ڈاکٹرسید لیاقت تابان نہ صرف خوش گفتاری اور خوش طبعی میں اپنی مثال آپ ہیں بلکہ قدرت نے انہیں ظاہری حُسن وجمال سے بھی نوازاہے۔ کوئٹہ کے ادبی حلقوں کے یار لوگ جتنے ایک دوسرے سے شاکی ہیں، میرایقین ہے کہ اتنا ہی وہ ڈاکٹر تابان کے محبت بھرے رویے کے مداح بھی ہونگے۔پشتو کے ایک مشہورٹپے( دیدن دی کلہ کلہ شہ دے ۔۔) کے مطابق اگرچہ وصل کی فراوانی دوستوں کی وقعت میں کمی کا باعث بنتاہے لیکن ڈاکٹر تابان کے بارے میں ایسا نہیں،بلکہ ان کی مسلسل ملاقاتوں کے بعدبھی بندہ ان سے ملنے کی تشنگی محسوس کرتاہے ۔ڈاکٹرتابان آج کل پشتو ادب کے ایک جاندار کردار کے طور پر اپنا لوہا منواچکے ہیں۔شاعراور محقق ہونے کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے آپ کوایک کامیاب سفرنامہ نگار بھی ثابت کیاہے۔ ان کے قلم سے اب تک سات ملکوں کی سیاحت کے سفرنامے منظرعام پر آچکے ہیں جن میںتھائی لینڈ، ازبکستان،سعودی عربیہ ،موریشیس و متحدہ عرب امارات،ملائیشیاء ، ترکی اور آذربائیجان شامل ہیں۔سفرحقیقت میں ایک کشف طرح کی ہوتاہے جوانسان پر نئے علوم ،نئی دنیااورنئی حقیقتوں کے دروازے وا کرتاہے ۔مولاناابوالکلام آزاد فرماتے ہیں کہ ’’ میں نے آدھا علم سفر سے حاصل کیا ہے، مطالعہ کی تنہائیوں نے مجھے ذہنی بالیدگی بخشی لیکن سفر کے مشاہدات نے میری نظر کو وسعت دی، جو لوگ سفر نہیں کرتے وہ گنبد میں رہتے ہیں‘‘۔ظاہر بات ہے کہ اپنے اسفار کے دوران ڈاکٹر لیاقت تابان نے خود کوبھی بہت کچھ سے آگاہ کیاہوگا اور ہمیں بھی آگاہ کرنے کی انہوں نے بھرپورسعی کی ہے۔ فی الوقت میرے سامنے ان کے دوتازہ سفرنامے پڑے ہیں جنہیں اپنے دوست شہیم کاکڑ سے میں نے مستعارلیا ہے ۔ تہذیبوں کا گہوارہ‘‘ (د تہذیبونوزانگو) نامی سفرنامہ انہوں نے ترکی کے سفرکے نتیجے میں تخلیق کیاہے جبکہ ’’ کوہ قاف کی پریاں جب پشتون ہوئیں‘‘ ( شاپیرئی دکوہ قاف چی پشتنے سوے) کے نام سے موسوم سفرنامہ ان کے آذربائیجان یاتراکانچوڑ ہے ۔ یہ دونوں سفرنامے دوبرس قبل شائع ہوئے ہیں جس میں ڈاکٹر لیاقت تابان نے ان دو ملکوں کی تاریخی حیثیت، قدیم آثار ، وہاں کے لوگوں کے رسم ورواج اور طرز معاشرت کے بارے میںاپنے قارئین کو تفصیل سے جانکاری دی ہے۔ تاریخ اور جغرافیے پر عبوررکھنے کے طفیل ڈاکٹرتابان نے مختلف تاریخی حوالوں سے اپنے سفرنامے کوخوب معیاری بنایاہے ۔سردست ہم ترکی کو لیتے ہیں اور سچ بات یہ ہے کہ ترکی تہذیبوں کا گہوارہ اور شاہکار قدیم تاریخ کاحامل ملک رہاہے ۔ترکی کے سفرکے دوران اگرچہ موصوف اپنے دوساتھیوں سمیت صرف اناطولیہ اور استنبول شہروں میں گھوم سکے ہیںلیکن ان کا یہ سفرنامہ پڑھ کر ایک قاری کوپورے ترکی کے بارے میں جانکاری ملتی ہے۔ترکی، نیوالی جوری ، خاجی لراور چتل خیواک جیسے انسانی تہذیب کے اولین آبادکاریوں سے لے کراناطولیہ اور استبول جیسے تاریخی شہروں کی امین سرزمیں رہی ہے۔ اناطولیہ جسے ترک لوگ اناضول یا اناضولیہ کہتے ہیں ، ایک وسیع وعریض تاریخی جزیرے کانام ہے اور آج کل یہ ترکی کے اکیاسی صوبوں میں سے ایک ہے اور اسی نام کا شہر بھی آباد ہے۔ اسی طرح استنبول بھی قدیم تاریخ کے حامل شہر وں میں سے ایک ہے۔کہاجاتاہے کہ ایتھنزاور روم کے علاوہ استبول کا کوئی دوسرا شہرہمسری نہیں کر سکتا۔ استبول گیارہ سوسال تک رومی سلطنت کاپایہ تخت رہ چکاہے اوراس کاقدیم ترین نام زارغراد تھا۔رومی اور یونانی دور میں یہ بیزنطہ کہلایا گیا۔ تیسری صدی عیسوی میں جب رومی بادشاہ قسطنطین نے جب اس شہر کواپنا پایہ تخت بنایاتو اس کانام قسطنطنیہ پڑگیا۔قدیم عربی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تواس میں اس شہرکو’’ مدینۃ الروم ‘‘ کہاگیاہے ۔ رومیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعدوسط ایشیاء سے آنے والے سلجوقیوں نے ترک خطے میں اسلامی تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت ’’عثمانیہ ‘‘ کی بنیاد رکھی یوں یہ شہرقسطنطنیہ سے استانبول یااسلامبول ہوگیا۔ترکی میں چھ سوتیس برس تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی اور بالآخر خلافت کی صورت میںعالم اسلام کایہ عظیم اتحاداپنوں کی ریشہ دوانیوںاور اغیار کی عیاری کے نتیجے میں پارہ پارہ ہوکر رہ گئی ۔ ترکی کے سفر کے نتیجے میںلکھے گئے سفرنامے میں ڈاکٹر تابان نے نہایت دلچسپ انداز ِ تحریر اور بڑی خوبصورت منظرکشی کی ہے ۔اپنے سفرناموں میںانہوں نے تکلفات سے پاک اور ٹھیٹھ علاقائی پشتو زبان کااستعمال کیاہے ۔اپنے اسفار کے دوران انہوں نے محض ہوٹلوں میں قیام اوررنگین محفلوں کی منظرکشی کرنے کی بجائے وہاں کے تاریخی مقامات کو دیکھنے اور اس سے متعلقہ معلومات اکٹھا کرنے پر زیادہ فوکس کیاہے ۔مثلاً اتاترک مسجدکا ذکر، اناطولیہ کے میوزیم میںرکھے ہوئے مختلف تاریخی آثارکے بارے میں معلومات اکٹھاکرنا،وہاں پررکھے گئے ہیریکلزکے تاریخی مجسمہ کے بارے میں معلومات ،تاریخی استبول کے چپے چپے کی حوالے سے خبریں اور قونیہ میں مولانائے روم ؒکے مزار پر حاضری وغیرہ سب وہ تاریخی علاقے اور مقامات ہیںجن کا سفرنامہ نگار نے بہت قریب سے مشاہدہ کرنے اور سمجھنے کی جستجو کی ہے ۔تابان نے ان تاریخی مقامات کے محض نام بتانے پراکتفاء نہیں کیاہے بلکہ طویل پس منظر میں جاکراس بارے میں انہوں نے اپنے قارئین کیلئے کماحقہ معلومات اکٹھاکیاہے۔ مثال کے طور پرقونیہ میں مولاناروم ؒ کے مزار پر حاضری دینے کے ساتھ ساتھ انہوں نے مولانا کی جائے تولد، نسل ، ان کاآبائی علاقہ ،مولاناکی کی شاعری، مولاناکے مرشد استادشمس تبریزاوران کے صوفیانہ کمالات کے بارے میں بڑی مفصل باتیں کی ہیں ۔