جس طرح کا منظر نامہ آج کا پاکستان دیکھ رہا ہے ۔ شاید سیاسی تقسیم ایسی کبھی نہ تھی حتی کہ 90ء کی دہائی میں بابو اور بی بی کی لڑائی میں بھی۔ اس وقت لوگ کہتے تھے بہت زیادہ ہے ۔ مگر آج لگ رہا ہے اس سے بھی زیادہ ہے۔ معاشرہ بھی تقسیم ہے۔۔۔ میڈیا بھی ۔ مزید یہ کہ سٹیبلشمنٹ میں دراڑیں ڈالنے کی کاوشیں تہہ دل سے جاری و ساری ہیں۔ 96ء میں جب فاروق لغاری نے محترمہ کی حکومت آٹھویں ترمیم کے تحت فارغ کی تو اخبار کی ہیڈ لائن محترمہ کے اس جملے پر مبنی تھی ’’میں حضرت علیؓ کا قول بھول گئی تھی ۔۔۔ جس پہ احسان کرو اس کے شر سے ڈرو‘‘۔ بقول شاعر۔۔۔ اُلٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے 2013ء کا انتخاب ہوا تو نواز شریف وزیر اعظم ہائوس پہنچ گئے۔ کیانی سے کمان راحیل شریف کو مل گئی تھی۔ عمران خان کے دھرنے ریڈ زون سے بھی آگے آگئے۔ قریب تھا کہ میاں نواز شریف پرائم منسٹر ہائوس چھوڑ دیتے کہ کسی کی دعا رنگ لائی اور بچت ہوگئی۔ 2018ء کے الیکشن سے پہلے پانامہ ہو چکا تھا۔ ایک اقامہ انسان کو وزیر اعظم ہائوس سے اپنے گھر پہنچا دیتا ہے۔ ہر تجربہ ناکام ہو جاتا ہے۔ ضرورت ہے آپ ان سب موورز اور شیکرز سے آف دی ریکارڈ مکالمہ کریں۔ ڈاکٹرائن یہی تھی کہ دو سیاسی جماعتوں نے سارے سیاسی نظام کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔ چلئے ایک تھرڈ فورس کا تجربہ کرتے ہیں۔ مگر۔۔۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی بات نہ بنی۔ بنیادی فیکٹرز تین یا چار تھے۔ پنجاب کسی اور کے ہاتھ سے کسی اور کی گود میں چلا گیا۔ ایک پیج پھٹ کر دو صفحات میں بدل گیا کہ مشیران اپنی مثال آپ تھے۔ اس میں عمل انگیز کا کام کیا۔۔ گرتی ہوئی معاشی صورتحال نے اور مزید یہ کہ بیرونی شکنجہ اتنا کسا گیا اور پاکستان کی سانس اکھڑنے لگی۔ چھوٹے ملک کے اپنے محدودات ہوتے ہیںاور بڑی طاقتوں کے ہاتھ بہت لمبے ۔ پاکستان ، چین ، روس اور امریکہ کی خطرناک شطرنج میں گھر چکا تھا اور ہے ۔ سی پیک، چین اور روس ایک جانب اور TFT، آئی ایم ایف، امریکہ اور بھارت دوسری جانب۔ آگے چل کر اس کہانی میں کشمیر اور اسرائیل بھی آئے گا۔ پاکستان کے Reserves تیزی سے کم ہو رہے تھے ۔جو موجود ہیں وہ بھی دوسرے ملکوں کے ہیں کہ ہم دیوالیہ نہ ہو جا ئیں۔ پانی ناک سے اوپر جا چکا تھا اور ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ نے سول پرفارمنس کو دیکھا ۔ جب بھی کسی بل کے اسمبلی میں پاس ہونے کا وقت آتا ۔ اسمبلی کی کورم کے لیے گھنٹیاں بجتیں۔ جو ذرا سرکشی دکھاتا اس کے فون کی بھی گھنٹی بجتی۔ مگر ہمیشہ ایسا ہوتا کہ وہ جو حمایت میں ووٹ ڈالتے بطور اتحادی۔ انہیں حکومت کی جانب سے ہی ایسا ایسا طعنہ ملتا کہ ۔۔۔ مت پوچھ۔ برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے۔ پھر جو ہوا وہ پاکستان نے بھی دیکھا اور پوری دنیا نے بھی۔ جیسی کیبل امریکہ میں پاکستان کے سفیر نے بھیجی اس کا پوسٹ مارٹم بار بار ہوا مگر اندھی عقیدت میں تقسیم پاکستانی کی بات سننے کے روا دار نہیں۔ کیا سازشیں ایسے ہوتی ہیں؟ ایک ہوتی ہے گلوبل اسٹیبلشمنٹ۔۔ دوسری ہوتی ہے لوکل اسٹیبلشمنٹ ۔ یہ پرفارمنس ہے۔ عمران خان کے دور کے بعد آج جب پلٹ کر تینوں بڑی جماعتوں کو دیکھتے ہیں تو ۔ لارڈ برائس امریکہ کا سیاسی مفکر ہے۔ اسے ری پبلکن اور ڈیوم کریٹس میں فرق پوچھا گیا۔ جواب تھا۔۔۔ پانی ایک سا ہے۔۔۔ لیبل مختلف سہی۔ یہاں۔۔۔؟ وہی معاشرہ۔۔۔ وہی ذہنیت ، وہی حالات، ویسا ہی سیاسی میٹریل تو پھر تبدیلی کون لائے گا؟ سیاستدان؟ پارلیمنٹ؟ بیوروکریسی ؟ یا فوج۔ ضرورت ہے ان سب کی مستقل ہم آہنگی کی جو عنقا ہے۔ ہماری اشرافیہ بھی مایوس کن ہے اور عوام بھی۔ خیر بات ہو رہی ہے آج کے پاکستان کی۔ عمران خان نے اپنے نکالے جانے پر عوام کا جم غفیر باہر لے آئے۔ مقصد کیا ہے؟ جلد الیکشن کے لیے دبائو ڈالنا۔ حکومت کیا کر رہی ہے؟ بڑھتے ہوئے معاشی دبائو اور گورننس کے تقاضوں سے مغلوب حکومت بھرپور کوشش میں ہے کہ اسے اتنا پرفارم کرنے کی مہلت مل جائے کہ وہ اگلے الیکشن میں کہہ سکے کہ فرق صاف ظاہر ہے۔ مگر جمع تفریق کچھ اور ہے۔ میرے پنڈت کے مطابق جیسے جیسے وقت گزرے گا۔۔ حکمران اتحاد کے باہمی تضادات سر اٹھائیں گے۔ تھوڑا سا اور وقت آگے بڑھے گا تو زمینی حالات کی وجہ سے اُن کے پائوں کے نیچے سے زمین کھسکنی شروع ہو جائے گی۔ دوسری جانب عمران احتجاج کے ذریعے اور عوامی جلسوں کے ذریعے صورتحال کو بلدنے کے لیے ضربیں لگائیں گے۔ پنجاب میں اسی طرح کا کھیل جاری ہے جیسا مرکز میں تھا۔ حمزہ حلف نہیں اٹھا سکا کہ گورنر اور صدر تحریک انصاف کی طرز پر کھیل رہے ہیں۔ پنجاب ساری بیوروکریسی بمعہ چیف سیکرٹری کس کے احکامات پر صوبہ چلا رہے ہیں؟ بزدار یا گورنر؟ دونوں ہی نہیں تو پھر کون؟ سب حمزہ سے ڈائریکشن لے رہے ہیں۔ اس سے تحریک انصاف کیا مقاصد حاصل کرے گی؟ یہ آپ کو عمر سرفراز اور پرویز الٰہی بہتر بتا سکتے ہیں مگر حمزہ اور شہباز شریف کے علاوہ مریم اور ان کے شوہر بھی اب حکومتی لُک دینا شروع ہوگئے ہیں۔اہم حلقوں نے وزیر اعظم ہائوس کو دھیمے سُروں میں کہا ہے کہ مریم کے انگ، رنگ اور ڈھنگ سے ذرا اجتناب کریں۔ یہ بحران ۔۔۔ زیادہ دیر تک نہیں رہے گا۔ ایک اہم تعیناتی ہو جائے ۔۔ نومبر۔۔ دسمبر میں انتخاب کا اعلان ہو جائے گا۔ مگر شاید یہ بحران پھر بھی نہ ختم ہو کہ اختلاف سیاسی سے زیادہ ذاتی بنا دیا گیا ہے۔