پروفیسررسول بخش رئیس کے مطابق سیاست کا ہزاروں برس کاپہلا اور آخری سبق مفاد ہے! مگر تیسری دنیا کی جمہوریتوں میں یہ ذاتی مفادات اور لوٹ مار کا دھندہ بن کر رہ گئی ہے۔ وطن عزیز میں سیاسی اشرافیہ سیاسی تلوار کے زور پر قومی وسائل کو ہڑپ کرتی ہے اور موقع آنے پر سیاست کو ڈھال بنا کر سیاسی انتقام کی آڑ میں پناہ بھی تلاش کرتی ہے گویا بقول شاعر: ایک زنبیل طلسمات ہے اسباب سفر میں ایک پیمانہ ہے مجھ پاس جو بھرتا ہی نہیں قومی احتساب بیورو نے اس زنبیل طلسمات میں جھانکنے کی کوشش کی تو سیاسی انتقام کا واہ ویلا شروع ہو گیا۔ زنبیل طلسمات کیسے کیسے سیٹھ برآمد ہوئے ان کا ذکر برادرم ارشاد بھٹی نے اپنے تین کالموں میں کیا ہے۔ جنہوں نے کبھی کراچی بھی نہیں دیکھا مگر وہ لندن دبئی سے کروڑوں کی ٹی ٹیز حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کو بھجواتے رہے ۔ملک مقصود ہے تو درجہ چہارم کا ملازم مگر سات بنکوں میں اربوں روپے کا مالک۔ محبوب پھیری والا جس کی پاسپورٹ بنوانے کی سکت نہیں مگر دبئی سے کروڑوں کی ٹی ٹیز بھجواتا رہا ان ٹی ٹیز سے خادم اعلیٰ تحمینہ درانی کو تحفے اور بنگلے دیتے رہے ہیں منظور پاپڑ فروش کون سے پاپڑ فروخت کرتا تھا کہ ارب پتی بن گیا ۔ستم کہ اربوں کے یہ مالکان اپنے لئے پانچ مرلے سے بڑا گھر بھی نہ خرید سکے۔ احتساب والے سوال کریںتو شہباز شریف کا جواب جس کے نام پر ٹی ٹیز آئیں ان سے پوچھیں۔ بیٹے عاقل اور بالغ ہیں ان کے اعمال کا میں ذمہ دار نہیں۔ مانا ذمہ دار نہیں، تو پھر ان ٹی ٹیز کے پیسوں کو استعمال کرنے اور تحفے دینے کا کیا جواز؟ سوال گندم جواب چنا۔ نیب حکام انکوائری کے لئے بلائیں تو کورونا کورونا کا رونا!نیب گرفتار کرنے جائے تو سلیمانی ٹوپی پہن کر ضمانت کے لئے ہائی کورٹ پہنچ جائیں۔ دھٹائی کا یہ عالم کہ سابق لیگی وزیر قانون کا یہ استدلال کہ نوکر کے نام پر اربوں جمع کروانا کس قانون میں جرم ہے؟ مگر سوال یہ ہے کہ اگر شریف خاندان پر آسمان سے اتنی ہی دولت اتر رہی تھی کہ اپنے اکائونٹ کم پڑ گئے تھے تو ملک مقصود کی درجہ چہارم کی نوکری چھڑوا کر کم از کم پاسپورٹ ہی بنوا دیا ہوتا۔ منظور پاپڑ فروش کو دبئی بھجوا کر ہی اس سے ٹی ٹیز کروا لی ہوتیں۔ یہی نہیں ،اہلیان اقتدار نے اربوں روپے کی گھوسٹ سبسڈی دی جس کا ریکارڈ تک نہیں جعلی شناختی کارڈ پر ٹریکٹر ز اوراربوں کا فائدہ لینے والوں کا نام تک نہیں ۔ پھر بھی دعویٰ دھلے کی کرپشن ثابت ہونے پر سولی چڑھ جانے کا۔ مگر وقت آنے پر گرفتاری کے خوف سے چھپتے پھرنا ،وقت بھی کیا ظالم چیز ہے خوشبیر سنگھ شاد نے کیا خوب کہا ہے کہ: کبھی عروج پہ تھا خود پہ اعتماد مرا غروب کیسے ہوا ہے یہ آفتاب نہ پوچھ ایک وہ عروج تھا کہ قومی دولت پیٹ پھاڑ کر نکلنے پراسرار، اور ایک یہ وقت ہے کہ اربوں کے گھپلوں پر آئیں بائیں شائیں ۔ایک وہ دن تھے کہ زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کے خواب اور ایک یہ دن کہ گرفتاری سے بچنے کے لئے جائے پناہ کی تلاش! کیسے غریب ہوا یہ آفتاب نہ پوچھ۔ آفتاب اس لیے غروب ہوا کہ امانت دیانت کے علمبرداروں کے قول و فعل میں تضاد تھا۔ ہٹ دھرمی کی انتہا کہ لوٹ مار کرنے والے دامن صاف دامن صاف کی رٹ لگاتے نہیں تھکتے ۔جھوٹ بھی ایسا سفید کہ کچھ سجھائی نہ دے۔حسن نواز نے 270 بار ہل میٹل کے اکائونٹ سے اربوں روپے پاکستان بھجوائے مگر اپنے والد یا خاندان کے کسی فرد کے نام پر نہیں۔ یہ ٹی ٹیز آئیں انجم اقبال کے اکائونٹ میں، وہاں سے پیسے وزیر اعظم کے کیمپ آفس ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکاروں ندیم اقبال اورنگزیب اور سلیم کے اکائونٹ میں وہ دان کریں شریف میڈیکل ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈاکٹر عاصم کو وہاں سے جاتی امرا زرعی فارم کے انچارج محمد اسلم کے اکائونٹ میں۔ اس اکائونٹ سے پیسے نکلوائیں وزیر اعظم کے ویٹر لیاقت کیا کھیل رچایا گیا۔ یہ کیسی کمائی تھی کہ پاک صاف کرنے کے لئے اتنی باریک اور غریب چھنیوں میں چھانا گیا پکڑے جانے پر نوفورم پر بھی ذرائع اور صفائی دینے میں ناکام ۔پھر بھی دامن صاف دامن صاف کی رٹ۔ کلیم عاجز نے کہا ہے نا کہ دامن پے کوئی چھینٹ نہ خنجرپہ کوئی داغ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرے ہو وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کرنے والوں کا یہی تو کمال ہے کہ چھینٹ اور داغ نہ بھی ہوں تب بھی قتل کو کرامت نہیں ہونے دیتے۔بڑے بھائی نے جو کیا اس کو بھگت لیا۔ معروف بزرگ صحافی کے بقول 445ملین ڈالر سٹیٹ بنک میں جمع کروائے باقی کے55ملین ڈالر نامعلوم کھاتے میں گئے تو خلاصی ہوئی، مگر اسرار پھر بھی یہ ہے کہ ڈیل نہیں کریں گے اب چھوٹے میاں گرفت میں ہیں شنید یہی ہے کہ اس بار بھی بڑے بھائی والا معاملہ ہو گا ۔دلیل شیخ رشید نے یہ دی کہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہے۔ سزا سے ملک و قوم کو کیا فائدہ ۔بہتر ہے مال برآمد کرے جانے دیا جائے۔اس صورتحال میں سب سے قابل رحم صورتحال عمران خان کی ہے جو قومی مفاد میں یا پھر مختلف وجوہ پر حقائق عوام کے سامنے نہ لانے پر مجبور ہیں۔ معاملہ صرف سیاست دانوں کا نہیں ان پر تو 7 سوارب کے بے نامی اکائونٹس اور گھپلوں کے الزامات ہیں۔ عمران کی بے بسی تو ان بے چہرہ لٹیروں کے حوالے سے ہے جو آئی پی پیز کی صورت میں قومی خزانہ کو پانچ ہزار ارب کا چونا لگا گئے مگر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ یہ ابہام یہ بے بسی عمران کے شفافیت اور انصاف کے دعوئوں کو گھن کی طرح چاٹ کر عمران کو عوامی اعتماد کی بلندی سے نیچے زمیں پر پٹخ دے گی۔ عمران کنٹینر پر کہا کرتے تھے کہ کچھ نہیں سکتے تو کرسی چھوڑ دو۔ اب یہی امتحان عمران کو بھی در پیش ہے۔