نیوزی لینڈکی38سالہ جیسنڈا آرڈرن نے نفرت اور تعصب پرمبنی ٹرمپ بیانیہ اورامریکہ اوریورپ کے اسلاموفوبیاکے مائنڈسیٹ کوسختی سے مستردکرتے ہوئے جمعہ 15مارچ 2019ء کوکرائسٹ چرچ میں دو مساجدمسجدالنور اور مسجد لنٹنں پر ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعدنیوزی لینڈکے مسلمانوں کے ساتھ جس ہمدردانہ رویے کاوالہانہ اظہارکیا اور اس گہرے زخم پرمرہم رکھاوہ بے مثال ہے۔سانحے کے معاًبعدانھوں نے میڈیا کے سامنے بھرائی ہوئی آواز میں کہاکہ یہ دہشت گردی ہے اس دہشت گردی کا شکار وہ تارکینِ وطن بنے ہیں جنہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنایا۔ہاں یہ ان کا گھر ہے اور وہ ہمارا حصہ ہیں۔جس شخص نے اس بدترین جرم کا ارتکاب کیا وہ ہم میں سے نہیں۔جیسنڈا آرڈرن نے شہداء اورزخمی ہونے والوںکے لواحقین اورمتعلقین سے نہایت عاجزی اور فکرمندی سے اظہارہمدردی کرتے ہوئے باور کرایا کہ نیوزی لینڈمیںمسلمانوں کواپنے عقائد کے اظہار کی پوری آزادی ہے۔ جیسنڈا دوپٹہ پہن کر مسلم برادری سے یکجہتی کا اظہار کر رہی تھیں اور دہشت گردی کی مذمت کر کے اور لواحقین سے مل کر ان کے زخم بھر رہی تھیں۔شہدا کی نماز جنازہ کے موقع پر ہزاروں افراد کے درمیان جیسنڈا آرڈرن سر پر ڈوپٹہ لیکر ساتھ موجود تھیںاورمسلمان خواتین کو گلے لگارہی تھیں۔ان کاکہناتھاکہ ہماری خواہش ہے کہ مسلم کمیونٹی کو سپورٹ کریں تاکہ وہ مسجدوں میں واپس آئیں۔ ملک میں ایسی فضا بنانا ہوگی جہاں تشدد پروان نہ چڑھ سکے۔ جیسنڈا آرڈرن کرائسٹ چرچ میں کشمیری ہائی سکول بھی گئیں۔ شہدامیں سے کئی افراد کا تعلق اس سکول سے تھا۔ اس موقع پر شہداکو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے طلبہ و طالبات نے قبائلی انداز میں ہاکا پیش کیا۔نیوزی لینڈ کے شہرویلینگٹن کی کِلبِرنی مسجد میں نمازیوں سے اظہارہمدردی کرتے ہوئے وہ فکرمندی سے اپنی بھنویں اچکائی ہوئی اور اپنے ہاتھ جوڑے ہوئے نیوزی لینڈ کے مسلم متاثرین کویہ باورکرارہی تھیں کہ وہ ان کے اس غم میں برابرکی شریک ہیں ۔ٹی وی اسکرینوں پردنیابھرکے مسلمان اس دعااوراس تمناکے ساتھ انہیں دیکھ رہے تھے ۔ نیوزی لینڈکی وزیراعظم کے اس رویے نے دنیاکے ہرباضمیرشخص کا دل جیت لیا۔ امریکہ سے یورپ تک اسلاموفوبیاکی جوایک لہرنظرآرہی ہے ایسے میں امریکہ اور یورپ کو ایسی ہی قیادت کی ضرورت ہے کہ جومسلمانوں کی ہمدردی ہو۔یاد رہے کہ کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں دہشت گرد حملوں کے نتیجے میں پیش آئے سانحہ کاایک ہفتہ گزرجانے کے بعدجمعہ22مارچ 2019ء کو پورے نیوزی لینڈ میں جمعۃ المبارک کی اذان براہ راست نشر کی گئی۔ واضح رہے کہ اس دانستہ وحشیانہ قتل عام اوردہشت گردی کا ارتکاب 28سالہ آسٹریلوی دہشت گرد برینٹن ٹیرینٹ نے کیا ہے جو سفید فام نسل پرستی پر یقین رکھتا ہے۔نیوزی لینڈ کی وزیراعظم آرڈرن کا کہنا ہے کہ ’’وائٹ نیشنل ازم یا سفید فام‘‘ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ ان کاکہناتھا کہ دہشت گردی کایہ حملہ ایک آسٹریلوی شہری نے کیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مسئلہ ہمارے یہاں نہیں پایا جاتا۔بلاشبہ مغرب میں ایک عفریت چنگاڑرہاہے اور اس عفریت کانام نسل پرستی ہے ۔اس عفریت کاہدف مسلمان ہیں۔مغرب کی جس سوچ نے اپنا رشتہ صلیبی جنگوںکی تاریخ سے جوڑا ہے، وہ مغربی معاشرے میں نفرت کا آتش فشاں بن کرپل رہا ہے۔ شائداسی کاادراک کرتے ہوئے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے سفیدفام دہشت گردی کی بات کی ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کاکہناتھا کہ کہ جب وہ ولینگٹن کی ایک مسجد میں گئیں تو وہاں ایک مسلم بچے نے ان سے سوال کیا وزیر اعظم، کیا اب ہم محفوظ ہیں؟ ان کا کہنا تھا: یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں ہر طبقے کی حفاظت کو یقینی بنائوں اور ہماری حکومت نیوزی لینڈ کے تمام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنا رہی ہے۔وزیرِاعظم آرڈرن کاکہناہے کہ انکی حکومت کے ہوتے ہوئے ملک میں تارکین وطن کی تعداد بڑھی ہے۔انھوں نے پوری دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس حملہ آور نے نشانہ نیوزی لینڈ کو بنایا، لیکن ان کے خیالات کی تشکیل کہیں اور ہوئی تھی، ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس سوچ کو جڑ پکڑنے نہ دیں اور ایک ایسا ماحول بنائیں جہاں اس طرح کے خیالات کو پنپنے کی اجازت نہ ہو۔نیوزی لینڈکی وزیراعظم کاکہناہے کہ بطور ایک پرامن ملک کی وزیر اعظم جہاں 200قومیتوں اور 60مختلف زبانیں بولنے والے لوگ بستے ہیں، یہ خبر ان کے لیے ایک صدمہ تھی۔ نیوزی لینڈکی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے، کہ انہوں نے صاف الفاظ میں بتا دیاہے کہ کرائسٹ چرچ کسی ایک شخص کا پاگل پن نہیں تھا، درحقیقت یہ ایک ایسی سوچ ہے، جو مغرب میں نہ صرف جڑ پکڑ چکی ہے، بلکہ یہ اب تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔جبکہ مغربی میڈیانے کرائسٹ چرچ قتل عام کے مجرم کو ایک شوٹرکی کارروائی قرار دے کر نہ صرف اسے بچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بلکہ انہوں نے اس خطرے پر بھی پردہ ڈالنے کی کوشش کی، جس کے بارے میں جیسنڈا آرڈرن نے کھل کر بات کی ہے۔کرائسٹ چرچ کی دومساجدمیں پیش آئے سانحے کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کے ہمدردانہ کردار پر ہر طرف سے ان کیلئے تعریف کا اظہار کیا جارہا ہے۔نیوزی لینڈ کی تاریخ میں یہ دہشت گردی کا پہلااورسنگین ترین واقعہ تھا، جس پرنیوزی لینڈکی حکومت اور عوام کی جانب سے شدید افسوس کا اظہار کیا گیا۔اگر مغرب کے اکثر حکمران جیسنڈا جیسے ہوں تو پھر یہ دنیا امن کا آشیانہ بن جائے۔ جیسنڈا کیٹ لورل آرڈرن 26جولائی 1980ء کو نیوزی لینڈ کے شہر ہیملٹن میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد پولیس افسر تھے جبکہ ان کی والدہ سکول میں کیٹرنگ اسسٹنٹ کا کام کرتی تھیں۔یونیورسٹی آف وائے کاٹو سے سیاست اور تعلقات عامہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے ساتھ پالیسی مشیر کے طور پر کام کرنے کے لیے جیسنڈا لندن منتقل ہو گئیں۔انھوں نے نوجوانی میں ہی نیوزی لینڈ کی لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور 2008ء میں نیوزی لینڈ کی سب سے کم عمر پارلیمانی رکن بن گئیں۔ پھر اگست 2017ء میں انھوں نے قائد حزب اختلاف کا عہدہ سنبھالا۔جیسنڈا آرڈرن 26اکتوبر 2017ء کو نیوزی لینڈ فرسٹ اور لیبر پارٹی کے اتحاد سے بننے والی مخلوط حکومت کی وزیر اعظم ٹھہریں اور اسی طرح وہ نیوزی لینڈ کی تیسری خاتون وزیر اعظم بنیں۔38سالہ آرڈرن نیوزی لینڈ کی 150سالہ تاریخ میں سب سے کم عمر وزیراعظم ہیں۔