عمران خان گزشتہ روز حسب پروٹوکول خصوصی طیارے پر کراچی تشریف لے گئے۔ مختلف وفود سے ملے اور کراچی کی صورتحال پر ’’تجاویز‘‘ وصول فرمانے کے بعد حسب پروٹوکول اسی خصوصی طیارے سے واپس تشریف لے آئے۔ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ سادگی اور کفایت شعاری کا شاہکار ہے۔ ان کے دورے سے ایک روز پیشتر ایک اخبار میں تین کالمی خبر نظر سے گزری۔ سرخی تھی‘ کراچی رو رہا ہے۔ نیچے کافی لمبا چوڑا مواد تھا‘ کچھ اس قسم کے فقرے تھے کہ روشنیوں کا شہر ملبے کے ڈھیر میں بدلتا جا رہا ہے۔ چند گھنٹوں کے نوٹس پر بازار کے بازار گرا دیے جاتے ہیں۔ لاکھوں افراد روزگار سے محروم کئے جا چکے ہیں۔ لوگ پوچھ رہے ہیں اپنے بچوں کو مار دیں یا خود مر جائیں۔ شہر کے تمام تجارتی مراکز پر ویرانی بال کھولے ناچ رہی ہے۔ شہر کے مضافات میں بھی اندھیرے چھا رہے ہیں۔ پوچھنے والی بات یہ ہے کہ اس سرخی میں خبریت کیا ہے‘ کون سی انوکھی بات ہے جو یہ سرخی لگائی۔ جہاں پناہ نے جہاں پناہی سنبھالنے سے پہلے وعدہ کیا تھا کہ ’’سب کو رلائوں گا‘‘ تو کراچی بھی اس ’’سب‘‘ میں شامل ہے‘ پھر وہ اس میں انوکھا کیا ہے جو کراچی کو بھی رلا دیا۔ روشنیوں کا شہر ملبے میں بدل گیا۔ یعنی تبدیلی آ نہیں رہی‘ آ گئی ہے۔ یہ بھی حسب توقع ہے کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے ’’ذرا ہٹ کے‘‘ کے ضمن میں ڈالا جا سکے۔ لوگ یہ کیوں پوچھتے ہیں کہ بچوں کو مار دیں یا خود مر جائیں‘ بھئی دونوں آپشن پر عمل کر ڈالو‘ پوچھنے کی کیا بات ہے۔ آبادی مکائو مہم تو چل ہی رہی ہے‘ آپ کے تعاون ہی سے کامیاب ہو گی۔ ویسے اس قسم کی خبریں ابھی قبل از وقت ہیں۔ اس لئے کہ ’’آپریشن سب کو رلائونگا‘‘ کی ابھی تو شروعات ہوئی ہے‘ ذرا رفتار پکڑنے دو۔ ٭٭٭٭٭ کراچی پر خصوصی نظر عنایت البتہ’’آپریشن سب کو رلائونگا‘‘ کے رسمی آغاز سے پہلے ہی پڑنا شروع ہو گئی تھی۔ جب یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ عمومی انتخابی عمل سے اس شہر کو باہر رکھنا ہے۔ ریکارڈ پر ہے کہ حالیہ انتخابات میں ‘ پیپلز پارٹی کے حلقہ اثر والی سیٹوں کو چھوڑ کر باقی تمام شہر میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد محض دس فیصد رہی۔ کہیں اس سے بھی کم‘ کہیں اس سے کچھ زیادہ۔ 90فیصد شہری گویا حق رائے دہی سے لاتعلق ہو گئے۔ یہ وہ اہم تبدیلی تھی جو ’’تبدیلی آ نہیں رہی ‘ آ گئی ہے‘‘ کا نقارہ بجنے سے پہلے ہی آ چکی تھی۔ اسی دس فیصد پولنگ کی کوکھ سے تحریک انصاف کو 14سیٹیں دینے والا ثمر برآمد ہوا۔ ٭٭٭٭٭ کراچی ہی کے عارف علوی ملک کی صدارت پر براجمان ہیں۔ تین روز پہلے انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ انکشاف کیا کہ 1970ء کی دہائی میں (جب وہ بیس پچیس سال کے رہے ہوں گے) انہوں نے ٹیلی فون کنکشن لینے کے لئے 50ہزار کی رشوت دی تھی۔ اچھی طرح یاد ہے‘ تب اخبار 20پیسے کا آتا تھا۔ آج 20روپے میں ملتا ہے گویا تب کا ایک روپیہ آج کے سو روپے جتنا تھا۔ یوں پچاس ہزار کی وہ رقم آج کے پچاس لاکھ کے برابر ہوتی ہے۔ سونے کا حساب لگایا جائے(جو تب ڈیڑھ سوروپے تولہ تھا) تو یہ پچاس ہزار روپے آج کے ایک کروڑ کے برابر تھے۔ گویا علوی صاحب نے ٹیلی فون کنکشن لگانے کے لئے ایک کروڑ کی رشوت دی۔ اندازہ کیجئے جناب‘ جو آدمی جیب خرچ سے ایک کروڑ روپے یوں چٹکی بجا کر ادا کر سکتا ہے اس کے خاندانی رئیس اعظم ہونے کا کیا عالم ہو گا ع کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے ’’زور بٹوہ‘‘ کا بیان کی صداقت پر شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ آپ صادق و امین پارٹی کے چند سربر آوردہ صادق و امین حضرات میں شامل ہیں اوپر سے ’’ریاست مدینہ‘‘ کے آئینی سربراہ بھی۔ حکومت تین ماہ میں لگ بھگ ایک کھرب روپے قرضہ لے چکی ہے۔ ایک سال میں کتنا قرض لے گی اور پانچ سال میں کتنا؟ اس ایک کھرب میں چین اور امارات کا قرضہ شامل نہیں کہ انہوں نے کچھ دیا ہی نہیں۔ آئی ایم ایف کا قرضہ بھی شامل نہیں ۔ اس لئے کہ وہ تو ابھی لینا ہے کیا چیئرمین نیب دبے لفظوں میں یہ نہیں پوچھیں گے کہ یہ ایک کھرب اتنے مختصر وقت میں کہاں خرچ ہوا؟ خیر‘ اصل خبر یہ ہے کہ اس قرضے پر لگنے والا سود حکومت نہیں‘ عوام ادا کریں گے۔ فیصلہ ہوا ہے کہ یہ رقم بجلی کے صارفین سے وصول کی جائے گی۔ اور یہ فیصلہ فی الحال کے لئے ہے۔آنے والے مہینوں میں ہو سکتا ہے اصل زر بھی صارفین بجلی سے وصول کیا جائے۔ اخبار نے لکھا ہے صارفین بجلی پر اربوں روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ اضافی بوجھ پروف کی غلطی لگتی ہے‘ اصل میں انصافی بوجھ ہو گا۔ ایک خبر اور ہے‘ شہریوں سے صفائی ٹیکس لیا جائے گا۔ شاید یہ بھی اضافی ٹیکس ہو گا۔ ٭٭٭٭٭ وفاقی وزراء کے بنگلوں کی صاف صفائی کے لئے ہر بجٹ میں پندرہ لاکھ روپے رقم رکھی جاتی ہے۔ موجودہ حکومت نے اسے بڑھا کر پانچ کروڑ 57لاکھ کر دیا ہے۔ محکمہ پی ڈبلیو ڈی نے وزارت ہائوسنگ کو خط لکھا۔ نیک کام میں دیری کیسی کے مصداق وزارت نے خط ملتے ہی منظوری دیدی۔ ماضی کی شاہ خرچ حکومت ہوتی پندرہ لاکھ کو بڑھا کر تیس لاکھ کر دیتی۔ اس سے زیادہ کیا تیر مار لیتی لیکن انصافی کمال دیکھئے‘ تیس نہ پچاس‘ سیدھی بات کروڑوں تک پہنچا دی۔ اور ابھی کفایت شعاری مہم کا خیال ہے‘ ورنہ پچاس کروڑ بھی کر دیتے تو ہم کیا کر لیتے۔