آج سے تقریبا تین سال قبل میں آخری دفعہ بھارت یونیسکو کی ایک میٹنگ میں شرکت کے لیے گیا،تو میں نے دلی براستہ سڑک جانے کا قصد کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں امرتسر کی مرکزی مسجد خیرالدین کے صحن میں مدفون اپنے دادا اور دادی کی قبر پر حاضری دینا چاہتا تھا۔ میرے دادا مولوی خدا بخش مرحوم اپنے مرشد کے حکم پر تقریبا ًدو صدیاں پہلے سیالکوٹ میں امام علی الحق کے مزار کے ملحقہ علاقے سے ہجرت کرکے برطانوی ہندوستان کے ضلع ہوشیارپور کے قصبے مکیریاں میں جا کر آباد ہوئے۔ ان کے دادا حکیم شرف الدین عباسی سیالکوٹی مشہور حکیم تھے۔ رنجیت سنگھ کی بیوی رانی جنداں کو جلد کی ایسی بیماری لاحق ہوئی کہ ٹھیک نہ ہوتی تھی۔ حکیم صاحب کی دوا سے ٹھیک ہوئی تو رنجیت سنگھ کا گھرانہ معتقد ہو گیا۔ جب داد اور ان کے والد خلیفہ کریم بخش نے میکریاں ہجرت کی تو رنجیت سنگھ نے وہاں کئی مربع زمین ان کے لئے وقف کردی۔ انہوں نے وہاں مسجد بنائی اور دین کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اسی میکریاں کے سکھ گھرانے کے ہاں ایک لڑکا حاکم سنگھ پیدا ہوا۔ جوان ہوا تو مولوی خدا بخش کی محبت نے اسے اسلام کی حقانیت کی طرف مائل کیا۔ اسلام قبول کیا تو نام منشی حاکم علی اور پھر مولوی حاکم علی رکھ لیا۔ سکھ مذہب چھوڑا اور میرے دادا کے پاس میکریاں کی مسجد میں قرآن پڑھنے لگ گیا۔ یہ وہی مولوی حاکم علی ہیں جو علامہ اقبال کے ساتھیوں میں سے تھے اور جنہوں نے اسلامیہ کالج سول لائنز کی بنیاد رکھی اور اس کے پرنسپل بھی رہے۔ دادا کو حکم ہوا کہ یہ زمین جائیداد چھوڑو اور امرتسر میں جاکر مسجد بناؤ اور سنبھالو۔ میکریاں میں آموں کے باغوں کو متاع غرور (دھوکے کا سامان) سمجھ کر ایک نگاہ ڈالی اور امرتسر آگئے۔ مسجد خیرالدین میں دین کی تعلیم کا آغاز کیا۔ اور ساتھ ہی 1883 ء میں مسجد خیرالدین کے اندر ہی مدرسہ المسلمین کے نام سے سکول قائم کیا، جو پہلے مڈل تک تھا اور پھر 18 جولائی 1885ء کو یہ میٹرک تک ہو گیا۔ رواداری کا عالم دیکھئے کہ 1888 ء کے ریکارڈ کے مطابق مدرسہ المسلمین میں 504 طلبہ زیر تعلیم تھے جن میں 137 ہندو اور 32 سکھ شامل تھے۔ دادا 1908 ء میں انتقال کر گئے اور مسجد کے دروازے پر صحن کے ساتھ دفن ہوئے۔ امرتسر کی اسی مسجد سے ختم نبوت کی سب سے بلند آواز سید عطائاللہ شاہ بخاری ایسی گونجی کہ قادیان کا سحر ٹوٹ کر رہ گیا۔ شاید اسلاف کی یہی نیکیاں ہیں جن کی بدولت اللہ نے مجھے بھی تحفظ ختم نبوت کے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائی۔ ایک رات میں جگمگاتے ہوئے گولڈن ٹیمپل چلا گیا۔ سر پر زرد رومال رکھا، پاؤں بہتے پانی سے دھوئے اور تالاب کے کنارے بیٹھ کر سنہری کلس کو دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وہ کیا زمانہ ہوگا جب سکھوں کے گوروارجن حضرت میاں میر ؒ کوساتھ لے کر امرتسر چلے آئے اور 13 جنوری 1588ء کو حضرت میاں میر نے اپنے دست مبارک سے گولڈن ٹیمپل کی بنیاد رکھی۔ لنگر خانے سے ایک جانب گردوارہ پر بندھک کے اہم لوگ بیٹھے تھے۔ ان سے میں نے سوال کیا کہ سنت جرنیل سنگھ بھنڈراوالا، جس نے خالصتان کا پرچم بلند کیا تھا، اس نے شہر کے بیچوں بیچ یہاں کیوں پناہ لے رکھی تھی۔ سب نے ایک دم کہا '' تم نے کبھی تصور کیا ہے کوئی خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں بیٹھا ہو اور حکومت اس پر حملہ کر دے۔اسی جرم پر سکھوں نے اندرا گاندھی کو مارا تھا۔لیکن ہندوؤں نے 1984 ء میں جس طرح ہمارے نوجوانوں کے گلے میں ٹائر ڈال کر زندہ جلایا، قتل و غارت کی، گھر بھسم کیے، یہ دکھ 1947 ء کے بٹوارے سے زیادہ بڑے اور تازہ ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ تو ہمارا بھروسے کا رشتہ تھا ہی نہیں لیکن ان ہندوؤں کے لیے تو ہم نے جانیں دی ہیں''۔ واپسی پر میں نے ڈرائیور سے سوال کیا یہاں کوئی اور جگہ دیکھنے کو ہے تو اس نے کہا پاکستان کے جتھے تو قادیان جاتے ہیں جو صرف آدھے گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ میں اگلی صبح وہاں جا پہنچا۔ سناٹا، خاموشی، ایک بنگالی میزبان نے خوش آمدید کہا۔ اتنے میں ان کا چیف مبلغ حمید کوثر آگیا۔ مجھے پہچان گیا۔ خاموش سا ہو گیا۔ پھر اس شرط پر قادیان دکھانے پر راضی ہوا کہ کیمرے اور موبائل دفتر میں رکھوا دیئے۔یہ ہے میرا خاندانی پس منظر اور ختم نبوت کے معاملے میں میری موجودہ پوزیشن اور قادیانیوں کی مجھ سے نفرت ان کے اخباروں ٹی وی چینلوں پر دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے بیان کیا کہ اب میں جو بیان کرنے جا رہا ہوں وہ انتہائی کرب، دکھ اور تکلیف سے بتا رہا ہوں۔ ہمارے اس روئیے کی وجہ سے میں بارہا دشمنوں کے سامنے شرمندہ اور لاجواب ہوا ہوں۔ جب سے کرتارپور راہداری کھول کر سکھوں کے مقدس ترین مقام کو راستہ دینے کا اعلان ہوا ہے۔ ہمارے مذہبی، مسلکی،جمہوری اور سیاسی رہنماؤں نے اسے درپردہ قادیانیوں کو سہولت دینے کی سازش قرار دیاہے۔ پہلے کرتارپور کا محل وقوع کا جائزہ لیتے ہیں۔ کرتارپور لاہور سے 145 کلومیٹر کے فاصلے پر بھارتی سرحد پر واقع ہے وہ مقام ہے جہاں گورونانک نے زندگی کے آخری 18سال گزارے تھے۔ نارووال والی یہ سڑک ٹوٹی پھوٹی اور خراب ہے، اس لئے یہ سفر کم از کم ساڑھے تین گھنٹے میں مکمل ہوتا ہے۔ کرتار پور پر بابا گورونانک کی عالم بالا کی طرف رخصتی کے مقام پر ایک گوردوارہ ہے جو بھارتی سرحد سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بیچ میں تقریبا ڈیڑھ کلومیٹر کا دریائے راوی کا پاٹ ہے۔ یوں سمجھیں کہ جیسے بھارتی سرحد کے ساتھ جڑا ہوا ایک گوردوارہ ہے جس کا ایک دروازہ بھارت میں کھلتا ہے۔ میں کرتار پور پراجیکٹ کے افتتاح پر وہاں گیا تھا اورمیں نے اس کے ڈیزائن کو دیکھاہے۔ یہ دراصل سرحد کے ساتھ ساتھ چار مربع کلو میٹر کا ایک احاطہ ہوگا جس کو چاروں طرف سے مضبوط فصیل (Fence) نے گھیرا ہوگا، جس کا ایک دروازہ بھارت کی طرف کھولا گیا ہے۔ اس سے پہلے بھارتی سکھ دریا کے پار بھارت میں کھڑے ہوکر گوردوارہ کے درشن کیا کرتے اور بھیگتی آنکھوں واپس چلے جاتے۔ اب وہ اس دروازے سے فصیل زدہ گوردوارے یا علاقے میں ایک دن کو داخل ہونگے، درشن کریں گے،ماتھا ٹیکیں گے اور واپس چلے جائیں گے۔ یہ واحد دروازہ ہے جو یک طرفہ ہے اور پورے کا پورا پانچ مربع کلومیٹر علاقہ ایک مقدس گوردوارہ ہے جس میں صرف سکھ داخل ہوسکتے ہیں اور وہاں بھی مذہبی قانون بہت سخت ہیں۔یہاں دراصل سکھوں کے لئے روزانہ ایک بہشتی دروازہ کھلے گا اور وہ ایک دن کی اجازت سے یہاں آکر واپس چلے جائیں گے۔ اب اس جھوٹ، افتراء اور بہتان کی بات کرتے ہیں کہ یہ سب قادیانیوں کو سہولت دینے کیلئے کیا جارہا ہے۔ اس وقت قادیانی ربوہ سے براستہ امرتسر قادیان جاتے ہیں اور پورا راستہ موٹر ویز اور شاندار سڑکوں سے منسلک ہے۔ ربوہ سے لاہور 170 کلومیٹر ہے اور لاہور سے قادیان براستہ امرتسر 102 کلومیٹر۔ یہ سارا سفر سات سے آٹھ گھنٹوں میں بہترین سڑکوں پر مکمل ہوتا ہے۔ اب قادیانیوں اور حکومت کی ملی بھگت سے قادیانی پہلے ربوہ سے 170 کلومیٹر سفر کرکے لاہور آئیں گے۔ پھر یہ بیوقوف 102 کلومیٹر صاف شفاف روڈ چھوڑ کر 145 کلومیٹر ٹوٹی پھوٹی روڈ پر کرتارپور جائیں گے اور پھر وہاں سے 44 کلومیٹر مزید فاصلہ طے کرکے ایک اور بوسیدہ سڑک پر سفر کرکے قادیان پہنچیں گے۔ یعنی سفر کی اذیت کے علاوہ وہ چار گھنٹے مزید سفر بھی کریں گے۔ لیکن کمال ہے اس عصبیت اور منافقت کا جو عمران خان کی دشمنی میں ہمارے مذہبی طبقے کو بھی جھوٹا پروپیگنڈا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ میرا دکھ یہ ہے کہ وہ سارے قادیانی جن کے خلاف میں پرچم اٹھا کر کھڑا ہوتا، وہ مجھے جب ایسے جھوٹ پر مبنی بیہودہ اور بے سروپا الزامات والی گفتگو بھیجتے ہیں تو میرا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ایسی گفتگو کرنے والے سوچیں کہ یہ قادیانی تمہارے اس جھوٹے پروپیگنڈے کو اپنی اولاد کے سامنے دلیل کے طور پر پیش کرتے ہوں گے کہ دیکھو یہ ہیں وہ لوگ جو چھوٹی سی سیاسی کامیابی کے لیے بھی اتنا بڑا جھوٹ بول سکتے ہیں۔ ان پر تم کیسے اعتبار کرو گے۔ ایسے میں اگر ایک سلیم الفطرت قادیانی بچہ بھی دین کی طرف مائل ہونے سے رک گیا تو اس کا گناہ ان تمام مذہبی لوگوں پر ہوگا جو جھوٹ کو سیاست کے لیے استعمال کرتے رہے۔