر دنیا کے بڑے میٹرو پولیٹن شہروں میں جس کا نمبر ساتواں ہو، وہ تیز بارشوں کا اسپیل سہہ نہ سکے اور ڈوب جائے۔ کیا پوش آبادیاں اور کیا پاپوش نگر‘ کیا امیروں کی سوسائٹیاں اور کیا غریبوں کی بستیاں‘ سب بارش میں ڈوبے ،کسی مسیحا کو آواز دیتے تھے مگر یہاں اقتدار والوں کی شکل میں کوئی مسیحا اس شہر کو میسر نہ تھا۔ مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا۔ مگر یہاں جن کو پکارا جا رہا تھا ان کے پاس انسانوں والے دل‘ انسانوں والا احساس‘ انسانوں والا احساس شرمندگی‘ ضمیر نامی کوئی شے نہیں تھی۔ ان کے بظاہر انسانی وجودوں کے اندر بے حسی لہو بن کر دوڑتی تھی‘ ان کے ناک کے نتھنوں سے اندر باہر‘ پھیپھڑوں تک مفاد پرستی اور لالچ کی آکسیجن لڈیاں ڈالتی تھی۔ ان کے جسموں میں جہاں دل جھڑکتا ہے وہاں ہوس اوندھے منہ پڑی تھی‘ وہاں زمینوں پر قبضوں کی خواہش دھک دھک کرتی تھیں‘ انہیں ڈوبتا ہوا شہر دکھائی نہیں دیتا تھا ،چند روز کی زور دار اتھری بارشیں کیا پڑیں کہ شہر ڈوب گیا۔ اس شہر پر بے حسی کا عذاب تو کئی برسوں سے ایسے ہی مسلط ہے آج جو دنیا اسکاسمو پولیٹین شہر کو بارش کے پانی میں ڈوبا‘ کیچڑ میں لتھڑا‘ غلاظت سے اٹا ہوا دیکھ رہی ہے لوگ پکارتے ہیں تو اور کوئی اہل اختیار سننے والا نہیں تو اس حادثے کی پرورش برسوں یہاں ہوئی ہے۔ حادثہ ایک دم نہیں ہوتا۔ یہ سیاستدانوں کے روپ میں اس شہر پر جو جونکیں‘ آکاس بیلیں اور طفیلئے مسلط رہے ہیں برسوں انہوں نے اس شہر کو لوٹا ہے۔ اس کے باسیوں کو دھوکہ دیا ہے۔ اپنے جھوٹے وعدوں اور کھوکھلے دعوئوں سے ٹرخایا ہے‘ ورغلایا ہے۔ برسوں اس شہر کم قسمت نے عذاب درعذاب سہا ہے۔ نامعلوم سے معلوم کے عہد اقتدار تک۔ نوے کی دہائی‘ نامعلوم گولیاں‘ موت کی کالی آندھی کا گلیوں‘ بازاروں‘ چوکوں چوراہوں میں رقص‘ بوری بند لاشیں‘ بھتے کی پرچیاں ‘خلق خدا کے نامعلوم افراد کے خوف سے سہمے ہوئے زرد چہرے اور خواب سے عاری کھوکھلی آنکھیں۔ معلوم سے نامعلوم افراد تک برسہا برس اس شہر پر حکمران کسی بددعا کی طرح مسلط رہے ہیں۔ بے چہرہ لوگ ہیں کہیں بے عکس آئینے گلیوں میں رقص کرتی ہوئی بددعا تو ہے (جاری)