چلئے آج میں آپ کو ایک نئی شخصیت سے متعارف کراتا ہوں۔اگر آپ اسے جانتے بھی ہوں گے تو اب تک بھول چکے ہوں گے۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کا نام الطاف حسین کے ساتھ ساتھ لیا جاتا تھا۔ طے یہ ہو نا تھا کہ سندھ میں غیر سندھیوں خصوصاً مہاجروں کی قیادت کون سنبھالتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ناگزیر ہو گیا تھا۔ سندھی قوم پرستوں نے اس طرح فضا گرم کر رکھی تھی کہ لگتا تھا وہ سب سے پہلے اپنی اسمبلی میں پاکستان کی قرار داد پاس کرنے والے صوبے کو کہیں دور نہ لے جائیں۔ کہا جاتا ہے مقتدر قوتوں نے اس کے لئے ایک حکمت عملی طے کی۔70ء کے انتخابات میں تو صرف اتنا ہوا کہ حیدر آباد سے ایک بہت ہی نستعلیق شخصیت مہاجر پنجابی‘پٹھان اتحاد کے نام پر منتخب ہو کر سندھ اسمبلی پہنچی۔یہ نواب مظفر تھے۔ اپنے مخصوص لباس میںیہ سندھ اسمبلی میں اپنی موجودگی کا احساس دلواتے تھے ۔یہ مگربہت پہلے کی بات تھی۔ اصل کہانی 85ء کے لگ بھگ شروع ہوئی۔ان دنوں کے غیر جماعتی انتخابات بھی اہم ہیں۔ ایک آدھ ٹریفک کا حادثہ اور اس کے نتیجے میں ایک طالبہ بشریٰ زیدی کی موت نے بھی غیر معمولی اثرات مرتب کئے‘ مگر شنید یہی تھی کہ طے کر لیا گیا ہے کہ سندھی قوم پرستوں کے توڑ کے لئے ایک محب وطن مہاجر قیادت قائم کی جائے گی۔ بہت سے ناموں پر کام ہو رہا تھا ایک اطلاع کے مطابق جماعت اسلامی سے الگ ہونے والے عالم دین وصی مظہر ندوی ضیا ء الحق کا انتخاب تھے مگر ہمارے مقتدر ادارے ان سے مطمئن نہ تھے۔ یہ تو شریف آدمی اور یہاں شور شرابا کرنے والے کی ضرورت ہے۔ اس پس منظر میں الطاف حسین ابھرے تاہم ان کے ابھرتے ہی شکوک و شبہات پیدا ہونے لگے۔ یہ تو زیادہ ہی مسالہ لگ جائے گا اور حالات کا سرپٹ گھوڑا بات کو بہت دور لے جائے گا۔ کراچی حیدر آباد سکھر میں الطاف حسین کے جلسے اور تقریریں آگ لگا رہے تھے۔ یہ الگ تشویش کی بات تھی۔ اتنے میں ایک اور آواز اٹھی یہ سلیم حیدر تھے۔ ڈاکٹر سلیم حیدر۔ انہوں نے جب اپنے جلسوں کا آغاز کیا تو حیدر آباد میں پہلا جلسہ کیا۔خبر آئی کہ الطاف حسین کے قیامت خیز جلسے سے کم نہ تھا۔ سکھر میں بھی یہ نقشہ بنا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے نوائے وقت میں اس کی کوریج ایسے کی جیسے کوئی متبادل مل گیا ہو۔ ڈاکٹر سلیم حیدر ملک کے ممتاز ای این ٹی سرجن ڈاکٹر جلیسی کے بھانجے تھے ۔یوں لگا ایک اچھے خاندان کا چشم و چراغ میدان میں آ گیا ہے۔ اب خطرہ ٹل جائے گا۔ مگر چند ہفتوں بعد اندازہ ہوا کہ انہوں نے چھ سات ماہ کی تاخیر کر دی ہے اور اب بات بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ الطاف حسین کو پرموٹ کرنے والے اب بہت آگے جا چکے ہیں۔ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔سلیم حیدر اس دوران اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات میں لگ گئے۔ انہیں حالات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس دوران بہت سے چہرے آگے پیچھے کئے گئے۔ یہ کراچی کی تاریخ کا ایک اندوہناک باب ہے۔ محترم نصرت مرزا اس پر بہت کچھ لکھ سکتے ہیں کیونکہ وہ بھی اس جدوجہد میں شامل تھے۔ کئی اتار چڑھائو آئے صرف حقیقی ایم کیو ایم ہی نہیں بہت کچھ ہوا۔ حتیٰ کہ یہ قوت ایک عفریت بن گئی اور اس کا راستہ روکنے کے لئے بہت سے جتن کرنا پڑے یہ جو آپ آج کل نقشہ دیکھ رہے ہیں وہ اسی قوت کو قابو کرنے کا شاخسانہ ہے۔ اس دوران سندھی قوم پرستی تو قابو میں آ گئی‘ مگر مہاجر قوم پرستی منہ زور ہو گئی۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی نے بڑے سلیقے سے سندھی رائے دہندگان پر اپنی دھاک جما لی۔ پیپلز پارٹی کا مسئلہ مگر یہ رہا ہے کہ وہ کراچی میں اپنا رسوخ قائم نہ کر سکی۔ یہ لسانی لڑائی تھی یا شہری اور دیہی تضاد کا شاخسانہ تھا یا کچھ اور‘ کراچی والوں نے کبھی پیپلز پارٹی کو دل سے قبول نہیں کیا۔ بے نظیر کی شہادت پر تو ایسی قیامت برپا ہوئی کہ لگتا تھا پیپلز پارٹی اب قابو میں نہیں رہے گی۔ تاہم داد دینا پڑتی ہے آصف علی زرداری کو انہوں نے ایک ہی فقرے سے ہوا کا رخ بدل ڈالا۔ جب لاڑکانہ میں پاکستان نہ کھپے کے نعرے لگ رہے تھے انہوں نے مائیک پر آ کر پاکستان کھپے کا نعرہ لگا دیا۔ وہ پورے ملک کے ہیرو بن گئے۔اقتدار ان کی جھولی میں ڈال دیا گیا۔ یوں لگتا تھا نواز شریف بھی پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ایک تیسری پارٹی پر تول رہی تھی۔ ایسے میں زرداری بہت غنیمت محسوس ہوئے۔اسی وجہ سے پنجاب میں یہ خواہش بھی پیدا ہونے لگی کہ نہ پیپلز پارٹی زور پکڑے کہ وہ ایک قوت کے طور پر موجود رہے آخر وہ وقت آیا کہ پیپلز پارٹی پنجاب کا نام تو لیتی تھی مگر انہوں نے خود کو سندھ تک محدود رکھنے کا فیصلہ کر لیا تھا باقی اس کے زور پر سیاست کرنے کی ٹھانی تھی۔ یہ اتنی طویل کہانی میں نے اس لئے سنائی کہ پیپلز پارٹی سے نیک خواہشات رکھنے والے میرے جیسے بھی اس کی دو باتوں سے نالاں رہتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ وہ کرپشن کا داغ خود پر سے نہیں دھو پائی۔ یہاں میں اس کے درست یا غلط ہونے پر کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔ دوسرے یہ کہ وہ اتنی سندھی ضرور ہو جاتی ہے کہ کراچی کے لئے ان کے ہاں ایک طرح کی مغائرت پائی جاتی ہے اگرچہ یہ رویہ بھٹو صاحب کے زمانے سے ہے کہ اپنے چہیتوںکو نوازا جائے۔ مگر اب تو لگتا ہے پانی سر سے گزرگیا ہے۔ ایک طرف تو یہ شور اٹھا ہوا ہے کہ لاڑکانہ اور کراچی میں غلط ڈومیسائل دیے گئے۔ سندھ میں ساری نوکریاں کوٹے پر ہیں۔ کراچی والوں کو شکایت ہے کہ ان کے کوٹے پر سندھیوں کو نوکریاں دی جاتی ہیں۔ لاڑکانہ میں کھیل یہ ہوا کہ وہاں کوئی پنجابی ڈپٹی کمشنر آ گیا تھا۔ اس نے غیر سندھیوں کو ڈومیسائل دے ڈالے۔اس کے ساتھ ایک قیامت یہ آئی کہ سندھ پبلک سروس کمشن نے امتحان اور انٹرویو لے کر 151تقرریاں کیں۔ ان میں سب اندرون سندھ کی ہیں۔مہاجر کہتے ہیں ایک بھی کراچی والا نہیں صوبائی خود مختاری اپنی جگہ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ سیاہ و سفید کے مالک بن جائیںاور اپنے شہریوں سے بھی انصاف نہ کر سکیں۔ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں اس طرح کی بہت بحثیں ہوتی تھیں۔ ایک صاحب تھے ڈاکٹر لطیف چودھری جو مرے پاس ایک بڑا خطرناک مضمون لے کر آئے جس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ کراچی میں پنجاب کے کوٹے پر جو لوگ تھے وہ دراصل اکثر غیر پنجابی تھے۔ بہت خوفناک اعداد و شمار تھے اور پوری کہانی تھی کہ ان کے ڈومیسائل کیسے بنے۔ ظاہر ہے پنجاب سے بنے ہوں گے۔ مطلب یہ کہ کوئی ایک قصور وار نہیں ۔میں 34سال کراچی میں رہا ہوں۔ وہاں کے کلچر‘ مزاج‘ تہذیبی زاویوںسے اچھی طرح واقف ہوں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ سندھ میں اگر یہی حالات چلتے رہے تو سندھ کا ایک رہنا مشکل ہو جائے گا۔سندھ کبھی کراچی سے الگ ہونا پسند نہیں کرے گا۔ سب کچھ تو اسی شہر میں ہے مگر اب حال یہ ہو گیا ہے کہ سندھ میں حکومت ہمیشہ پیپلز پارٹی کی آئے گی۔ سوائے اس صورت میں کہ اس کا ’’بندوبست ‘‘کیا جائے۔ ایسا ہوتا رہا ہے جو ایک غیرفطری رویہ ہے۔ کیا کراچی والوں کو کبھی احساس ہو سکے گا‘ان پر ان کی اپنی حکومت ہے۔ بلدیاتی نظام بننے نہیں دیا جاتا۔ سندھ سیکرٹریٹ کا جو حال ہے وہ کراچی والوں کومغائرت کا تاثر دیتا ہے۔ مجھے یاد ہے انہی دنوں 1984ء یا 85ء میں غوث علی شاہ جب چیف منسٹر تھے‘ میں نے انہیں اس واضح صورت حال سے کھلے عام آگاہ کیا تھا۔ اب تک جوڑ توڑ ہوتا رہا ہے مگر اب معاملات بہت دگرگوں ہیں۔ کراچی والے محسوس کرنے لگے ہیں کہ ان پر ان کی حکومت نہیں ۔ ایسے میں ڈاکٹر سلیم کومیں تو پھر سنا ہے ۔لگتا ہے وہ برسوں کی خاموشی توڑ کر میدان میں اتر آئے ہیں۔ ابھی کل ہی ان سے بات ہوئی۔ ان کا یہی کہنا تھا کہ کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ کچھ کر پائیں گے مگر ان کا مقدمہ مضبوط ہے۔ ان سے تفصیل سے بات ہوئی کہ ضرور پیش کروں گا۔ میں نے کراچی میں اپنے ایک پرانے ساتھی سے پوچھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کراچی کے سب دھڑے ایم کیو ایم‘پی ٹی آئی مسلم لیگ حتیٰ کہ جماعت اسلامی سب اس معاملے میں ہم آواز دکھائی دیتے ہیں کہ کراچی کی حق تلفی کا ازالہ ہونا چاہیے۔ میرا کراچی‘ مجھے بہت یاد کرتا ہے اور سلیم حیدر کے تذکرے سے تو مجھے بہت سی باتیں یاد آنے لگیں۔ اب جو بھلائے نہیں بھول سکتیں۔