کرونا وائرس کو پاکستان میں پھیلنے سے روکنے کی خاطر حکومت نے چین سے پاکستانیوں کو فوری واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ چین سے کوئی پاکستانی 14دن کی نگرانی کا عمل مکمل کرائے بغیر وطن واپس نہیں آئے گا۔ انہوں نے حکومت کی طرف سے حفاظتی تدابیر سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں چینی باشندوں کی سکریننگ مکمل کر لی گئی ہے جبکہ چینی حکومت نے پاکستان میں تشخیصی مرکز قائم کرنے کی پیشکش کی ہے۔ مشیر صحت نے آگاہ کیا کہ پاکستان آنے والے تمام مسافروں کے لئے ہیلتھ ڈیکلریشن فارم بھرنا لازمی قرار دیدیا گیا ہے۔ ہمسایہ دوست ملک چین میں گزشتہ چند روز میں کرونا وائرس نے ہزاروں افراد کو متاثر کیا ہے۔ یہ مہلک وائرس اب تک 304افراد کی جان لے چکا ہے جبکہ 14380چینی باشندے اس سے متاثر ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس پھیلنے کے خوف سے دنیا کی اکثر فضائی کمپنیوں نے چین کے لئے پروازیں بند کر دی ہیں۔ وہ تمام ممالک جن سے چین کا تجارتی تعلق ہے انہوں نے چین سے مال کی خریداری روک دی ہے۔ چین کے مرکزی بنک کا کہنا ہے کہ وائرس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں معطل ہوئی ہیں اور چین کو اربوں ڈالر کا نقصان ہو چکاہے۔ ریزرو بنک آف چائنا نے چینی معیشت میں 173ارب ڈالر شامل کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے کرنسی مارکیٹ کو استحکام حاصل ہو گا۔ پاکستان اور چین کئی تجارتی‘ معاشی اور تزویراتی منصوبوں میں شراکت دار ہیں۔ پاکستان میں سی پیک اور دیگر منصوبوں پر کام کرنے والے ہزاروں چینی ہنر مند مقیم ہیں۔ چین کے شہر ووہان میں سب سے زیادہ کرونا وائرس نے تباہی پھیلائی وہاں 500پاکستانی طالب علم موجود ہیں جبکہ ان کے اہل خانہ اور سینکڑوں پاکستانی تاجر بھی چین کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں کرونا وائرس سے متعلق اطلاعات کے بعد ان طالب علموں اور تاجروں نے سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت سے اپیل کی ہے کہ انہیں چین سے نکالا جائے۔ چین میں مقیم پاکستانیوں کے لواحقین نے اس سلسلے میں حکومت سے الگ درخواست کی اور اپنے عزیزوں کو وبا کے علاقے سے نکالنے کا کہا ہے۔ چین میں موجود پاکستانیوں اور وطن میں موجود ان کے لواحقین کی فکر مندی جائز ہے۔ حکومت کو اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور ان لوگوں کی صحت اور حفاظت کے لئے کسی سستی یا غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے تاہم اس معاملے پر بعض حلقوں کی جانب سے حکومتی حکمت عملی پر تنقید سے یہ تاثر ابھرنے لگا ہے کہ گویا حکومت اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر وطن واپس لانے سے انکاری ہے یا گریز کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ مشیر صحت نے پریس کانفرنس میں جن عناصر کے متعلق سخت لہجہ اختیار کیا وہ یہی لوگ ہیں جو ایک قدرتی آفت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ کرونا وائرس کی تشخیص اور علاج سے متعلق پاکستان میں تاحال سہولیات موجود نہیں۔ خود چین میں طبی ماہرین اس کے علاج پر کام کر رہے ہیں مگر انہیں تاحال کامیابی نہیں ملی۔ ایسے حالات میں رسول اللہ ؐ کی حدیث مبارکہ سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ آپؐ نے وباء کے شکار علاقے کے لوگوں کو اپنے علاقے میں رک جانے کی ہدایت کی تاکہ وبا دوسرے علاقوں تک نہ پھیل سکے۔ چین دنیا کی اہم تجارتی منڈی ہے‘ ساری دنیا چین کے ساتھ کاروبار کرتی ہے۔ اب تک دنیا کے 27ممالک میں مہلک وائرس کی موجودگی ثابت ہوئی ہے۔ اللہ کریم کا شکر ہے کہ ابھی تک پاکستان میں اس کا کوئی مریض سامنے نہیں آیا۔ چند سال قبل پاکستان میں مچھر سے پھیلنے والی ڈینگی کی وبا عام ہوئی تھی۔ ڈینگی نے کئی سو افراد کی جانیں لیں۔ پہلے برس نقصان زیادہ تھا تاہم ڈینگی سے نمٹنے میں سری لنکن اور دیگر اقوام کو تجربہ حاصل تھا اس لئے پاکستان نے ان سے استفادہ کرتے ہوئے حفاظتی اقدامات اٹھائے۔ کرونا وائرس کی علامات ماہرین کے علم میں آ چکی ہیں مگر ابھی تک یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہ وائرس کس دوا سے ختم ہو سکتا ہے۔ ایسی صورت حال میں اللہ نہ کرے کرونا وائرس سے متاثرہ کوئی شخص پاکستان آیا تو حکومت اور محکمہ صحت کے لئے اسے سنبھالنا ناممکن ہو سکتا ہے لہٰذا اس امر میں کوئی قباحت نہیں کہ چین میںمقیم پاکستانیوں کو وطن واپس لانے سے پہلے مسلسل نگرانی میں رکھا جائے اور طبی ماہرین کی جانب سے وائرس سے پاک ہونے کی رپورٹ کے بعد انہیں وطن واپس لایا جائے۔ ماحولیاتی تبدیلیاں‘انسان اور جانوروں کے مابین تعلق میں تبدیلی اور خوراک کی بدلتی عادات نئی نئی بیماریوں کو جنم دے رہی ہیں۔1980ء کی دہائی سے ایچ آئی وی کا وائرس سامنے آیا جس نے دیکھتے دیکھتے پوری دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کو متاثر کیا۔2004ء سے 2007ء کے دوران برڈ فلو پھیلا۔2009ء میں سور کی وجہ سے سوائن فلو پھیلا۔ چمگادڑوں سے ایبولا وائرس انسانوں میں منتقل ہوا۔ جراثیم کی بقا اس عمل میں ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ جانداروں کو متاثر کریں اور ایک نوع سے دوسری میں منتقل ہوں۔ کرونا وائرس جیسے امراض زیادہ تر ان لوگوں کو متاثر کرتے ہیں جن رہن سہن اور کھانے پینے کی عادات میں پاکیزگی نہیں۔ شہروں میں آبادی گنجان ہو گئی ہے یہ صورتحال ایک انسان سے دوسرے کو وائرس کی منتقل آسان بنا دیتی ہے۔حکومت نے داخلی و خارجی راستوں پر حفاظتی اقدامات کئے ہیں مگر طبی ماہرین کو جلد سے جلد کرونا وائرس کی تشخیص اور علاج سے آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان کو اس وباء سے محفوظ بنایا جا سکے۔ حکومت طبی ماہرین کو اس سلسلے میں تربیت کے مواقع فراہم کر کے ناخوشگوار صورت حال سے بچ سکتی ہے۔