ایران میں کرونا بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور امریکہ اور ایران کی قیادت اس معاملے کو انسانی المیے کی بجائے سیاسی عنوان کے تحت دیکھ رہی ہیں اور کوئی بھی اپنی انا کے خول سے باہر آنے کو تیار نہیں۔سوال یہ ہے کہ انا اور ضد کی اس جنگ میں ایران کے عوام کا کیا بنے گا ؟ اور اس سے جڑا سوال یہ ہے کہ ایران میں یہ وبا قابو سے باہر ہو گئی تو ہم جو اس کے پڑوس میں ہیں ہمارا کیا بنے گا؟ واشنگٹن پوسٹ میں، کل ، ایڈم ٹیلر کی ایک تحریر نظر سے گزری۔تہران کی شریف یونیورسٹی کی تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ایران میں ایک ہزار سے زیادہ لوگ کرونا وائرس سے مر چکے اور صورت حال ایسی ہی رہی تو مئی کے اختتام تک ایران میں 35 لاکھ لوگ کرونا وائرس کے ہاتھوں جاں بحق ہو چکے ہوں گے۔ نیویارک ٹائمز اور گارجین میں وہ سیٹلائٹ سی لی گئی وہ تصاویر شائع کی جا چکی ہیں جن میں ایران میں کھودی گئی اجتماعی قبروں کو دکھایا جا رہا ہے۔ یہ تصویر بتاتی ہے کہ ایران میں صورت حال شاید دستیاب اعدادو شمار سے زیادہ نازک ہے۔کم از کم واشنگٹن پوسٹ کا یہی دعوی ہے۔شریف یونیورسٹی کے اعدادوشمار دیکھیں تو واشنگٹن پوسٹ کا دعوی کچھ غلط بھی نہیں لگتا۔ برطانیہ نے امریکہ کو اس نازک مرحلے پر پابندیاں نرم کرنے کا مشورہ دیا ہے جسے امریکہ نے ٹھکرا دیا ہے۔چین بھی پابندیاں اٹھانے کے حق میں ہے لیکن امریکہ کسی کی نہیں سن رہا۔ امریکہ نے پابندیاں نرم کرنے کی بجائے مزید سخت کر دی ہیں اور ایران کے لیے بیرونی دنیا سے حفاظتی کٹس اور ادویات منگوانا عملا نا ممکن ہو گیا ہے۔ ایک انسانی المیہ کے دوران امریکہ کا یہ رویہ دیکھ کر میڈیلن البرائٹ کا وہ جواب یاد آتا ہے جو انہوں نے 1996 میں امریکی ٹی وی کے پروگرام’’ 60 ـمنٹ‘‘میں دیا تھا۔ میزبان نے سوال پوچھا کہ عراق پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پانچ لاکھ عراقی بچے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ، تو کیا آپ سمجھتی ہیں کہ یہ قیمت ادا کرنی چاہیے؟ میڈیلن البرائٹ کا جواب تھا: یہ ایک مشکل فیصلہ ہے لیکن جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو میرا جواب ہے کہ ہاں ، یہ قیمت ادا کی جانی چاہیے۔ ۔۔۔۔۔بین الاقوامی سیاست اور تنازعات کی بھول بھلیوں سے قطع نظر سوال یہ ہے کیا ایران میں انسان نہیں بستے؟ کیا ان کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہیں؟ان سوالات کا مخاطب البتہ صرف امریکہ نہیں ، خود ایرانی قیادت بھی ہے۔ امریکہ سے زیادہ شکوہ نہیں۔ اس کے ہاں یہ معمول کی بات ہے۔ دوسرے کے آنگن میں آگ لگی ہو تو اس دل کم ہی پسیجتا ہے۔ امریکی پالیسی تو سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچیسن بیان کر چکے کہ ’’ امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہے‘‘۔یہ بھی انہی کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ انٹر نیشنل لاء جائے جہنم میں ، مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ انٹر نیشنل لاء کے ماہرین کیا کہتے ہیں‘‘۔ نام چامسکی سے لے کر ولیم بلم تک لوگوں نے امریکہ کی پالیسیوں پر اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ اب مزید کچھ کہنے کی حاجت نہیں۔ ان حالات میں زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ بحران سے دوچار ایران کی پالیسی میں حکمت کہاں ہے؟ لوگ ایران کے مر رہے ہیں ، اس بحران کے پیش نظر ایران اپنی پالیسی تھوڑی نرم کر لیتا تو اس میں کوئی مضائقہ نہ تھا۔ امریکہ نے دکھاوے کے لیے ہی سہی دو آپشن دیے تھے۔امریکہ نے پہلا آپشن یہ دیا کہ ایران کو امداد چاہیے تو فوری طور پر وہاں قید امریکی شہریوں کو رہا کر دیا جائے۔ ایران نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ امریکہ نے دوسرا آپشن دیا کہ سوئٹزر لینڈ کے ذریعے ایران کچھ امداد وصول کر لے ۔اس میں شرط یہ تھی کہ جس کمپنی نے بھی سوئٹزر لینڈ کے ذریعے ایران کو کچھ سامان بھیجنا تھا اس نے امریکہ سے ایک این او سی لینا تھا کہ اس کی پاداش میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو گی۔ اس آپشن کو پیچیدہ قرار دے کر ایران نے رد کر دیا۔ اس کی پیچیدگی کے بارے میں قریبا یہی موقف برطانیہ کا بھی ہے ۔ ایران اس موقع پر حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یہ آپشن تسلیم کر لیتا تو ایران کے شہریوں کو طبی سہولیات کی فراہمی کا معاملہ آسان ہو سکتا تھا۔اب لوگ مر رہے ہیں اور ان دو ممالک کی قیادت اپنی انا کے خول سے باہر نہیں نکل رہی۔ یہ سوال بہت اہم ہے کہ اتنے بڑے بحران میں ، اگر امریکہ اپنی ضد سے پیچھے نہیں ہٹ رہا تو کیا 35 لاکھ لوگوں کے مئی تک کرونا وائرس کے ہاتھوں مر جانے کا خطرہ اس قابل بھی نہیں کہ ایرانی قیادت کے رویے میں ہی کچھ نرمی آ جائے؟ دنیا میں عزیمت کے ساتھ حکمت اور رخصت کا بھی ایک مقام ہے۔یاد رہے کہ 35 لاکھ لوگوں کے مرجانے کے امکان کے یہ اعدادو شمار خود ایران کی شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے تیار کردہ ہیں۔اتنے بڑے بحران میں امریکی اور ایرانی قیادت کا یہ تنائو نہ صرف ایران بلکہ اس پورے خطے کے لیے تباہ کن ہو سکتا ہے۔ ایران تو شاید اپنے عوام کو یہ کہہ کر مطمئن کر دے کہ اس کی انتظامی صلاحیتیں تو بیدار اور متحرک تھیں بس امریکی پابندیوں کی وجہ سے حالات اتنے خراب ہوئے لیکن ہمارے سوچنے کا مقام یہ ہے پڑوس میں اتنی خطرناک صورت حال کے ساتھ ہم کہاں کھڑے ہوں گے۔ امریکہ پابندیاں نہیں اٹھا رہا لیکن عالمی ادارہ صحت اور متحدہ عرب امارات نے کچھ طبی امداد ایران کو دی ہے۔ یعنی امید کی ایک کھڑکی کھلی ہے۔ سوال یہ ہے کیا او آئی سی اس موقع پر کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ کاغذوں میں او آئی کا ایک عدد اسلامک سالیڈیریٹی فنڈ ہے جس مقصد ہی مسلم ممالک کو قدرتی آفات میں مدد فراہم کرنا تھا۔ روئے زمین پر حقیقت کی دنیا میں اگر اس نام سے کوئی فنڈ موجود ہے تو او آئی سی کو معلوم ہونا چاہیے ایران ہی کو نہیں پاکستان کو بھی اس فنڈ کی ضرورت ہے۔کرونا سے بڑی آفت اور کیا ہو سکتی ہے؟ ایرانی صدر حسن روحانی نے دنیا بھر کے سربراہان حکومت و ریاست کو جو خط لکھا ہے وہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ووہ لکھتے ہیں : ’’ یہ بات کسی شک سے بالاتر ہو کر سمجھ لیجیے کہ اس عالمی وبا کے ماحول میںتہران اور قم کے شہر پیرس ، لندن اور نیویورک سے زیادہ دور نہیں۔اور ایسی کوئی پالیسی جو ہمارے معاشی ڈھانچے اور طبی نظام کو کمزار کرنے کا باعث بنے گی یا اس وبا سے نبٹنے کے لیے درکار ہمارے مالی وسائل کو محدود کر دے اس کا براہ راست اثر دوسرے ممالک پر بھی پڑے گا‘‘۔اس خط کو بین السطور پڑھیے یا متن پڑھیے ، اور متن پڑھیے یا حاشیہ پڑھیے، اس میں ایک جہان معنی پوشیدہ ہے ۔ پیرس ، لندن اور نیویار ک تو پھر کچھ دوری پر ہوں گے ، ہم تو پڑوس میں ہیں۔سرحد بھی چند کلومیٹر پر قائم درجن بھر پوسٹوں پر محیط نہیں ، کوہ ملک سیاہ سے گلف آف عمان تک یہ 959 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی سرحد ہے۔