سیالکوٹ کی تحصیل شکرگڑھ کے ایک چھوٹے سے گائوں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب ہرے بھرے کھیتوں کے بیچوں بیچ واقع سکھوں کا کرتارپور گرودوارہ دربارصاحب پاکستان اور بھارت کے درمیان آج کل خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔دویوم قبل بھارت کے نائب صدر نے نیم دلی کے ساتھ سکھوں کے اس گرودوارے تک سکھ یاتریوں کو رسائی دینے کے لیے خصوصی کاریڈور تعمیر کرنے کاسنگ بنیادرکھاجبکہ گزشتہ روز وزیر اعظم عمران خان نے نہایت ہی کشادہ قلبی کے ساتھ پاکستانی علاقے میںاس کاریڈورکی تعمیر کی بنیاد رکھی جس کے تحت کرتار پور میں بارڈر ٹرمینل کی تعمیر ہو گی اوردریائے راوی پر پل بنے گایہ منصوبہ گرو نانک کے 550ویں جنم دن کے موقع پر آئندہ سال پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ سرحد کے دونوں طرف راہداری مکمل ہونے کے بعدحکومت پاکستان کی جانب سے سکھ یاتریوں کو بارڈر سے کرتارپورگوردوارے تک ویزے کے بغیرا سپیشل پرمٹ پر رسائی دی جائے گی۔اس ساری ڈویلپمنٹ پرپاکستان کاشکریہ اداکرنے کیلئے سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھوایک بارپھر پاکستان پہنچے اورانہوںنے لاہورمیں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے جو بیج بویا آج پودا بن چکا ہے اورتین ماہ قبل ان کی طرف سے کئے وعدے کی آج تکمیل ہوئی۔اس بارڈرکے کھلنے سے 12کروڑ سکھوں کو خوشی نصیب ہوئی، سکھوں کواس سے بڑھ کر خوشی نہیں مل سکتی۔ 16اگست2018 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں عمران خان کی بطوروزیراعظم تقریب حلف برداری کے موقع پر بھارت کے سابق کرکٹراور ریاست پنجاب کی کانگریس سرکار کے ایک وزیر نوجوت سنگھ سدھو بھی شرکاء تقریب میں شامل تھے۔ اس موقعہ پر پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے نوجوت کے ساتھ معانقہ کرتے ہوئے ایک نہایت ہی غیر معمولی اعلان بھی کردیا جو نوجوت کے ساتھ گرم جوشی اور خیر مقدمی نوعیت کا تھا۔اعلان یہ تھا کہ پاکستان’’ کرتار پور ‘‘کاراستہ کھول کر سکھوں کو انکے مذہبی مقام تک رسائی دے گا ۔جنرل باجوہ کے اس اعلان سے نوجوت سنگھ سدھو پھولے نہ سمائے اور انہوںنے قمر جاوید باجوہ کے ہاتھ چومے اور کہاکہ اسے پاکستان میں انہیں گھر جیسا پیارملاہے اوربہت ہی بڑی خوشخبری لیکر وہ واپس بھارتی پنجاب پہنچے لیکن سدھوکے بھارت پہنچتے ہی ان کے خلاف بھارتی میڈیا نے بڑا ہنگامہ برپا کیا اور سدھو کو پاکستان کاایجنٹ قراردیا لیکن سدھونے خوفزدہ ہونے کے بجائے پورے دلائل کے ساتھ بھارتی میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈا کا توڑ کیا اور بھارتی میڈیا کے زہریلے پروپیگنڈے کے سامنے اس نے کسی بھی قسم کی پریشانی یا کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔ در اصل نوجوت سنگھ سدھو جانتے تھے کہ کچھ ہوا تو بھارت کے تمام سکھ اسکے دوش بدوش کھڑے ہونگے کیوںکہ وہ پاکستان سے انکے لئے ایک ایساپیغام لایا تھا کہ جس پرعمل درآمدہونے سے سکھوں کیلئے ایک بہت بڑی تاریخ رقم ہوجائے گی ۔ کرتار پور پاکستانی پنجاب میں دریائے راوی کے کنارے ہرے بھرے کھیتوں کے بیچوں بیچ واقع ہے ۔1947ء کے بعد کافی عرصہ تک اس کو زیادہ اہمیت حاصل نہیں تھی ۔اگر چہ پاکستان ہی میں سکھوںکے اہم ترین مذہبی مقامات موجود ہیں لیکن امرتسر کے گولڈن ٹمپل کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ 1984ء میں گولڈن ٹمپل پر فوجی آپریشن کے بعد سکھوں کے خیالات اور نظریات میں تبدیلی واقع ہونا شروع ہوگئی ۔یوں گزشتہ کئی دہائیوں کے بعد کرتار پور کو اب سب سے اہم ترین مذہبی اہمیت حاصل ہوچکی ہے ۔کرتار پور میں جو گردوارہ موجود ہے وہاں گرو نانک کی سمادھی موجود ہے ۔گرو نانک نے کرتار پور میں اپنی زندگی کے آخری اٹھارہ سال گزارے اور 1539ء میں یہیں پر ان کی موت واقع ہوئی اور یہی کرتار پور کی زبردست مذہبی اہمیت بھی ہے ۔یوں یہ جگہ یعنی کرتار پور گرو نانک کی زندگی کی آخری آرام گاہ بھی بن گئی جہاں انہوں نے زندگی کا آخری حصہ بھی گزارا۔گزشتہ ستر برس سے سکھ اس مقام کودیکھنے کیلئے سخت تڑپتے رہے ہیںاور اس کا متبادل انکے پاس ننکانہ صاحب ہے اور نہ ہی گولڈن ٹمپل ۔ آج تک کی صورتحال یہ تھی کہ پنجاب کے سکھ سرحد کے اس طرف سے کرتار پورکومحض دور سے ہی دیکھا کرتے ہیں ۔اس درشن کے لئے وہ دوربین بھی استعمال کرتے ہیں۔سکھ اس جگہ کی طرف رخ کرکے سخت روتے ،افسردگی کااظہارکرتے ہوئے اپنی مذہبی عقیدت مندی کااظہارکرتے ہیں۔ پاکستانی حکام بھی سکھوں کی اس عقیدت مندی کاخیال رکھتے ہوئے سرحد کی دوسری جا نب اگی ہوئی دیو قامت گھاس اور پودوںکو کاٹتے ہیں تاکہ سکھوں کو کرتارپور نظر آئے اور انہیں اس کی دور سے ہی صحیح لیکن درشن نصیب ہوجائے ۔مدت مدید سے سکھ اس بات کے سخت متمنی رہے ہیں کہ انہیں کرتار پور کے درشن کیلئے ایک کاریڈور کے ذریعے راہداری دی جائے چونکہ کرتار پور بھارتی پنجاب اورپاکستانی پنجاب کے مابین سرحد کے بالکل قریب واقع ہے ،اس لئے کاریڈور کے ذریعے بھارتی پنجاب سے سکھ یاتری محض چند گھنٹوںکے اندر بھی درشن اوریاترابھی حاصل ہوسکے تاکہ انکی مکمل تشفی ہوسکتی ہے ۔ اگرچہ یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہئے کہ بھارت اس کاریڈور کی مذہبی اور دفاعی اہمیت سے سخت خائف ہے۔ نئی دہلی کو اس بات کاسخت احساس ہے کہ کرتار پور کا کاریڈور بنا کر پاکستان انتہائی حساس سرحدی ریاست پنجاب کے سکھ عوام کے جذبات اور احساسات پر قبضہ کرنا چاہتا ہے ۔نئی دہلی کو بہت اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان کیلئے یہ کاریڈور ایک بہت بڑی دفاعی جیت ہوگی کیونکہ اس سے وہ اس سرحدی ریاست کے سکھ عوام میں پاکستان کے تئیں زبردست ہمدردی اور احسان مندی کے جذبات پیدا کرکے ماضی کی تمام تر دشمنانہ روش کو ختم کرے گی ۔ لیکن وہ سکھوںکے مذہبی جذبات کے خلاف زیادہ دیر تک حیلے بہانوں سے کام نہیں چلا سکتا ۔یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ اگلے سال گورو نانک کی550ویں برسی منائی جارہی ہے اور اس موقعہ پر سکھ کرتارپور کے درشن سے محروم نہیں رہ سکتے ۔دوسری جانب بھارت میںپارلیمانی انتخابات میں محض چند ہی ماہ رہ گئے ہیں۔ اس موقع پر کم از کم بی جے پی کاریڈور بنا کر پنجاب کانگریس کے حوالے نہیں کرنا چاہتی ہے ۔