پانی‘ کیچڑ،کچرے اور غلاظتوں کے سونامی میں ڈوبے ہوئے کراچی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ وہاں کا منظر نامہ دلچسپ ہے تو یہ سنگدلی ہو گی لیکن کیا کیجیے‘ منظر دلچسپ ہو تو اسے دلچسپ ہی کہیں گے‘ کچھ اور کہنے کی مغالطہ آرائی تو نہیں کریں گے۔ دنیا بھر میں بھی اور پاکستان میں بھی سرعام تشدد کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اکثر میں پٹنے والے کی جان چلی جاتی ہے۔ یہ مناظر دیکھنے کے لئے سینکڑوں لوگ جمع ہو جاتے ہیں اور منظر کی دلچسپی کی وجہ سے وہ جس مہم پر گھر سے نکلے تھے‘ عارضی طور پر اسے بھلا دیتے ہیں۔ ایسے مناظر کو دلچسپ ہی کہا جائے گا‘ دلدوز نہیں۔ دلدوز ہوئے تو لوگ مرنے والے کی مدد کو بڑھتے‘ سنسنی خیز تماشے میں کیوں ممکن ہو جاتے۔ منظر نامہ یہ ہے کہ تین محب وطن قوتیں گتھم گتھا ہیں۔ دو ایک طرف ‘ ایک دوسری طرف۔ ایک طرف متحدہ کے میئر وسیم اختر ان کے ساتھ وزیر بندرگاہی علی زیدی اور دوسری طرف مصطفی کمال ہیں۔ وزیر بندرگاہی ان دنوں بندرگاہوں کے امور کو اللہ کی لاٹھی‘ مطلب اللہ آسرے پر چھوڑ کر شہر کی صفائی کی مہم پر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق صفائی کا پہلا مرحلہ انہوں نے کامیابی سے مکمل کر لیا ہے اور بہت سے مقامات کا کچرا اٹھا کر بہت سے دیگر مقامات پر ڈال دیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں وہ ان بہت سے دیگر علاقوں یعنی جو نئے نئے مشرف بہ کچرا ہوئے ہیں‘ سے کچرا اٹھا کر واپس اول الذکر بہت اول الذکر مقامات پر پھینکوا دیں گے۔ علی زیدی صاحب اس شعری کہاوت کے زبردست قائل ہیں جس کا پہلا مصرعہ ہے کہ بے کار مباش کچھ کیا کر۔ دوسرا مصرعہ یاد نہیں‘ شاید اس طرح کا ہے کہ کچرا ادھر سے ادھر‘ پھر ادھر سے ادھر کیا کر۔ ٭٭٭٭٭ علی زیدی کا صرف متحرک شخصیت ہی نہیں بارعب پرسنالٹی بھی ہیں۔ عید کے دنوں میں ان کے رعب کا مشاہدہ ہوا۔ براہ راست نہیں‘ بواسطہ ویڈیو کلپ۔ آپ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں کوئی اپنا قربانی کا جانور لے کر دخل در معقولات کی نامعقول حرکت کا مرتکب ہوا۔ یہ دیکھ کر زیدی صاحب سواری سے باہر آئے اور پھر بس۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ نامعقول مداخلت کار کے ساتھ جو ہوئی‘ غریب قربانی کرنا بھول گیا ہو گا۔ کیا پتہ‘ جانور کسی اور کو صدقہ کر دیا ہو۔ دیکھنے والوں پر زیدی صاحب کی ہیبت کا سکہ بیٹھ گیا۔ ٭٭٭٭٭ مصطفی کمال اگرچہ ان دنوں نیب کے ریڈار پر ہیں لیکن حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بدستور بحال ہے۔ آپ نے اپنے ہی سابقہ ہم جماعت اور ہم حب الوطنی میئر کراچی پر الزام لگایا کہ وہ چور، ڈاکو، کرپٹ ہیں۔ نام ای سی ایل میں ڈالا جائے۔ تفصیلات سامنے آئیں تو رونگٹے کھڑے کے کھڑے دیدے پھٹے کے پھٹے رہ جائیں گے۔ وسیم اختر نے انہیں نام لیے بغیر بدتمیز قرار دیا اور کرپشن کا الزام بھی لگایا۔ ہر دو حضرات شدید قسم کے محب وطن اور سخت قسم کے صادق و امین ہیں‘ ان کی بات کی تردید کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ چنانچہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ بات کمال صاحب کی ٹھیک ہے اور غلط میئر صاحب بھی نہیں کہتے۔ ٭٭٭٭٭ کراچی کے ایک بہت بڑے محب وطن کا تذکرہ خاصے دنوں سے سننے میں نہیں آیا۔ جی ہاں‘ وہی رائو انوار جنہوں نے ساڑھے چار سو نا شہری موت کے گھاٹ اتارے تھے۔ نقیب محسود کے قتل پر کوئی ازخود نوٹس بھی ہوا تھا ‘ پھر موصوف کے پروٹوکول کی خبریں بھی سنیں اور اس کے بعد سے کوئی خیر خبر نہیں۔؟مائیں بچے جنتی ہیں ایسے خال خال… بلدیہ ٹائون کی فیکٹری میں ساڑھے تین سو مزدوروں کو زندہ جلانے والے سورمائوں کا کیا حال ہے؟۔ سنا ہے بہت مزے میں ہیں‘ جشن آزادی بھی دھوم دھام سے منایا۔ ٭٭٭٭٭ کراچی کے حالات سے وہ شعر یاد آتے ہیں جو دلی کے میر نے لکھنؤ میں پڑھے تھے۔ دلی کہ ایک شہر تھا عالم میں انتخاب‘ رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے، جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا…الخ۔ دلی ویران ہو کر اجڑا دیار بن گئی۔ معمورہ کراچی آباد ہے لیکن خرابے کی صورت۔ یہ آباد ہو کر بھی ویران‘ اس کی رونقیں بے رونق ہیں۔ کراچی میں ہندوستان بھر کے ’’منتخب ہائے روزگار‘‘ کا اجتماع تھا۔ اس کی بزم دلی سے بڑھ کر تھی لیکن پھر ایوب خاں کی نظر بد اسے لگ گئی۔ وہ یوں تو سارے پاکستان ہی کے لئے عذاب بن کر آیا تھا لیکن کراچی پر اس کا ستم سوا تھا۔ اصل قیامت پرویز مشرف نے ڈھائی‘ اس کے آٹھ برسوں میں یہ شہر لاقانونیت اور بربادی میں وسطی امریکہ کے بدنام شہروں کو مات دے گیا۔ اب خیر سے عمران خان کی حکمرانی ہے‘ خدا اسے اندھیروں سے نکال سکتا ہے لیکن تب جب وہ چاہے گا اور کب چاہے گا‘ وہی جانتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ برسبیل تذکرہ ‘ کراچی کتنا پھیل گیا ہے۔ اگر حکومتی مردم شماری کے اعداد و شمار مان لئے جائیں (جو کہ مانے جانے کے قابل نہیں ہیں) تو کراچی دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے(پہلے چھ ٹوکیو‘ دہلی‘ شنگھائی‘ ممبئی‘ بیجنگ ‘ ڈھاکہ) اور اگر اصل آبادی ذہن میں رکھی جائے تو تیسرا بڑا۔ شمال میں یہ پھیلتا ہوا حیدر آباد سے نزدیک تر ہو گیا ہے۔ جنرل کیانی نے سوات میں آپریشن کیا تو وہاں کی آبادی بے گھر ہو گئی۔ دس بارہ لاکھ مستقلاً کراچی ہی میں آباد ہو گئے۔ اتنے ہی فاٹا سے آ گئے۔ اب یہ شہر نہیں‘ بہت سے شہروں کا بے ڈھنگا مکس اپ ہے۔