میرا کرکٹ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اگر ہے تو صرف اتنا کہ پاکستان جیت جائے تو خوشی ہوتی ہے۔ ہار جائے تو کوئی دُکھ نہیں ہوتا اس لیے کہ ہم تو کئی محاذوں پر پہلے ہی ہار رہے ہیں۔ وہ ثقافتی محاذ ہوں یا معاشی محاذ۔ اپنے ازلی حریف بھارت سے ہارتے ہوئے ہمیں اس وقت محسوس بھی نہیں ہوتا کہ وہ ہمیں کہاں کہاں شکست دے چکا ہے۔ گھر گھر انڈین فلمیں، ڈرامے، انڈین ڈراموں سے شروع ہونے والے لباس اور انداز و اطوار ایک فیشن بن کر ہمارے سماج کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہیں۔ اسی لیے ایک بار سونیا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی محاذ پر شکست دے دی ہے اور ظاہر ہے کچھ غلط بھی نہیں کہا۔ بس ایک کرکٹ ہے جس میں ہم ہر صورت انڈیا سے جیتنا چاہتے ہیں۔ کھیل کو ہم زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاک بھارت میچ ہو تو قوم ایک نفسیاتی ہیجان میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ ہر کھیل ہار جیت سے عبارت ہے۔ کسی ایک ٹیم نے ہارنا ہی ہوتا ہے تبھی دوسری ٹیم کے مقدر میں جیت ہوتی ہے۔ یہاں یہ حال ہوتا ہے کہ کھیل میں آنے والے اتار چڑھائو سے ہماری قوم باقاعدہ نفسیاتی طور پر متاثر ہونے لگتی ہے۔ کرکٹ کے شائقین کو Panic attackہونے لگتے ہیں۔ کسی کا فشار خون بلند ہو رہا ہے تو کسی کی نبضیں بیٹھنے لگتی ہیں۔ ایسے واقعات بھی سنے کہ پاکستان بھارت سے میچ ہارا تو دل برداشتہ کرکٹ شائق کو دل کا دورہ پڑ اور وہ کرکٹ کے نام پر چل بسا۔ جیسا کہ میں نے آغاز میں ہی لکھا کہ مجھے ایسے کھیل سے کوئی رغبت نہیں جس کو دیکھنے میں آپ کا قیمتی وقت گھنٹوں کے حساب سے برباد ہو جائے۔ لیکن میں کچھ عرصہ سے ان ذہنی اور نفسیاتی رجحانات پر کالم لکھنا چاہ رہی تھی جو کرکٹ کے حوالے سے ہمارے سماج میں موجود ہیں۔ کیا میڈیا اور کیا عام کرکٹ کے شائقین ایک عجیب دیوانگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کرکٹ کو حق و باطل کا معرکہ اور زندگی موت کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ گزشتہ دنوں استاد محترم ہارون الرشید نے بھی اپنے کالم میں تذکرہ کیا تھا کہ میڈیا کا رول اس حوالے سے نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ٹی وی چینلز اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے کرکٹ کے حوالے سے ایسی ہائپ کری ایٹ کرتے ہیں۔ ایسا منظر نامہ بنا کے پیش کرتے ہیں کہ قوم کو ایک جذباتی اور نفسیاتی ہیجان میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ پاکستانی شاہین…آج بھارتی سورمائوں کو تہس نہس کر دیں گے۔ پاکستانی شاہینوں نے افغانی سورمائوں سے فتح چھین لی۔ عجیب و غریب قسم کی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پھر تمام دن نشریات کا مرکز و محور صرف اور صرف کرکٹ ہوتا ہے۔ خصوصی ٹرانسمیشن ہو رہی ہیں کھیل کے ماہرین بیٹھے ہوئے ایک ایک گیند کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ ایک ایک شارٹ پر سیر حاصل گفتگو ہو رہی ہے۔ ساری بحثیں، تجزیے اور تبصرے صرف ایک دن کے کھیل پر کیے جا رہے ہیں اور ساری قوم ٹی وی کے سامنے بیٹھی اپنا وقت برباد کر رہی ہے۔ میرے نزدیک وقت سے قیمتی اور کوئی چیز زندگی میں نہیں ہے۔ کوئی ہے جو اس قوم کی تربیت کرے اور اس کی ترجیحات کا تعین کرے… یا پھر یہی بتا دے کہ زندگی میں ترجیحات کی اہمیت کیا ہے۔ وقت کتنا قیمتی ہے۔ ایسی صورت حال میں تو میرے جیسے بندے کو کرکٹ سے نفرت ہونے لگتی ہے اس کھیل کی دیوانگی نے پوری قوم کو ناکارہ کر دیا ہے۔ ٹی وی سے ہٹ کر فیس بک، ٹوئٹر، وٹس ایپ پر دیکھیں تو ہر شخص اسی ایک بیماری میں مبتلا دکھائی دے گا! ہماری نوے فیصد قوم کرکٹ کے بخار میں مبتلا ہے۔ یہ کرکٹ شائق میرے کالم پڑھ کر مجھے قنوطیت پسند، قرار دے سکتے ہیں۔ یا نہایت ہی کوئی خشک مزاج قسم کا انسان، جسے کھیل تک رغبت نہیں جو قوم کو ایک کھیل سے لطف اندوز ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ خاطر جمع رکھیے صاحب! ایسی کوئی بات نہیں۔ کھیل سے آپ کو دلچسپی ہے تو خود کھیل کھیلئیے۔ سارا دن ٹی وی کے سامنے ٹانگیں پسار کر کھیل دیکھنا آپ کی کھیل سے دلچسپی ظاہر نہیں کرتا۔ کہیں پڑھا تھا کہ اچھا کھیل دیکھنے سے بہتر ہے کہ آپ خود برا کھیل کھیل لیں اور ایک آپ ہیں کہ اپنے بچوں کو بھی اسی لت میں مبتلا کر رہے ہیں کہ ٹی وی کے سامنے پوٹیٹو کائوچ بن کر بیٹھے رہیں۔ کھیل اسی وقت ایک مثبت سرگرمی ہے جب آپ خود بھی کھیلیں خواہ اچھا یا برا۔ کھلی فضا میں باہر نکلیں، بھاگیں دوڑیں۔ اس سرگرمی سے آپ کی صحت بھی بہتر ہو گی کیونکہ اس سے آپ کے اندر اینڈورفن ہارمون کی سطح بڑھے گی۔ یہ ہارمون خوشی کے احساسات پیدا کرتا ہے۔ آپ کی نفسیاتی اور جذباتی صحت کو بڑھاتا ہے جبکہ دوسری صورت میں آپ سرفراز کی جمائیوں پر کڑھتے رہیں اور کھلاڑیوں کی ناقص پرفارمنس پر جلتے بھنتے رہیں اور خود کو نفسیاتی ہیجان میں مبتلا رکھیں۔ کھیل کود، جسمانی سرگرمیاں، صبح سویرے یا شام کی سیر، یہ سب صحت مند زندگی گزارنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تا وقتیکہ آپ ہائی بلڈ پریشر، شوگر یا موٹاپے کے مرض میں مبتلا ہو جائیں اور ڈاکٹر آپ کے نسخے پر لکھ دے کہ جسمانی سرگرمی اور واک دوائی کی طرح ضروری ہے۔ یوں بھی رہائشی آبادیوں، چھوٹے چھوٹے گلی محلوں کے آس پاس ایسے باغ، پارک اور کھیلے میدان میسر ہی نہیں ہوتے کہ لوگ آسانی سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ اس طرف کا رخ کریں۔ ہم ایسے ساکت طرزِ زندگی کے عادی ہو چکے ہیں کہ کھیل سے دلچسپی بھی یہی ہے کہ گھنٹوں ٹی وی کے سامنے ٹانگیں پسار کر بیٹھے رہیں اور خود کوئی ہل جل نہ کریں۔ کرکٹ ایک سینڈروم ہے جس میں مبتلا ہو کر قوم کو اس بات سے غافل کر دیا گیا ہے کہ ان کے حصے کے پارک، باغ اور کھیل کے میدان کہاں ہیں، لوگ یہ سوال کرتے ہیں۔! کھیل کے میدان آباد ہوں تو ہسپتال ویران ہوتے ہیں اور اب یہ حال ہے ٹی وی سکرینوں اور سمارٹ فونوں کے کھونٹے سے بندھی ہوئی قوم نے ٹی وی لائونج آباد کر رکھے ہیں۔ ہسپتالوں میں بھی مریضوں کی بہار ہی بہار ہے!