رنجش کار زیاں دربدری تنہائی اور دشمن بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ برلب ناز گل حرف دعا میرے لئے اے فلک دیکھ مجھے چشم گہر بار کے ساتھ تنہائی کا کیا تذکرہ، کہ ہر شخص ہی آج کل تنہا تنہا ہے۔ بات کامیں آغاز کروں گا نہایت دلچسپ واقعہ ہے کہ آپ کو پسند بھی آئے گا اور ہو سکتا ہے آپ اس کو مشورہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا بھی ہو جائیں۔ دنیا ہم پر جب مہربان ہوتی ہے تو ایسے ہی نہیں، کچھ نہ کچھ پس پردہ ان کے عزائم ہوتے ہیں کوئی ایجنڈا ہوتا ہے ہمیں پتہ تب چلتا ہے جب ہمارا نقصان ہو جاتا ہے تب جا کر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ ہم کس کی جنگ لڑ رہے تھے ۔کون سا بیڑا کس کا بیڑا غرق کرنے کے لئے آ رہا تھا۔ فی الحال تو ہم کورونا کے چکر میں ایسے پڑے ہوئے ہیں کہ اس نے سب کو چکرا دیا ہے۔ آپ اسے گھن چکر کہہ لیں۔سمجھ میں کسی کے کچھ نہیں آ رہا ،کوئی کہتا ہے کہ یہ بڑے ہاتھیوں کی لڑائی ہے کہ اس میں چیونٹیاں مسلی جا رہی ہیں ۔وبا سے زیادہ اس کا خوف پھیلایا گیا ہے پس پردہ کیا ہے خدا ہی جانتا ہے۔ پتہ نہیں ہمیں بھٹکایا جا رہا ہے یا راہ راست کی طرف لایا جا رہا ہے۔ مکہ و مدینہ تک اس احتیاط کے حصار میں آ گئے ہیں کچھ کا کہنا ہے کہ نائن الیون کی طرح اس حقیقت سے بھی پردہ بہت بعد میں اٹھے گا مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس میں کیا کر سکتے ہیں؟ بڑے بڑے ڈاکٹرز بھی اسے ڈائلیما dilimaکہہ رہے ہیں۔ لکیر کے فقیر اور کیسے ہوتے ہیں۔ میڈیا کی رہنمائی پر بھی دل یقین نہیں کرتا کہ وہ بھی کس کا کھیل کھیلتے ہیں وہ بھی مارتے کم ہیں ڈراتے زیادہ ہیں۔ فی الحال تو ہمیں لاک ڈائون نے ناک ڈائون کر رکھا ہے مسائل بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ حالات نے بڑوں بڑوں کو گھر پر بٹھا دیا ہے اور پھر بندہ فارغ بیٹھ کر کچھ نہ کچھ تو سوچتا ہی ہے اور وہ جو کہا جاتا ہے کہ خالی ذہن شیطان کی ورکشاپ ہوتی ہے۔ سو سو فکراں تے پرچھاویں سو سو غم جدائی دے‘ہم اٹھتے بیٹھتے حکومت کو کوستے ہیں کہ یہ لاک ڈائون مہینہ پہلے لگا دیا ہوتا تو اب تک ہم چین کی طرح بحال ہو چکے ہوتے۔ یہ الگ بات کہ بعد میں لگنے والے لاک ڈائون کی پابندی بھی ہم نے کب کی ہے۔ اصل میں ہمارا سوشل سیٹ اپ ہی ایسا ہے کہ اس میں سماجی دوری ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ کیونکہ ہاتھ ملانا اور گلے ملنا ہماری عادات میں شامل ہے: گلے سے لگتے ہی جتنے گلے تھے بھول گئے وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکائتیں کیا کیا اور اب کے تو ایسا آسمان ٹوٹا ہے کہ میاں بیوی بھی دور دور سے ایک دوسرے کا حال پوچھتے ہیں، پوچھتے بھی کیا ہیں چہروں سے عیاں ہے۔ موجودہ افراتفری اور نفسا نفسی میں بہت کچھ عیاں ہو گیا ہے لوگ ایک دوسرے سے آنکھ تک نہیں ملاتے۔ جو رپورٹس آ رہی ہیں تو پتہ چل رہا ہے کہ گھروں میں لڑائیاں بڑھ گئی ہیں۔ طلاقیں اور خودکشیاں تک ہو رہی ہیں۔ لوگ اس طرح اکٹھے رہنے کے عادی نہیں تھے۔ مرد بیٹھ بیٹھ کر اکتا گئے ہیں اور بیویاں کچھ خوش نہیں ہیں کہ کام بڑھ گیا ہے ۔پہلے تو کھانا پینا باہر سے آ جاتا تھا اب آرڈر دیتے بھی ڈر لگتا ہے کہ وائرس تو پیزے پر بھی آ سکتا ہے۔ ایک بات اچھی ہے کہ بچے خوش ہیں والد صاحب نظر کے سامنے رہتے ہیں اور انہیں ان کے ساتھ کچھ کام شام بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ ماسی اور مائی کی بھی چھٹی کروا دی گئی۔ مالی کو بھی منع کر دیا گیا ہے کچھ نے تو ان کی تنخواہیں نہیں دیں کہ کام پر نہیں ہیں یہ تو شاید بڑا ظلم ہے کہ انہیں ان کے حق سے محروم کر دیا جائے ۔اس کے علاوہ بھی سماجی معاشرتی اور معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ صرف درون خانہ نہیں بیرون خانہ بھی۔ باہر کا منظر دیکھیں تو حالات کا ستیا ناس کرنے کے لئے ہمیشہ کی طرح ہماری پولیس ہی کافی ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کوئٹہ میں انہوں نے بے چارے احتجاج کرنے ڈاکٹروں کے ساتھ کیا کیا۔ ہمارے یہ محافظ بہت منفرد ہیں کہ جس کی حفاظت پہ مامور ہوں اس کا پھر اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ وہ لاک ڈائون کی خلاف ورزی کرنے والوں سے بھی رشوت بٹور رہے ہیں۔ یہ بہت نڈر اور بہادر ہیں کسی بھی حالت میں اپنا دھندا نہیں چھوڑتے۔ موت سے بھی نہیں ڈرتے خدا تو ان کو کبھی یاد آیا ہی نہیں۔ منافع خور تاجر بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانے میں پیچھے نہیں۔ وہ دکانیں بند ہونے کے باوجود بھی راستے نکال لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر لفنگے قسم کے لوگ بھی لوگوں کا ’’تراہ ‘‘نکالنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ کورونا کو اچھوت بنانے میں ان کا ہاتھ ہے۔ لاش کو جلانے کا مشورہ تک دیتے ہیں۔ اچھا ہوا کہ علامہ ابتسام الہٰی ظہیر نے اعلان کیا کہ وہ فی سبیل اللہ ایسے شخص کو غسل دیں گے جو کورونا سے شہید ہو گا۔ ایسے میں ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو حوصلہ بخشتے ہیں مثلاً مجھے ڈاکٹر محمد امجد کا فون آیا وہ سروسز میں ای این ٹی کے سربراہ ہیں۔ پاکستان کے دو تین بڑے سرجنز میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ انہوں نے بہت حوصلہ افزا باتیں کیں۔ میں نے سوچا یہ ہمارا دوست کیا ڈاکٹر ہے کہ فون کر کے ہمارا حال دریافت کر رہا ہے۔کہنے لگے کہ واقعتاً گھبرانے والی بات نہیں الحمد اللہ ہمارے ہاں کورونا کے مریض صحت یاب ہو رہے ہیں۔ یہ بھی ڈینگی کی طرح ہے کہ سرکل پورا ہونے پر مریض شفایات ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر وہ لوگ نشانہ بنتے ہیں جو کافی بوڑھے ہیں اور کسی مرض میں پہلے سے مبتلا ہیں۔ ہاں اس کے لئے احتیاط بہر طور انتہائی ضروری ہے کہ بعد میں پریشانی اٹھانے کا کیا فائدہ۔ انہوں نے ایک اور بات کہی کہ حکومت نے ڈاکٹرز کے لئے حفاظتی اقدام کچھ زیادہ نہیں کیے۔ یہ تو مجھے ہمارے دوست ڈاکٹر ناصر قریشی نے بھی بتایا کہ انہوں نے اور ان کی بیٹی نے اپنے ماسک دو دو ہزار میں خود خریدے ہیں۔ ان کی بیٹی کی تو ڈیوٹی بھی میوہسپتال کورونا سیکشن میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کو عام آدمی سے زیادہ احتیاط کرنا ہوتی ہے کہ اس کاایکسپوژر زیادہ ہوتا ہے۔ وہ بھی احتیاط کے حوالے سے کہہ رہے تھے کہ حکومت جیسے پیسے بانٹ رہی ہے اور وہاں لوگوں کا جم غفیر جمع ہوتا ہے وہاں دفعہ ایک سو چوالیس کیا کرے گی۔ یوٹیلیٹی سٹورز سے باہر لمبی لمبی قطاریں اور اسی طرح منڈی میں، محلے میں کھیلتے بچے ہی نہیں اب ان کے والد اور چچا بھی سب شامل ہوتے ہیں کہ وقت کیسے کٹے ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں احتیاط کرنا ہے: روز کہتا ہوں بھول جائوں اسے روز یہ بات بھول جاتا ہوں جو بھی ہے ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں ڈاکٹرز کے ساتھ پیرا میڈیکل سٹاف کے علاوہ بھی لوگ ہیں جو شامل ہیں اسی طرح گھروں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے والے کسی کی نظر میں ہی نہیں آتے۔ ان کی مدد ضرور کرنی چاہیے بھکاریوں اور پیشہ وروں سے بچنا بھی ہمارا کام ہے ۔سب سے بڑی نیکی سفید پوش ضرورت مندوں تک راشن پہنچانا ہے۔ اس حوالے سے الخدمت تو بقول شیخ رشید موجودہ صورت حال میں معجزہ ہے۔ مجھے تو نور الہدیٰ کا بھی فون آیا کہ غزالی ٹرسٹ والے بھی کار خیر میں شامل ہیں اخوت کے ڈاکٹر امجد ثاقب تو خیر اس مقصد کے لئے وقف ہیں۔کتنا بامعنی شعرہے: کرو مہربانی تم اہل زمیں پر خدا مہرباں ہو گا عرش بریں پر