پہلا منظر آپ کی آنکھوں میں اس وقت سبزہ گھول دیتا ہے جب آپ نارووال سے آنے والی پتلی سی پختہ سڑک سے اتر کر اس سے بھی دبلی سڑک کی طرف موڑ کاٹتے ہیں۔ دونوں طرف کھیت، ایک گھمائو کے دوران نزدیک آتا گائوں یکایک دور ہو جاتا ہے اور آنکھوں کے سامنے ایک سفید عمارت ابھرتی ہے۔ گیٹ پر محافظ ہیں، راہداری کے دائیں طرف کنٹینر نما عارضی رہائش گاہیں بنی ہیں جہاں سکھ یاتری قیام کرتے ہیں۔ تھوڑا آگے بڑھیں تو بائیں طرف وہ مقدس کنواں ہے جہاں سے سکھ مت کے بانی بابا گورونانک پانی نکالا کرتے تھے۔ یہ اس کنویں سے کافی چھوٹا ہے جو ننکانہ صاحب میں بابا جی کے آبائی گھر کے صحن میں ہے۔ ننکانہ صاحب میں ایک اور کنواں سکھ شہداء کی یادگار کے پاس سنگ مر مر کی سفید تختیوں کے نیچے چھپا دیا گیا ہے۔ ان سکھوں کو ہندو لٹیروں نے زندہ جلا دیا تھا۔ کرتار پور کے مرکزی کمپلیکس کا گیٹ عبور کرنے سے پہلے سر ڈھانپنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ دروازے کے پاس کھجور سے بنی ٹوپیاں موجود تھیں، کچھ پلاسٹک کی سبز رنگ والی ٹوپیاں تھیں۔ میں نے سر ڈھانپنے کے لیے رومال استعمال کرنا بہتر سمجھا۔ دربار کی عمارت کی طرف بڑھنے سے پہلے سنگ مر مر کی ایک کیاری میں چھوڑے ہوئے پانی سے ننگے پائوں گزرنا ہوتا ہے۔ اس سے پائوں دھل جاتے ہیں۔ سامنے نشان صاحب ہے۔ ایک بلند جھنڈا جس کے ساٹھ فٹ طویل لوہے کے ڈنڈے پر بھی غلاف چڑھا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک کرسی لٹکی ہوئی ہے۔ بتایا گیا کہ غلاف اور جھنڈے کی تبدیلی کے لیے گیانی صاحب اس کرسی پر بیٹھ کرنشان صاحب کی چوٹی پر جاتے ہیں۔ کرسی اوپر لگی چرخی کے ساتھ بندھی ہوتی ہے۔ دربار کی مرکزی عمارت کے باہر بابا گورونانک کی قبر ہے جس کو موتیا کی بیل نے گھیر رکھا ہے۔ بہت سے مسلمان یہاں فاتحہ پڑھتے ہیں۔ مرکزی عمارت کے اندر ایک کمرے میں سنگ مر مر کے سفید پھول دھرے ہیں۔ ان پھولوں کے نیچے بتایا جاتا ہے کہ بابا جی کی چتا کی راکھ دفن ہے۔ اسے سمادھی کہتے ہیں۔ ہم کچھ دیر احترام سے یہاں خاموش کھڑے رہے۔ عمارت کے اوپر والی منزل کے عین درمیان میں سکھ مت میں گورو کا درجہ رکھنے والی مقدس کتاب گرنتھ صاحب رکھی ہوئی ہے۔ اس ہال کے اطراف گولائی میں برآمدہ ہے۔ اوپر آنے جانے کے لیے عمارت کے کونوں پر بنے چوڑے میناروں کے اندر بنی سیڑھیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ بابا گورونانک زندگی کے آخری اٹھارہ برس اس مقام پر مقیم رہے۔ مہاراجہ پٹیالہ نے 1920ء میں یہ عمارت تعمیر کی۔ بھارتی پنجاب کے موجودہ وزیراعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ اسی مہاراجہ کے پوتے ہیں۔ کیپٹن امریندر سنگھ نے کرتارپور راہداری میں شرکت کی دعوت مسترد کر کے گویا بابا جی کو انکار کیا۔ جنونیت قوم پرستی کی ہو یا مذہبی، اس کا ایک نقصان یہ ہوتا ہے کہ انسان دور اندیش نہیں رہتا۔ہمارے خطے کی خوش بختی ہے کہ چین کی شکل میں ہمیں ایک ایسا دوست میسر ہے جو قرنوں کے بھاری پردوں کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہم نے چین کو بطور دوست ابھی مکمل طور پر دریافت نہیں کیا۔ ہم چین کو فوری سٹریٹجک توازن کے حوالے سے اہمیت دیتے رہے ہیں ۔ پاکستان نے اس بار چین کو نئے پہلو سے دریافت کیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ کوئی بین الاقوامی طاقت اس وقت تک کسی کمزور سے کمزور ملک کے خلاف کارروائی نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کے ہمسایہ ممالک بیرونی طاقت کو مدد نہ دیں۔ پاکستان اپنی آبادی، مسلح افواج کی طاقت اور غذائی پیداوار کی صلاحیت کے اعتبار سے امریکہ یا کسی اور بیرونی طاقت کے لیے آسان ہدف نہیں۔ ان صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے بہت سے منصوبے مدت سے جاری ہیں۔ ایک جرنیل سے لے کر چھابڑی فروش تک کو علم ہے کہ امریکہ ہمارا دشمن ہے۔ کچھ سیاستدان بھلے اپنی بالادستی کو تمام مسائل کا حل سمجھتے ہوں مگر زمینی سچائی یہی ہے کہ پاکستان کے دشمن صرف اس کی فوجی صلاحیت سے خوفزدہ ہیں۔ چین کے دوستوں کی مدد سے ہمارے سٹریٹجک پالیسی کے اداروں نے جائزہ لیا کہ امریکہ دوست سے دشمن بن کر پاکستان کو کیا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ پہلا وار ہمیں عالمی برادری میں ولن بنا کر پیش کرنا ہوسکتا ہے۔ دوسرا وار دوستوں کے دل میں بدگمانیاں پیدا کرنا، تیسرا مختلف قسم کے الزامات، چوتھا مالیاتی اداروں کے ذریعے دبائو، پانچواں پاکستان میں اپنے حامی گروپوں کے ذریعے سیاسی و مسلح گڑ بڑ کو بڑھانا، چھٹا ہتھکنڈہ ہمسایہ ممالک کو پاکستان کے خلاف اکسانا، جاسوسی، تجارتی پابندیاں اور میڈیا ٹرائل جیسے اور بھی حربے ہیں جو پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کئے جا رہے ہیں۔ ان سب کے اثرات کو تنکا تنکا سمجھ کر اکٹھا کریں تو ایک ایسا گٹھا بن جاتا ہے جو پاکستان کے لیے ناقابل حل مشکل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ کیا بھارت امریکہ کی مدد نہ کرے تو یہ مشکلات اسی طرح خوفناک رہیں گی۔ جواب ملا قطعی نہیں۔ امریکہ اور بھارت کے اتحاد کو پاکستان توڑ نہیں سکتا۔ ہمیں بھارت کو نیوٹرل کرنا اور پھر وہاں اپنی حمایت بڑھانا ہے۔ کرتار پور سکھوں کے لیے مقدس ہے۔ اقوام متحدہ کا چارٹر رہنمائی کرتا ہے کہ مقدس مقامات تک رسائی دی جائے۔ پاکستان نے خیرسگالی کے تحت بھارتی سکھوں کے لیے کرتارپور راہداری کھولی لیکن اس کار خیر کے صلے میں اسے اتنے سٹریٹجک فوائد ملنے کے امکان ہیں جو امریکہ بھارت اتحاد کے پاکستان دشمن منصوبوں کو ملیا میٹ کرسکیں۔ کسی عقیدے اور مذہب کا احترام کرنے سے ہمیشہ بین الاقوامی حمایت ملتی ہے۔ بھارت میں بابری مسجد کی شہادت کے معاملے پر بھلے جنونی ہندو کتنے ہی خوش ہوں حقیقت یہ ہے کہ یہ افسوسناک واقعہ بھارت کی سیکولر شناخت پر ایسا داغ ہے جسے کبھی دھویا نہیں جا سکے گا۔ چین نے ون بیلٹ ون روڈ کا منصوبہ دیا ہے۔ سی پیک اس کا ایک حصہ ہے۔ اس منصوبے کے تحت چین کے سنکیانگ صوبے کو پاکستان کے ذریعے گوادر پورٹ تک لایا جائے گا۔ بھارت کو یہ پیشکش کی جا چکی ہے کہ وہ اس منصوبے کا شراکت دار بن سکتا ہے۔ پاکستان کی طرح بھارت کے ووٹرز کا مائنڈ سیٹ جب بھی بدلا بھارت اس میں شامل ہو جائے گا۔ کرتار پور راہداری کھولنے سے بھارت میں ایک داخلی دبائو بڑھے گا جو وہاں کی حکومتوں کو پاکستان سے خوشگوار تعلقات پر مجبور کرسکتا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں تمام خطہ مالیاتی، معاشی اور سیاسی آزادی حاصل کرلے گا۔ امریکہ اور اس جیسی دوسری طاقتوں کے بنائے جعلی دبائو پگھل جائیں گے۔ ہاں پاکستان میں ان حلقوں کے خلاف کارروائی میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے جو کرتار پور راہداری کے معاملے پر غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ سابق حکومت اور موجودہ حکومت کی بصیرت میں یہی فرق ہے کہ وہ لاہور میں میٹرو ٹرین کو سی پیک کا حصہ بنانے پر بضد تھے اور عمران خان نے کرتار پور کوخطے کا مائنڈ سیٹ بدلنے کا مرکز بنا دیا ہے۔