’’ کرونا وائرس اور شاکر شجاع آبادی کے اشعار ‘‘ کے عنوان کا مطلب یہ نہیں کہ میں خدا نخواستہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شاکر شجاع آبادی کے اشعار پڑھیں ، کرونا وائرس ختم ہو جائے گا ، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ بزرگوں کا کلام پڑھنے سے دل کو حوصلہ ملتا ہے اور ٹوٹے دل جُڑ جاتے ہیں ۔ شاکر شجاع آبادی کے اشعار سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ روزنامہ 92 کی خبر کے مطابق دو ارب سے زائد انسان گندا اور مضر صحت پانی پینے کے باعث طرح طرح کے عوارض کا شکار ہیں اور وہ موت کے منہ میں جا رہے ہیں ، سوال یہ ہے کہ ہمارے ’’ ترقی یافتہ ‘‘ اور سرمایہ دار ممالک نے صاف پانی کی فراہمی کیلئے کیا اقدامات کئے ؟ ملک کو لاک ڈاؤن کرنے سے مہنگائی کے طوفان نے سر اٹھا لیا ہے ، جس کی زد میں پوری دنیا کے غریب آ رہے ہیں اور اربوں کی تعداد میں غریب کچلے گئے ،اس کے علاوہ موذی امراض کینسر ، یرقان ، شوگر وغیرہ ہر لمحہ انسانوں کو ختم کر رہی ہے ، ان امراض کے تحفظ کے لئے کیا اقدامات ہوئے ؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ کرونا وائرس دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی متاثر کیا ہے ، مگر دنیا کے بڑے ’’ چوہدری ‘‘ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے پابندیاں لگائی ہوئی ہیں ، ادویات اور طبی آلات بھی باہر سے نہیں منگوا سکتے ، پابندیوں کے خاتمے کیلئے آواز کیوں نہیں اٹھائی جاتی ؟ ایران میں لاکھوں پاکستانی زائرین پھنسے ہوئے ہیں ‘ حکومت نے بارڈرز سیل کر دیئے ہیں ، اپیلوں کے باوجود بارڈر نہیں کھولے جا رہے ، لیکن حیرانی کی بات ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے محض ایک ٹوئٹ کے ذریعے افغانستان کے لئے چمن کی سرحد کھول دی ہے ، وجہ یہ بتائی گئی کہ افغانستان کے ٹرک پھنسے ہوئے تھے ، سوال یہ ہے کہ عمران خان کا افغانستان کیلئے گوشہ نرم کیوں ہے ؟خصوصاً ان حالات میں کہ دہشت گردی کے تمام دروازے افغانستان سے کھلتے ہیں ۔ وسیب کے لوگ آج تک اس بات کو نہیں بھولے کہ مشرف دور میں دہشتگردی کا شکار دیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کے لوگ ہوئے اور تحریک انصاف کے چیئرمین اظہار یکجہتی کیلئے قافلہ لے کر وزیرستان گئے ۔ اگر وائرس کی تاریخ کا جائزہ لیں تو سب سے بڑا وائرس غربت ہے جو کہ کائنات کے آغاز سے لیکر اب تک مسلسل جاری ہے اور اس کی زد میں اربوں انسان آ چکے ہیں مگر اہل دانش نے اس کے خاتمے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے ۔ دیگر وائرس کی تاریخ کو دیکھیں تو سب سے بڑا وائرس طاعون کی شکل میں 1347ء سے 1351ء تک جاری رہا ، یہ مشرقی ایشیاء سے شروع ہوا اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔کہا جاتا ہے کہ 40 فیصد سے زائد آبادی موت کے منہ میں چلی گئی ، مرنے والے انسانوں کا اندازہ 20 کروڑ تھا ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے 2018ء میں کانگو وائرس سامنے آیا جو کہ سوڈان اور یوگینڈا کے بہت سے انسانوں کو کھاگیا ۔ 2013ء میں مغربی افریقہ میں ابولہ وائرس سے قریباً 12 ہزار انسان موت کے منہ میں چلے گے ۔ پہلی عالمی جنگ کی تباہی کے بعد ہسپانوی وبا سامنے آئی جس نے 10 کروڑ انسانوں کو نگل لیا ۔ ایڈز کی وبا ابھی تک جاری ہے ، خسرہ و چیچک کے نشانات بھی ابھی باقی ہیں ۔ 1990ء میں کوکولز تلی 1 اور 2 سے ڈیڑھ کروڑ انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔ ایک قدیم طاعون کا واقعہ 541ء کا بھی بتایا جاتا ہے ، مغربی افریقہ اور دوسرے ممالک کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ دو سال کے اندر اس نے دو کروڑ انسانوں کو موت کی نیند سلا دیا ۔کہا جاتا ہے کہ 1915ء میں دماغ کے وائرس کی وبا رہی ، جسے گردن توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے ، اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 15 لاکھ افراد فوت ہوئے ۔ چین میں 1957ء میں کری ایٹوکامنز انفلوائنزا کا وائرس آیا ، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، اس سے 20 لاکھ کے قریب لوگ ہلاک ہوئے ۔ 1772ء میں ایرانی طاعون نے 20 لاکھ ہلاکتیں کیں ۔165ء میں انتونین کی وبا پھیلی ، جس سے 70لاکھ سے زائد ہلاکتیں ہوئیں ۔ جب کائنات میں ظلم ، زیادتی اور نا انصافی بڑھ جائے تو اسی طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں ، کرونا بھی انہی عذابوں کا ایک تسلسل ہے ‘ اس کا علاج ظلم و زیادتی سے توبہ اور انصاف کی فراوانی ہے ۔ ایک سوال کیا جا سکتا ہے کہ ہر عذاب کا شکار غریب لوگ ہوتے ہیں جو ظلم نہیں کرتے بلکہ ظلم سہتے ہیں تو ظلم سہنا بھی جرم ہے اور جب اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو اس کی لپیٹ میں سب آتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران مساوات اور انصاف قائم کریں اور ظلم کرنے والے ظلم سے توبہ کریں اور غریب لوگ ظلم سہنے کی بجائے ظلم کے خلاف مزاحمت کریں ۔ یہی ایک صورت ہے جس سے ہم عذابوں سے نجات پا سکتے ہیں ۔ ورنہ خالی ماسک پہننے سے نہ وائرس کو روکا جا سکتاہے ، نہ عذاب الٰہی کو ۔ کرونا وائرس سے بڑا عذاب اس کا خوف ہے اور خوف کی کیفیت کوئی اور نہیں ہم خود اور حکمران پیدا کر رہے ہیں ، احتیاطی تدابیر بر حق اور ضروری باقی معاملات خدا کے سپرد کرنے ہوتے ہیں۔ وسیب کے عظیم شاعر سئیں شاکر شجاع آبادی کی ایک پوری غزل اسی حوالے سے ہے ، وہ آدمی کو مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ تم محنت کرو صلہ خدا دے گا اور تم چراغ جلاؤ اور اس کے بجھنے کیلئے ہوا کا خوف نہ کرو کہ یہ معاملہ ہوا اور خدا کا ہے ۔ اسی طرح وہ چمن کے مالی کو کہتا ہے کہ خزاں کے خوف سے بزدل نہ بنو ، تم چمن آباد کرو ، باقی معاملہ بادِ صبا جانے اور خدا جانے ۔ شاکر شجاع آبادی یہاں تک کہتا ہے کہ آدمی کا کام مانگنا ہے اور دعا کی صورت میں التجا کرنا ہے ، یہ دعا قبول ہوتی ہے یا نہیں ، یہ دعا اور خدا کا معاملہ ہے ، مگر تم دعا مانگتے رہو ، آج جب کرونا وائرس کے لئے ہم دعائیں کر رہے ہیں تو دعا کرنا ہمارا کام ہے باقی معاملہ اللہ کا ہے۔ شاکرشجاع آبادی کے اشعار دیکھئے : توں محنت کر تے محنت دا صلہ جانے خدا جانے توں ڈٖیوا بال تے رکھ چا ہوا جانے خدا جانے خزاں دا خوف تاں مالی کوں بزدل کر نہیں سگدا چمن آباد رکھ بادِ صبا جانے خدا جانے مریض عشق خود کوں کر دوا دلدی سمجھ دلبر مرض جانے ،دوا جانے ،شفا جانے، خدا جانے اے پوری تھیوے نہ تھیوے مگر بیکار نی ویندی دعا شاکر ؔتوں منگی رکھ دعا جانے خدا جانے