1947کے واقعات کے وہ چشم دید گواہ تھے ۔ وہ اس وقت میر پور جیل میں نظر بند تھے، کہ ایک ہجوم نے جیل پر حملہ کرکے قیدیوں کو آزاد کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں میں مسلم کش فسادات کروانے میں مہاراجہ ہری سنگھ اور ان کے وزیر اعظم مہر چند مہاجن نے بھر پور کردار ادا کیا۔ جموں کی سڑکوں پر قتل و غارت کو روکنے کیلئے وہ ، وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف کی معیت میں مہاراجہ کے محل پہنچے۔ جہاں ان کو مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔ پڑھے لکھے ڈوگرہ ہندو نوجوانو ں کو دیکھ کر وہ ان کو سمجھانے لگا کہ ان کو اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوںکا مطالبہ کرنا چاہیے کیونکہ اب جمہوری دورکا آغاز ہو چکا ہے اور عددی قوت کے بل پر ہی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ اوم صراف نے جراٗت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے پوچھا کہ’’ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔‘‘وید بھسین اور کرشن دیو سیٹھی کے بقول اس پر مہاجن نے محل کی دیوار سے متصل کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، بالکل اس طرح۔ ’’جب ہم نے بغور دیکھا تو چند مسلم گوجروں کی بے گور وکفن لاشیں نظر آئیں جو شاید صبح سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے۔ مہاجن ریاست کی آبادی کا فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے پر مصرتھے۔‘‘ ان فسادات کے دوران ہی شیخ محمد عبداللہ کو ایمرجنسی ایڈمنسٹریشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا اور اسی حیثیت میں وہ جموں وارد ہوگئے۔ سیٹھی صاحب کا کہنا تھا کہ وہ ، موتی لال بیگھڑا اور مولوی محمدسعید مسعودی کے ہمراہ شیخ صاحب کے ساتھ مسلم ریفوجی کیمپ پہنچے۔ بجائے اس کے کہ شیخ ان لٹے پٹے لوگوں کی ڈھارس باندھتے، اور ان کی باز آباد کاری کے احکامات جاری کرتے، انہوں نے ریفوجیوں کو کوسنا شروع کیا۔ بقول سیٹھی ، شیخ کے یہ الفاظ کہ ’’جموں کے مسلمانوں نے مجھے کبھی لیڈر ہی نہیں تسلیم کیا‘‘ ان کیلئے اور سبھی حاضرین کیلئے شاک تھے۔ اس وقت یہ شکوہ کرنے کی تک ہی نہیں بنتی تھی۔ ’’ان کی باز آباد کاری کے بجائے مہاجن کی طرح وہ بھی ان ریفوجیوں کو پاکستان بھیجنے کی جلدی میں تھے۔ ‘‘ سیٹھی صاحب اسکے بعد چودھری غلام عباس اور چودھری اللہ رکھا ساغر سے ملاقات کرنے کیلئے جیل چلے گئے اور ان کو نیم راضی کروایا کہ وہ جموں چھوڑ کر نہیں جائیں گے، ورنہ یہ خطہ مسلمانوں سے پوری طرح صاف ہوجائیگا۔ ساغر نے ان کو کہا کہ شیخ کو اس ملاقات کے بارے میں نہیں بتانا۔ ’’میں نے بیوقوفی اور زعم میں شیخ صاحب کو ملاقات کے بارے میں بتایا اور ان سے گذارش کی کہ جموں کی مسلم لیڈرشپ کو جانے نہ دیں۔ مگر اگلے ہی دن انہوں نے حکم جاری کرکے مجھے راجوری ۔پونچھ کیلئے باز آباد کاری افسر مقرر کیا اور پیچھے چودھری عباس اور اللہ رکھا ساغر کو میر پور پہنچایا گیا اور ان کے بدلے بریگیڈئرگھنسارا سنگھ، سجیل سنگھ اور کرنل مجید درانی کو جموں لایا گیا۔ ‘‘ راجوری ۔پونچھ میں باز آبادکاری کے افسر کے بطور کام کرنے کے چند ہفتوں کے بعد ہی بھارتی فوج نے سیٹھی کو گرفتار کیا۔ الزام تھا کہ ان کے ہاتھ چینی حکومت کا ایک خط لگا ہے، جو سیٹھی کے نام تھا اور جس میں اس علاقے میں مسلمانو ں کی مدد کرنے کیلئے ان کی ستائش کی گئی تھی۔ میجر جنرل مسری چند نے ان کو راجوری قلعہ میں قید کر لیا۔ ان کے ایک ساتھی ترال کے عنایت اللہ نے پیدل سرینگر پہنچ کر شیخ عبداللہ کو خبر کی، جس نے وزیر اعظم جواہر لال نہرو سے مداخلت کی اپیل کی۔ نومبر کے ماہ میں جب رات کے وقت سیٹھی صاحب کو ایک سپاہی نے بتایا کہ ان کو گولی مارنے کے احکامات موصول ہوئے ہیں، کہ دہلی سے مردولا سارا بائی اور جنرل یادوناتھ سنگھ وارد ہوگئے اور ان کو اپنے ساتھ جموں لے گئے اور اسی کے ساتھ اس پورے قضیہ کی تفتیش کے احکامات دئے گئے۔ معلوم ہوا کہ خط ، ہی جعلی تھا۔ مسری چند کا رینک گھٹایا گیا، مگر اس نے استعفیٰ دیدیا۔ اسپرانٹنڈنٹ پولیس ڈی این کول کا تبادلہ کیا گیا۔ سی آئی ڈی کے افراد جنہوں نے فوج کے ساتھ مل کر یہ سازش ترتیب دی تھی، کو برخاست کر دیا گیا۔ سیٹھی صاحب بہترین مقرر اور ادیب تھے۔ انکا کالم خاصا پر مغز ہوتا تھا ۔ چونکہ وہ بائیں بازو نظریات کے حامی تھے، اسلئے 1962کی بھارت ۔چین جنگ کے دوران ان کو گرفتار کرکے ڈھائی سال تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ وہ موجودہ پارلیمانی جمہوری نظام کے بھی مخالفین میں تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جمہوری نظام کے ستون یعنی سیاسی پارٹیاں جلد ہی سرمایہ دارانہ نظام کی غلام بن جاتی ہیں، کیونکہ انتخابات لڑنے کیلئے کثیر سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔وید بھسین کی طرح وہ بھی اردو زبان کے دیرینہ محبوں اور بہی خواہوں میں شمار ہوتے تھے۔وہ ریاست کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھی۔ کشمیر کے ایک معروف صحافی منظور انجم کے مطابق جموں کشمیر کی تاریخ اور سیاست کا یہ سرگرم کردا ر اپنے پیچھے دو بچوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں چھوڑ گیا ۔ ’’ ؔ نہ کوئی بینک بیلنس ، نہ کوئی کوٹھی یا مکان ، نہ گاڑی نہ کوکوئی اور سامانْ ۔اس کی موت پر آنسو بہانے والے ایسے بے شمار لوگ تھے ،جوا س کے دھرم ، قبیلے نہ اس کے لسانی و نسلی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔وہ نظریاتی طور پر کمیونسٹ تھا، مگراس بنا پر کسی سے نفرت نہ کرتا تھا۔‘‘ انہوں نے ایک بار شیخ عبداللہ کو کہا تھا کہ ’’میں تو لادین ہوں، مگر آپ اسلام کے پیرو کار ہیں اور آپکا مذہب بتاتا ہے کہ مسلمان ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈستا۔ آخر اب بار بار دہلی کے حکمرانوں پر اعتبار کیوں کرتے ہیں۔‘‘ وہ اقبال کے اس شعر کی بھر پور رتفسیر تھے۔ ہوس نے کردیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسا ن کو اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا الوداع کرشن دیو سیٹھی صاحب، الوداع۔۔ ملک عد م میں وید بھسین، بلراج پوری اور اوم صراف ، کب سے آپکا انتظار کر رہے تھے۔شاید وہاں آپ کو محفل مل جائیگی، مگر شہر جموں تو اب پوری طرح درد مند مشاہرین سے خالی ہوگیا۔