شہریار زیدی نے کہا ہے: صحت فکر کے پرچم بڑھے کوفے کی طرف حق کی تحریک چلی مجاہد بیمار کے ساتھ کربلا کا منظر تو ایک طرف، پس منظر اور پیش منظر بھی دلدوز ہے۔ محرم اپنے اختتام پر پہنچ رہا ہے۔ یہ مہینہ اسلامی کیلنڈر کا اولین مہینہ ہے۔ یعنی آغاز ہی ایک بے نام اداسی سے ہوتا ہے جس میں کربلا کا دکھ اور حزن و ملال لمحہ لمحہ وقت میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ اس ظلم و ستم کا احساس ایک فطری عمل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ امام حسینؓ کی شہادت میں ایک بانکپن اور عظمت ہے کہ اس کے سوا کیا ممکن ہوسکتا تھا: جو ہوا کربلا میں، ہونا تھا کچھ ممکن نہیں تھا اس کے سوا کیسے جھکتا عدو کے آگے وہ وہ جو کٹ کر بھی سربلند رہا بات ہے ان پر ہونے والے ظلم اور بربریت کی کہ وہ کیسے شقی القلب اور راندۂ درگاہ تھے جنہوں نے یہ تک نہ سوچا کہ وہ نواسہ رسولؐ اور خانوادہ رسولؐ کے ساتھ کیا قیامت ڈھا رہے ہیں۔ وہ نبیؐ کے دوش پر سوار ہوئے تو آپؐ کبھی ایک کو چومتے تو کبھی دوسرے کو یعنی حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو۔ آپ حضرت امام حسینؓ کے گلے کو بوسہ دیتے تو آبدیدہ بھی ہو جاتے کہ آنے والے مناظر آپؐ پر کھول دیئے گئے تھے۔ ٹریجڈی ہمیشہ زندہ رہتی ہے اور واقعہ کربلا سے بڑھ کراور کون سی ٹریجڈی ہوگی۔ اس میں Suffer کرنے والا فاطمہؓ کا لاڈلہ جنت کے جوانوں کا سردار، آب کوثر کا وارث، یہ قربانی ہر زمانے پر محیط ہے اور یہ حقیقت ہے کہانی نہیں، یہ زندگی کاراز ہے اور اس راز کی قیمت بھی زندگی ہے۔ پھر شہادت ہی تو زندگی ہے۔ اللہ کہتا ہے کہ شہید زندہ ہے۔ یہ کربلا کا کرب کہانی نہیں کوئی منشائے حق ہے نقل مکانی نہیں کوئی جب تک رہے گی دنیا رہے گا غم حسینؓ اس داستاں میں عیب زمانی نہیں کوئی اصل میں آج مجھے ایک مسالمہ کے حوالے سے کچھ تحریر کرنا تھا جو انٹرنیشنل نعت مرکز کے زیراہتمام نوجوان شاعر ارسلان احمد ارسل اور ان کے والد مکرم ریاض احمد شیخ نے اپنے آستانہ پر منعقد کیا تھا۔ ارسلان مجھے اچھا لگتا ہے کہ عنوان شباب میں وہ خیر کی طرف آ گیا۔ اس نے خود کو نہ صرف نعت کے ساتھ جوڑا بلکہ وہ دوسروں کو بھی ادھر راغب کرتا ہے۔ میں اس محفل میں گیا تو کئی پرانے دوستوں سے ملاقات بھی ہو گئی۔ گلزار بخاری کی صدارت تھی جو ایک قادرالکلام شاعر ہیں: پہلے تو پیغمبرؐ نے بتایا کہ خدا ہے پھر اس کے نواسے نے دکھایا کہ خدا ہے بتا گئے ہیں یہ گلزار کربلا و دمشق لہو میں فرد نہیں خاندان بولتا ہے مجھے اس سے نہ جانے اچانک ایک درویش شاعر منیر سیفی یاد آگئے کہ ان کا ایک شعر مجھے کبھی بھولتا ہی نہیں۔ دیکھئے حضرت امام حسینؓ کا تعارف انہوں نے کیسا کروایا ہے: جلا بھی شدت جاں سے بجھا بھی شان سے تھا وہ اک چراغ جو سورج کے خاندان سے تھا بہرحال بہت اعلیٰ نشست تھی۔ سنانے والے بھی شاعر اور سننے والے شاعر اور درجن بھر دوسرے لوگ بھی بہت اچھے سامع اور امام عالی مقام سے مؤدت رکھنے والے تھے۔ حسنین محسن سے بیس سال بعد ملاقات ہوئی۔ نعت لکھنے کے لیے جائوں در زہرا پر اور در زہرہ پہ فضہ سے اجازت مانگوں یہ دلچسپ بات ہے کہ ہمارے بعض دوست نعت سلام کی فضا میں لکھتے ہیں اور بعض سلام نعت کی فضا میں۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ نعت میں اہل بیت کا تذکرہ آتا ہے اور اہل بیت کے ذکر میں آقاؐ کی ثنا و توصیف۔ بات ساری نیت کی ہے۔ محمدؐ اور آل محمدؐ کا تذکرہ تو درود میں آ کر ہر نماز کا حصہ بنتا ہے۔ ایک قطعہ سید محمد باقر نے پڑھا: گنجینۂ ایمان کا گوہر نظر آئے الہام کی خوشبو سے معطر نظر آئے جب تو سن تہذیب بشر بام پہ پہنچا اخلاق کی سدرا پہ پیمبر نظر آئے میرا دل تو چاہتا ہے کہ سب کا نمونہ کلام اپنے قارئین تک پہنچادوں مگر شاید اس کی گنجائش کالم میں نہ ہو۔ چلیے کچھ تو ہو جائے: زندگی اس طرح سنواری ہے غم شبیرؓ میں گزاری ہے (وسیم عباس) غم شبیرؓ میں وہ آنکھ سے برسا پانی غم ہی ایسا تھا بھلا کیوں نہ برستا پانی (ارسلان احمد ارسل) ستم شعاروں کے نرغے میں برسرپیکار ہر ایک فرد کے لیے ہم رکاب کرب و بلا (پروفیسر ریاض احمد شیخ) حر ایسے شام کے لشکر سے نکلے کہ چشمہ جس طرح پتھر سے نکلے جس مطلوب ہو رازق کی مرضی وہ پہلے رزق کے چکر سے نکلے