واقعہ کربلا مسلمانوں کے لئے ایک عظیم درس ہے سیدناحسینؑ نے قیامت تک دنیا کو باور کرادیاکہ حق کے لئے سر کٹایا جاسکتا ہے مگر جھکایا نہیں جاسکتا۔ کشمیرمیں جاری معرکہ حق وباطل کامطالعہ کریں توصاف دکھائی دیتاہے کہ کشمیر میں پیش آرہے سانحات،قابض بھارتی فوج جس نہایت بے رحمی اوربے دردی سے کشمیرکے بچوں، بچیوںاورخواتین کے ساتھ ماردھاڑاورظلم و ستم کررہی ہے وہ سب واقعہ کربلا سے مماثل ہیں۔کربلاکی طرح کشمیرمیں بھی ظلم کی کوئی حد نہیںہے ۔ کربلامیں حسینی قافلے کامحاصرہ کیاگیااورانکے خیمے جلائے گئے ،جبکہ کشمیر بھارتی افواج کے کڑے محاصرے میں ہے اورکشمیری مجاہدین اورعام شہریوں کے گھرجلائے جا رہے ہیں، مسمارکئے جارہے ہیں،کربلامیںعلی اصغر کو شہید کر دیاگیا کشمیرمیں بھی ننھے منے بچوں کوبہیمانہ طریقے سے قتل کیاجارہاہے ۔کربلامیں شہداء کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی اسی طرح کشمیرمیں بھی شہداء کی نعشوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے ۔ بھارت سے مکمل آزادی کشمیریوں کا حق ہے آخرحق کی فتح ہوگی باطل کو شکست ہوگی ۔ امت مسلمہ اس لحاظ سے ایک جداگانہ ملت ہے کہ اس کے تناور درخت کی آبیاری شہداکے مقدس خون سے ہوتی رہی ہے۔غزوہ بدرسے غزوہ ہندتک، قربانیوں کی طویل داستان ہے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے اورجب تک چراغ مصطفوی سے شراربولہبی ستیزہ کاررہے گا، یہ مشق ستم جاری رہے گی۔ آسمان گواہ ہے کہ دورعروج سے غلامی کی زنجیروں کے دوران تک شہداکے پنگھوڑوں کو جھولا دینے والی مقدس ماں کی کوکھ کبھی بنجر نہیں ہونے پائی اور کربلاسے کشمیرتک سرخ اور نوجوان خون نے توحید کی امانت داری کاحق اداکیاہے۔امت مسلمہ کے شہدا قرآن مجید کی اس آیت کی عملی تفسیر بنتے ہیں کہ اللہ تعالی کے راستے میں مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیںاور پھر موت سے ہم آغوش ہوکر حیات جاودانی پا جاتے ہیں۔یہ وہی پاک طینت اورپاک نفوس ہیں جن کی شان میں خالق کائنات فرماتاہے ۔ترجمہ!جولوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں انہیں مردہ مت کہووہ زندہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں سے رزق بھی پاتے ہیں لیکن تمہیں ان کی زندگی کاشعور نہیں۔غزوات اورحق وباطل کے معرکوں میں کتنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور اب یہ منصب جلیلہ امت وسط کے نوجوانوں کامقدر بناہے،کتنے نصیب والے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں یہ مقام حاصل ہوجاتاہے اور جام شہادت نوش جان کرتے ہیں۔ کشمیرمیں حق وباطل کامعرکہ برپاہے ۔ مسلمانان کشمیر گزشتہ پون صدی سے آج دن تک برہمن کے ظالم پنجہ سے نبردآزما ہیں۔بے شمارفرزندان توحید نے جن میں نوجوانوں کی تعداد 99 فیصد ہے اس سرزمین پر خونین قربانیوں کی لازوال داستان رقم کی ہے جوسب کے سب تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی و کامرانی کے چمکتے ہوئے ستارے ہیں۔شہادت پانے والے خوبصورت ،خوب سیرت ان ہنستے مسکراتے نورانی چہر وں پرشہادت کے بعد بھی جو مسکان ہوتی ہے بڑی دلربااور دیدنی ہوتی ہے۔ بچے کی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہی ہوتی ہے اور ماں کی لوری اس بچے کی خالی تختی پر جو بھی کنداں کر دے اسے دنیاکی کوئی طاقت مٹانے پر قدرت نہیں رکھتی۔ اس دنیاکوقربان کرنا فی الحقیقت نفع مند تجارت ہے جس میں خسارے اور ٹوٹے کاکوئی اندیشہ نہیں۔ جواہل ایمان اپنے اعلی مقاصد اورآفاقی نصب العین کی تلاش میں نکل کراس راہ میں شہید کر دیا جائے۔اس تمغہ کوپانے والے گھرانے کوآسمان کے فرشتے ایسے دیکھتے ہوں گے جیسے اہل زمین سورج اور چاند کو دیکھتے ہیں۔ کشمیر کے یہ نوجوان جوافق کے اس پارچلے گئے اپنے بچپن سے ہی بھارتی افواج کے ظلم و ستم کی کہانیاں نہ صرف یہ سن رکھی تھیں بلکہ بہت اوائل عمری سے ان کے آنکھوں کے سامنے خون کی یہ ہولی بھی جاری تھی۔اپنے بچپن سے لڑکپن تک اور ہوشمندی کے زمانے کے آغاز میں ہی ان نوجوانوں کے قلوب واذہان میں قابض بھارتی فوج،ہندوکی رام راج حکومت،کشمیرکی کٹھ پتلی انتظامیہ اور بھارتی حکمرانوں کے خلاف ایک لاوا پکناشروع ہو گیا۔ واضح رہے کہ بھارت سے نفرت کا بحربیکراں اس مدت سے ہر کشمیری کے دل میں موجزن ہے جس مدت سے بھارت اس دھرتی پرقابض ہے۔ بالآخر اس نفرت نے1990ء میں سونامی کی شکل اختیارکی جس کااظہارسب کے سامنے ہے۔غلیظ بھارتی فوجیوںکی کمینگی،انکے ناپاک ہاتھوں سے اسلامیان کشمیرکی چادراورچاردیواری کی بے حرمتی ،نوجوانوں کا قتل عام ،کشمیریوںکو اغواکرکے لیجانااورپھر تشدد شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئیں جبکہ ہزاروں نوجوانوں کی سالہاسال تک کوئی خبر ہی نہیں کہ زمین کھاگئی یاآسمان اچک گیاانہیں۔ان ہزاروں لاپتہ نوجوانوں کے بوڑھے والدین میںبہت سارے پولیس تھانوں،فوجی یونٹوں اورعدالتوں سے دھکے کھاکھاکر ملک عدم کو سدھارگئے اور خاندان کے خاندان یوں ہی اجڑگئے۔کرب والم کی یہ کہانیاں اوریہ داستانیںکم و بیش کشمیری ہر خاندان کے پاس موجود ہے۔کشمیر کاچپہ چپہ خاص طورپر اورپورے بھارت کاقریہ قریہ عام طور پر اس طرح کی ان گنت داستانوں کا رونارورہاہے۔ پون نصف صدی بیت چکی ہے کہ برہمن سامراج کی قابض افواج ایک نہ ٹوٹنے والے تسلسل کے ساتھ اہل کشمیر پر زمین تنگ کیے ہوئے ہے۔شکست خوردہ دس لاکھ بھارتی قابض ا فوج مظلوم کشمیریوں پر تیروتفنگ سے لیس ہوکر مسلط رہیں، پردنیامجرمانہ خاموشی اختیارکئے ہوئے ہے۔جس سینے میں ایمان کی رمق موجود ہو حق وباطل کے معرکوں میں خودسپردگی ممکن نہیں ہوتی۔ بھارتی فوجی درندوں کے کشمیری مسلمانوںکے ساتھ انتہائی غیرانسانی سلوک نے نوجوانان کشمیرکی غیرت ایمانی کوللکارا۔ایک ایسی فوج جواغیارکی ہے کشمیرسے اس کاکوئی رشتہ وتعلق نہیں کشمیر کے مکینوں کوقتل کرے ،عمررسیدہ کشمیریوں کو مارنے پیٹنے ننگی گالیاں نکال کر ان کی عزت نفسانی مجروح کرے آخرصاحب ضمیراسے کس طرح برداشت کرسکتاہے؟یہ اسی ظلم وجبراوربربریت کا ردعمل ہے کہ کشمیری نوجوانوں نے قابض بھارتی فوج سے انتقام لینے کے لیے عسکری راستہ اختیار کیا ان کا جذبہ مقاومت بہت قیمتی اور قابل دیدہے اور انہوں نے بھارتی طاغوت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر علی الاعلان جہادفی سبیل للہ کاراستہ اختیار کیا اور دنیا میں سربلند اور اللہ تعالی کے ہاں سرخرو ہوئے۔ قابض بھارتی فوج کے خلاف لڑنے والے معرکوں میںجب وہ شہادت کاجام پی لیتے ہیں لوگوں کی اتنی بڑی تعدادہوتی ہے کہ پچاس ،پچاس مرتبہ ان کانمازجنازہ پڑھاجاتاہے اس کے باوجود پھر بھی کئی لوگ اس سعادت سے محروم رہتے ہیں کہ انہیں جنازہ گاہوں میں جگہ نہیں ملتی۔ المختصر! روہنگیا کے مسلمانوں کی حالت دیکھیں۔ ان پر محض مسلمان ہونے کے باعث ظلم و ستم ہورہا ہے لیکن مسلم ممالک نے چپ سادھ لی ہے۔گزشتہ ستر برس سے کشمیر اورفلسطین میں بربریت کا راج ہے لیکن مسلم ممالک عملاًکشمیریوں اور فلسطینیوں کی مدد نہیں کررہے ہیں۔ افغانستان، عراق اورشام میں مسلمانوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہورہا ہے۔ افغانستان، عراق اور شام پر یلغار کیلئے کفار اکٹھے ہوئے لیکن مقام افسوس ہے کہ مسلمان آپس میں دست و گریبان ہیں۔ہمیںسانحہ کربلا سے یہ درس سیکھنا چاہئے۔