سندھ میں ایک بار پھر لسانی سیاست کا بھوت بوتل سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی کے مسائل حل کرنے کے سلسلے میں ایک عدد کمیٹی کیا بنائی گئی اس ایشو کو لیکر پیپلز پارٹی نے زمین اور آسمان ایک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ کمیٹی میں جس طرح سندھی اور دیگر زبانیں بولنے والے اہلیان کراچی کو نمائندگی دی جاتی تو شاید صورتحال یہ رخ پیش نہ کرتی کہ پیپلز پارٹی یہ کہنے کا موقع میسر ہوجاتا کہ وفاقی حکومت کراچی پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ ہر ذی ہوش شخص جانتا ہے کہ اس میں قبضے کا دور دور تک کوئی سوال نہیں ہے۔ مگر ایک طرف ایم کیو ایم والے ہیں اور دوسری طرف پیپلز پارٹی والے ہیں۔ ایم کیو ایم والے کراچی کارڈ کو استعمال کرنے کی عادت سے نجات حاصل نہیں کرتے اور پیپلز پارٹی والے ابھی تک سیاست میں سندھ کارڈ استعمال کرنے سے باز آنے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت کراچی کے لیے کمیٹی بنانے کی مخالفت کرنے والی پیپلز پارٹی اس سوال کا جواب کیوں نہیں دیتی کہ گذشتہ گیارہ برس سے کراچی مکمل طور اس کے اختیار میں تھا۔ ان گیارہ برسوں کے دوران پیپلز پارٹی نے کراچی کو کچرے سے صاف کرنے کے سلسلے میں کون سا کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی تو کسی نہ کسی ایشو کو اٹھانے کا انتظار کر رہی تھی۔ ادھر تحریک انصاف کی حکومت نے کراچی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے کا اعلان کیا اور اپنی سیاسی موت مرنے والی پیپلز پارٹی میں زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ سندھ کے لیے سب سے بڑا سیاسی عذاب وہ دو فریق ہیں؛ جو بظاہر ایک دوسرے کے مخالف مگر اندر میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ ایک عجیب ماجرا ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑا المیہ ہے کہ جب بھی ایم کیو ایم کراچی کا کنٹرول مکمل طور اپنے ہاتھ میں لینے کی بات کرتی ہے تب پیپلز پارٹی کو ’’سندھ کارڈ‘‘ استعمال کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔اسطرح سندھ کے شہری اور دیہی آبادی کی نمائندگی کرنے والی ان جماعتوں نے عملی طور پر سندھ کے عوام کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ کیا یہ زیادتی نہیں کہ ایک ہی دھرتی پر بسنے والے ایک ہی دریا کا پانی پینے والے ان ایشوز پر ایک دوسرے کیخلاف سیاست کرتے ہیں جو ایشوز سندھ کی دونوں آبادیوں کے ہیں۔ یہ کڑوا سچ ہے کہ دیہی سندھ کو سندھی بولنے والے وڈیروں نے لوٹا ہے اور شہری سندھ کا ان اردو بولنے والوں نے استحصال کیا ہے جو اب تک منفی سیاست کی مٹھی میں قید ہیں۔وقت اور حالات نے انہیں بھی موقع میسر کیا۔ دو دہائیوں سے کراچی ان کے پاس رہا۔ انہوں نے کراچی کا کیا حال کیا؟ وہ شہر جو خوشبو اور خوبصورتی کی علامت تھا۔روشنیوں کے شہر کو جرم کے اندھیروں میں کس نے دھکیلا؟ اس سوال کا جواب سب کو معلوم ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ نسل پرستی والی سیاست جو کبھی زبان اور کبھی کپڑوں کے کلچر سے جنم لیتی ہے اور پھر انسانوں کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتی ہے۔ اس جرم میں اردو بولنے والے اور ایم کیو ایم کی سیاست کرنے والے اکیلے نہ تھے۔ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔ اگر ایک طرف قصور ایم کیو ایم کا تھا تو دوسری طرف پیپلز پارٹی نے بھی اپنے کردار کو عوام مخالف بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ یہ دلیل پیش کرتی ہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم نے انہیں کام کرنے نہیں دیا۔ اگر پیپلز پارٹی کی اس بات کو تسلیم کیا جائے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کراچی کو چھوڑ کر پیپلز پارٹی نے پورے سندھ میں ترقی کے کون سے کارنامے سرانجام دیے۔ کراچی تو پھر بھی ٹھیک ہے۔ تکلیف سے ہی سہی مگر اس شہر میں پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے روٹی تو مل جاتی ہے۔ تھر میں کیا ہے؟ اس بار تو بادل برسے ہیں مگر جب بارش نہیں ہوتی اور اس صورتحال میں بھوکے لوگ کمزور ہوکر بیمار پڑ جاتے ہیں اور بیمار موت کے منہ کا نوالہ بن جاتے ہے تب پیپلز پارٹی ان کے لیے کیا کرتی ہے؟ پیپلز پارٹی کا تو یہ موقف بھی رہا ہے کہ تھر پر سیاست کی جاتی رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی نظر میں تھر ایک فطری مسئلہ ہے۔ اگر ان کی یہ بات تسلیم بھی کی جائے تو تھر کو چھوڑ کر سندھ کے باقی شہروں کی صورتحال کے بارے میں وہ کیا جواب دینگے؟کس نے پیپلز پارٹی کے ہاتھوں کو روکا ہے کہ وہ حیدرآباد سے لیکر جیکب آباد تک ان لوگوں کو حقوق فراہم کرے جن لوگوں نے سیاسی زیادتیوں کے باوجود انہیں ووٹ دیا ہے۔ پیپلز پارٹی سے اگر یہ پوچھا جائے کہ سارے سندھ کو چھوڑ کر وہ صرف لاڑکانہ کے حوالے سے جواب دے اور بتائے کہ جس شہر کا نام لے کر وہ سیاست کرتے ہے اور اقتدار میں آتے ہیں اس شہر کے لیے انہوں نے کون سے کارنامے سرانجام دیے ہیں؟ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی گاؤں رتوڈیرومیں معصوم بچے ایڈز کے مریض بنے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پاس ان سوالات کا کوئی جواب نہیں۔ پیپلز پارٹی نہیں بتا سکتی کہ گیارہ برس تک بغیر کسی مداخلت نے اس نے سندھ پر جو حکومت کی ہے اس کے مثبت اثرات کس صورت میں ہیں؟ پیپلز پارٹی اپنے عوام سے سیاست کرنے کی عادی ہے۔ وہ جب بھی محسوس کرتی ہے کہ سندھ کی سرزمین سے ان کے پیر اکھڑ رہے ہیں تو وہ کراچی میں اردو آبادی کی سیاست کرنے والوں سے کسی نہ کسی ایشو پر جھگڑا کرتے ہیں اور سندھی زبان بولنے والے معصوم لوگ پیپلز پارٹی کے بچھائے ہوئے اس جال میں قید ہونے کے لیے خود اڑ کر آتے ہیں۔ اس سیاسی گناہ میں میں پیپلز پارٹی تنہا نہیں ہے۔ اردو آبادی کی سیاست کو صرف زبان تک محدود کرنے والی سوچ نے کراچی جیسے شہر کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا؟ کیا کراچی کو لسانی سیاست کی سولی پر لٹکانے کے لیے انہیں پیپلز پارٹی نے مجبور کیا تھا؟کیا یہ قصور پیپلز پارٹی کا تھا کہ کراچی جیسے بڑے دل والے شہر کے ہر دوسرے علاقے کو ’’نو گو ایریا‘‘ میں تبدیل کیا جائے۔ شہر کو ڈاکوؤں کی طرح لوٹا جائے۔ شہر میں اردو بولنے والے نوجوانوں کے ہاتھوں سے کتاب لیکر ان کو کلاشنکوف تھمائی جائے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں کو تباہ کس نے کیا؟ سیاست تو ایک عبادت ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت میں عظیم کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے جب سیاست عظمت کا راستہ چھوڑ کر ذلت کی راہ اختیار کرنے لگے تو سماج کو تباہی اور بربادی سے کوئی نہیں روک سکتا۔