9نومبر کو ہم نے یوم کرتار پور بھر پور مذہبی عقیدت و احترام سے منایا۔ روح پرور بھنگڑوں نے ساری فضا روحانیت سے معمور کر دی ہے۔ وزیروں نے ست سری اکال کے نعرے لگا کر فضا نہال کر دی۔ بعض عناصر نے اس روز یوم اقبال منایا۔ کوئی بات نہیں۔ ع اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو حکومت نے سکھ برادری سے مواخات کے لئے فیصلہ کیا کہ کرتار پور آنے کے لئے پاسپورٹ از ضروری نہیں۔مزید مواخات کے لئے یہ فیصلہ بھی ہوا کہ سکھوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی بے روک ٹوک آ سکیں گے۔ دیگر مذاہب میں ہندو‘ مسیحی اور بودھ شامل ہیں۔ بھارت میں مسلمان بھی بستے ہیں‘ اطلاع ثانی ان کے لئے کوئی اجازت نامہ واضح نہیں۔ سکھوں سے مواخات کا سلسلہ بڑا پرانا ہے۔ یاد ہو گا۔ یاد نہیں ہو گا تو پڑھا ہو گا کہ جب 1947ء میں پاکستان بن رہا تھا تو منگولوں‘ ھنوں‘ تاتاریوں اور مرہٹوں نے مشرقی پنجاب میں کیسی قیامت ڈھائی تھی۔ بارہ پندرہ لاکھ مسلمانوں کو قتل کر دیا۔ بچے ذبح کر دیے۔ ان کی بستیاں نذر آتش کر دیں۔ عورتیں اٹھا لیں۔ اس وقت سکھوں ہی نے مسلمانوں کی مدد کی تھی اور انہیں باحفاظت مغربی پنجاب یعنی پاکستان پہنچایا تھا۔ کرتار پور کاریڈور اسی کا ہدیہ تشکر ہے۔ کرتار پور کو ہم کتنی اہمیت دیتے ہیں‘ اس کا اندازہ یوں لگائیے کہ حکومت کا ہر چھوٹا بڑا اٹھتے بیٹھتے یہی کہتا ہے کہ کرتار پور سکھوں کے لئے ویسا ہی ہے جیسا مسلمانوں کے لئے مکہ مدینہ۔ چاہتے تو کسی اور مقام سے بھی تشبیہ دے دیتے لیکن اس سے عقیدت و احترام بھی تو متاثر ہوتی۔ پاکستان بھر سے بالعموم اور کراچی سمیت سارے سندھ سے بالخصوص لاکھوں افراد ہر سال خواجہ اجمیری کی نگری جانا چاہتے ہیں ۔یہ ہمسایہ ریاست راجستھان میں ہے۔ فی الحال سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کھوکھرا پار کا بارڈر بند ہے لیکن کیا پتہ‘ کرتار پور کے صدقے انہیں بھی اجازت مل ہی جائے۔ کرتار پور سے مقامی پاکستانی مسلمانوں کی والہانہ محبت کا کیا حال ہے‘ اب کیا بتائیں۔ اسی سے اندازہ لگا لیجیے کہ اردگرد کے دیہات کے دیہاتیوں نے اپنی پچاس پچاس لاکھ ایکڑ کی اراضی کوڑیوں کے بھائو دے دی اور مزید عقیدت دیکھئے یہ کوڑیاں بھی ابھی وصول نہیں کیں۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بار بار سوال اٹھا رہے ہیں کہ کرتار پور کا مقدس دن 9نومبر ہی کو کیوں رکھا گیا۔ مولانا فضل الرحمن بار بار پوچھ رہے ہیں‘ اصل ارادے کیا ہیں۔ دونوں متحرمین نے شورش کاشمیری مرحوم کی وہ کتاب پڑھ رکھی ہو گی جو انہوں نے 1970ء کے آس پاس لکھی تھی۔ حساب کتاب اس کتاب میں درج ہیں۔ نہیں پڑھی تو مارکیٹ سے منگوا لیں ابھی اس پر پابندی نہیں لگی ہے۔ ٭٭٭٭٭ سابق وزیر اعظم نواز شریف(اقامہ کا گوشورہ پوری طرح نہ بھرنے کے جرم میں عمر بھر کے لئے نااہلی یافتہ اور اپنی بے گناہی ثابت نہ کرنے کے جرم میں سات سال کے لئے قید یافتہ ) کی بیرون ملک روانگی کی خبروں پر تبصرہ کرتے ہوئے شیخ رشید نے کیا کہا؟ یہ کہا کہ یہ صحت کا معاملہ ہے‘ اس پر سیاست نہیں کرنی چاہیے حیرت ناک بات ہے۔ ان کا لہجہ کیوں بدل گیا۔ ابھی چند ماہ پہلے تک ان کی خبر کچھ یوں تھی کہ ان کا تابوت ہی جیل سے نکلے گا۔ یہ لہجہ کیوں بدل گیا؟ کہتے ہیں یہ سب وٹس ایپ کرامات ہیں۔ وٹس ایپ کی ہنگام رسانی سے خبر بھی بدل جاتی ہے اور قضا و قدر کے معاملات بھی۔ فیصلے بھی اور حوصلے بھی۔ مزیدفرمایا‘ نوازشریف ایک پیسہ بھی نہیں دے رہے۔ یہ تو پرانی خبر ہے۔ پہلے بھی کہہ چکے ہیں اور سب کو پتہ ہے لیکن اس بات سے یاد آیا کہ اس تین سو ارب روپے کا کیا بنا جو عمران خاں کے بقول نواز شریف نے کسی نامعلوم سال میں کسی نامعلوم مقام سے نامعلوم ذریعے کو بروئے کار لاتے ہوئے چوری کئے تھے اور پھر نامعلوم مقام پر پہنچا دیے تھے؟ ٭٭٭٭٭ عمران خاں نے چند ماہ پہلے ایک تحقیقاتی ٹریبونل یا کمشن بنایا تھا تاکہ اس بیس ہزار ارب ڈالر کے قرضے کا سراغ لگا سکے جو پچھلے دس برس میں اس وقت کے حکمران کھا گئے۔ اس کمشن نے رپورٹ دی ہے کہ قرضہ سارے کا سارا انہیں منصوبوں پر لگایا گیا جن کے لئے لیا گیا تھا اورکچھ بھی رقم خورد برد نہیں کی گئی۔ اس رپورٹ سے محب وطن حلقوں کے دل کتنے دکھی ہو گئے کچھ نہ پوچھیے۔عمران خان کے دل پر جو گزری سو گزری‘ نیب کے چیئرمین کا دل کیسا ٹوٹا ہو گا جنہوں نے بار بار سوال کیا تھا کہ پچھلے دس برس میں اتنے قرضے لئے گئے۔ کچھ بھی خرچ کیا ہوا نظر نہیں آتا۔ آخر گیا کہاں، ان کے درد بھرے سوالات سے فضا کیسی رقت انگیز ہو جاتی تھی۔ قوم و وطن کے دردمیں سر سے پائوں تک درد کی تصویر بنے چیئرمین نیب کو اس رپورٹ کی کاپی پتہ نہیں کسی نے بھجوائی بھی کہ نہیں۔