بٹوارے کے وقت کھینچی گئی لکیر کے اس پار گورداسپور کے چھوٹے سے قصبے ڈیرہ بابا نانک کی اس وقت آبادی لگ بھگ سات ساڑھے سات ہزار کے قریب ہے جو ہندی الفاظ کی آمیزش لئے خوبصورت لہجے میں پنجابی بولتے ہیں تو صاف پتہ چل جاتاہے کہ ان کا تعلق بھارت کے پاس رہ جانے والے پنجاب سے ہے اس ہرے بھرے قصبے میں مہمانوں کی اوراجنبیوں کی آمدورفت ہمیشہ سے ہی زیادہ رہی ہے ،خاص کر جاڑے کی گلابی سردی میں لپٹے نومبرمیں یہاںگھنی داڑھیوں رنگین پگڑیوں ،ہاتھ میں کڑا ڈالے کاندھے سے کرپان لٹکانے والے سکھوں کی آمدورفت کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے یہ سکھ یہاں دوربینوں سے سوا چار کلومیٹر دور ایک سفید رنگ کی عمارت کو فوکس کرتے ہیںاگر مطلع صاف نہ ہو دھندچھائی ہو یا بادل برس رہے ہوں تو ان کے چہروں پر افسردگی چھا جاتی ہے یہ بار با ر آسمان کی طرف تکنے لگتے ہیں اور بادلوں کے پیچھے چھپے سورج کا انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کب سورج چمکتی دھوپ پھیلاکر مطلع صاف کرے گااور وہ دوربین کی آنکھ سے فاصلہ سمیٹ کر اس بڑی سی سفید عمارت کی زیارت کر سکیں گے جو ان کے گرو بابا نانک کی سمادھی ہے یہاں سکھ کے مذہب کے بانی اوران کے بابا گرو نانک کی یادیں ہیں،قبر ہے ،یہ دنیا کے ستائیس ملین سکھوں کے لئے بڑا مقدس اور متبرک مقام ہے شکر گڑھ پاکستان میں واقع کرتار پور نامی گاؤں بابا گرو نانک نے ہی آباد کیا تھا،وہ یہاں 1521ء میں آئے تھے انہوں نے یہاں ہل جوتا کھیتی باڑی کی اور یہیں زندگی کے آخری دن بھی گزارے،سکھوں کے لئے شکر گڑھ کا کرتار پور شکر سے میٹھا ہے انکے لئے اس زمین کو چھونا کسی اعزاز سے کم نہیں جہاں انکے گرو نانانک جی نے قدم رکھے، زمین آباد کی ، روزو شب گزارے اور اٹھارہ برس تک قیام کیا،1947ء میں یہ خطہ تقسیم ہو کر پاکستان اور بھارت میں آگیا لیکن تقسیم کے باوجود کرتار پور سے محبتیں تقسیم نہ ہوئیںبلکہ ضرب ہوتی رہیںیہی عقیدت اور محبت پاک بھارت سرحد پر قائم ڈیرہ بابا نانک پر سکھ یاتریوں کو دوربینوں سے آنکھیں لگانے پر مجبور کرتی رہتی تھیں لیکن نو نومبر کے بعد سے شائد ان دوربینوں کی ضرورت نہیں پڑے گی پاکستان نے اپنے بازو اکرکے کرتار پور کی راہداری کھول دی ہے ۔ باباگرو نانک کے550ویں جنم دن کے موقع سکھوں کو دیئے گئے کرتار پور راہداری کے تحفے نے بھارت میں آباد دو کروڑ سے زائد سکھوں کی آنکھوں کی چمک بڑھا دی ہے ،ان کے چہرے خوشی سے تمتمانے لگے ہیں ان کا بس نہیں چل رہا ہے کہ اڑ کر کرتار پور پہنچیںاور استھان میں سجدہ ریزہوجائیںجہاں انکے بابا گرو نانک کی سمادھی ہے ، اس خوشی کے ساتھ ہی بھارتی پنجاب میں سکھ انجمنوں کی جانب سے عمران خان کے لئے لگائے پوسٹر اور بینرز نے نئی دہلی کی آنکھوں میںتشویش کی لہربھی دوڑا دی ہے۔پاکستان،بنگلہ دیش ،سری لنکا،مالدیپ ،نیپال اور افغانستان تک اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والی آنکھیں چوبیس ملین سکھوں کی آنکھوں اور زبانوں پر پاکستان کے اظہار تشکر سے پریشان ہیں ۔سوشل میڈیا پردوبھارتی سکھ لڑکیوںکا عمران خان کے لئے گایا گیا دعائیہ گیت ہر روزلاکھوں لوگوں کے سیل فون پر پہنچ رہا ہے بھارتی میڈیا چیخ وپکار کر رہا ہے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہا ہے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ پاکستان نے کارروائی ڈال دی ہے ۔سکھوں کے دلوں میں پاکستان کے لئے نرم گوشے کا صاف مطلب خالصتان تحریک کی جڑیں مضبوط ہونا ہے۔ سکھ لڑکیوں کے دعائیہ گیت نے بھارتی میڈیا کا بیانیہ ہی بدل ڈالا ہے، اس سے پہلے بھارت کے چیختے چلاتے نیوز اینکر مودی کی سعودی عرب میں موجودگی پر بغلیں بجا بجا کر کہہ رہے تھے کہ سعودی عرب نے مسئلہ کشمیرپر خاموش رہ کر بھارت کو ’’اوکے ‘‘ کا پیغام دے دیا ہے۔مودی کی سفارت کاری نے پاکستان سے اسکا ایک مضبوط دوست چھین لیا ہے ،پاکستان کی کمزور معیشت کو اب سعودی عرب سے کسی قسم کے وٹامن نہیں ملیں گے۔ اسکے جواب میں پاکستان کا میڈیابھارتی میڈیا کوپاک سعودی تعلقات کی گہرائی اور گیرائی کا اندازہ کروانے کے بجائے اسلام آباد کے شاہراہ کشمیرکے دھرنے میں پھنسا رہا،ان کے کیمرے مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں ایسے پھنسے کہ انہیں سرحد پار کا رخ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔مولانا کا یہ دھرنا حکومت کا دھڑن تختہ کرے گا یا نہیں البتہ اس نے بہت سے قومی ایشوز پر پاکستانی موقف کا دھڑن تختہ کردیا ہے۔۔۔ خالصتان تحریک اپنی رفتار سے چل رہی ہے،سکھ جسٹس کا خالصتان کے لئے ریفرنڈم2020ء سر پر کھڑا ہے۔کینیڈا، انگلینڈاور امریکہ کے سکھ خالصتان تحریک سے جڑے ہوئے ہیں اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات ان حریت پسند سکھوں کا کشمیری حریت پسندوں سے مضبوط ہوتارابطہ ہے ۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے پر دنیا بھر میں ہونے والے مظاہروں میں جہاں جہاں کشمیری آزادی کے نعرے لگاتے دکھائی دیئے وہاں وہاں خالصتان تحریک کے حریت پسند بھی ان کی آواز سے آواز ملانے کے لئے موجود نظرآتے ہیں۔ اس وقت بھارت میں مقبوضہ کشمیر،پنجاب ،آسام،منی پور،ناگا لینڈ اور جھاڑ کھنڈ سمیت کئی ریاستوں میں 60 سے زائد علیحدگی پسند تحریکیں چل رہی ہیں،منی پور اور آسام میں تو حریت پسند وں نے کشمیری مجاہدین کی طرح بھارتی فوج کی ناک میں دم کررکھا ہے، آئے دن فوجی ایمبولینس بھارتی ترنگے میں لپٹے کسی نہ کسی سپاہی کی لاش اسکے آبائی علاقے میںلے جارہی ہوتی ہے آپریشن بلیو اسٹار میں خالصتان تحریک نے اپنی قیادت گنوانے کے بعد نئی قیادت بنالی ہے، جو ہر سکھ حریت پسند کی جیب میں پڑے موبائل فون کی مدد سے رابطے میں رہتی ہے ۔سوشل میڈیا،انٹرنیٹ خالصتان تحریک کا بڑا ہتھیار ہے بھارتی نیتا اس سے پہلے ہی پریشان تھے لیکن اب کرتار پور کا ’’سری کھو‘‘ انکی تشویش میں اضافے کے لئے موجود ہے۔ بابا گرونانک سے منسوب اس کنویں کے ساتھ ہی شیشے کے ایک بکس میںرکھا بم کا وہ ٹکڑا کسی طرح نظرانداز نہیں کیاجا سکتا جسے 1971ء کی جنگ میںبھارت نے پھینکا تھااس بارے میں گوردوارے کے خدمت گزار کہتے ہیں کہ یہ بم کنویں نے اپنی گود میں لے کر دربار کو تباہی سے بچا لیا تھا۔۔۔نئی دہلی کی پریشانی کا سبب یہی سری کھو اوربم کا یہ ٹکڑا ہے جسے دیکھنے کے بعد سکھ یاتری کیا سوچتے ہوئے پلٹیں گے یہ جاننے کے لئے کسی دانشور سے رابطے کی ضرورت نہیں۔