میڈیا وار اور پراپیگنڈا ایک ایسا ذریعہ اور ہتھیار ہے کہ جسکی مدد سے کسی بھی جنگ میں ممالک اور ریاستیں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتی ہیں۔ انسان انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر پراپیگنڈا اور میڈیا وار سے باآسانی متاثر ہوتا ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے، بالکل ٹھیک بات ہے۔ انسان احسن تقویم پر پیدا کیا گیا ہے، کوئی بھی اس سے انکاری نہیں ہے۔ انسان کو اچھائی اور برائی دونوں سے آگاہی دے دی گئی ہے، بالکل بجا اور برحق ہے۔ انسان کے سامنے صراطِ مستقیم اور اسفل السافلین کے راستے آشکار کر دیئے گئے ہیں، یہ بھی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے۔ ان تمام حقائق، اسباب اور سچائیوں کے باوجود اللہ پاک نے انسان کی تخلیق میں ایک پیدائشی خامی ایسی رکھی ہے کہ وہ اپنے خاندان، معاشرے اور ماحول میں اپنے جیسے انسانوں اور انسانوں کے بنائے ہوئے اداروں اور گروہوں کے زبانی، کلامی اور عملی اقدام اور اظہار سے بہت جلد متاثر ہوتا ہے۔ تاریخِ انسانیت کے صفحات کی اکھاڑ پچھاڑ کر کے دیکھ لیںتو آپ کو آگاہی حاصل ہو گی کہ مختلف اقوامِ عالم نے پراپیگنڈا اور میڈیا وار کے ذریعے سے مختلف قسم کی ہاری ہوئی مہمات اور جنگیں جیتی بھی ہیں اور جیتی ہوئی جنگوں کو ہارا بھی ہے۔ کامیابی کے زینے طے کرتی ہوئی مہمات کو ناکامی میں تبدیل ہوتے ہوئے بھی دیکھا گیا اور کامیاب پراپیگنڈا اور میڈیا وار کے ذریعے نامرادی سے لبریز مہم اور جدوجہد اچانک کامیاب و کامران ہوتے ہوئے بھی دیکھی گئی۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں کہلایا جانے والا ''پراپیگنڈا'' آج اکیسویں صدی میں ''میڈیا وار'' کہلاتا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد کہ جب پوری دنیا مختلف ممالک اور ریاستوں میں تقسیم ہو چکی ہے، اب اقوامِ عالم پراپیگنڈا اور میڈیا وار کو مخالف ملک اور عوام کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی عوام کے ایمان، اعتقاد اور ایقان کو اپنی ملکی، ریاستی اور قومی پالیسیز پر برقرار رکھنے اور انہیں قومی وریاستی پالیسیزکے مطابق چلانے اور گامزن رکھنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اکیسویں صدی میںممالک اور ریاستیں اپنی عوام میں مختلف جنگوں اور مہم جوئی والے حالات میں صبر، حوصلہ، تدبر، برداشت، ایثار اور قربانی کی کیفیات پیدا کرنے اور عوام کاحکومتی اقدامات پر اعتماد بحال رکھنے کے لیے پراپیگنڈا اور میڈیا وار کا سہارا لیتی ہیں۔ اکیسویں صدی میں آج پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل تینوں قسم کے میڈیا پراپیگنڈا وارکے بہترین ذرائع ہیں۔ آج پوری دنیا میں کرونا وائرس کی جنگ ملکوں اور ریاستوں کی سرحدوں پر نہیں بلکہ ان کی گلیوں، محلوں، قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میں لڑی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں ہر ملک کی حکومت اپنی پوری کوشش اور توانائی کے ساتھ اپنے ملک کی عوام کو افواہوں، مایوسیوں اور آہوں و یاس سے بچانے کے لیے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہے۔ پاکستان دنیا میں جغرافیائی حوالے سے انتہائی اہم حیثیت اور مقام رکھتا ہے۔ گوادر پورٹ سے لیکر سی پیک تک کئی ایسے مادی و معاشی عوامل اور حقائق ہیں کہ جسکی وجہ سے پاکستان بہت سے علاقائی اور عالمی ممالک کی ہٹ لسٹ پر ہے۔ اپنی اہم جغرافیائی حیثیت کے ساتھ باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان معاشی اور اقتصادی طور پر ایک مستحکم ملک نہیں ہے جسکی وجہ سے پاکستان کو کئی داخلی اور خارجی معاشی، اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی چیلنجز کا سامنارہتا ہے۔ان حالات کے اندر میں یقین رکھتا ہوں کہ پاکستان کرونا وائرس کے خلاف جنگ، جدوجہد اور مہم میں کسی قسم کی غیر ذمہ دارانہ سیاست، صحافت اور اندرونی میڈیا وا ر اورپراپیگنڈا وار کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ مجھے کچھ دن پہلے پاکستان کے ایک انتہائی لیڈنگ اور ذمہ دار میڈیا گروپ کے مالک کا فون آیا اور انہوں نے مجھے پوچھا کہ چوہان صاحب سنا ہے آپ کے شہر راولپنڈی میں کرونا وائرس کے 15 سو سے زائد مریض نکل آئے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے تو فرمانے لگے کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر چل رہی ہے۔ میں چونکہ پچھلے ایک ماہ سے لاہور میں کرونا وائرس کے خلاف پنجاب حکومت کے فرنٹ فٹ کے کھلاڑی کی حیثیت سے جنگ لڑنے میں مصروف ہوں اور اپنے آبائی حلقے راولپنڈی نہیں جا پارہا۔ تو میں نے فوراً ڈپٹی کمشنر راولپنڈی کو فون کیا اور اُن سے اس بارے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ اُس وقت کی رپورٹ کے مطابق پورے ضلع راولپنڈی میں کرونا وائرس کے صرف گیارہ مریض سامنے آئے تھے۔پاکستان میں منفی اور زہریلے پراپیگنڈا وار کی ایک مثال حال ہی میں دیکھنے کو ملی۔ ہوا کچھ یوں کہ دو دن پہلے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل میں ایدھی فاؤنڈیشن کے فیصل ایدھی کے حوالے سے ایک خبر بار بار براڈکاسٹ کی گئی جس میں فیصل ایدھی سے یہ موقف منسوب کیا گیا کہ پنجاب میں کرونا وائرس کے باعث روزانہ چھ سے سات ہلاکتیں ہو رہی ہیں اورپنجاب حکومت دانستہ یہ حقائق عوام سے چھپا رہی ہے۔ میں نے فوراً فیصل ایدھی سے رابطہ کیا اور متعلقہ ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو اور خصوصاًپنجاب میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں سے متعلق نشر ہونے والے ان کے موقف بارے استفسار کیا تو فیصل ایدھی نے ایسے کسی بھی بیان سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کیا۔ فیصل ایدھی نے مجھے بتایا کہ انہوں نے تو پھیپھڑوں کے مرض کے حوالے سے روزانہ 6, 7 مشکوک کیسز سامنے آنے اور اس وجہ سے ہونے والی اموات کی بات کی تھی۔ لیکن جب تک یہ وضاحت سامنے آئی، تب تک عوام میں کرونا وائرس کے حوالے سے سراسیمگی پھیل چکی تھی۔ میرے خیال میںیہ منفی میڈیا وار اور زہریلے پراپیگنڈا وار کی یہ بدترین مثال ہے۔بلاشبہ اس وقت پاکستان کا 99.99 فیصد میڈیا کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں مثبت رویے کا حامل ہے لیکن میڈیا میں موجود 0.001 فیصد کچھ فیکٹر، ایکٹر اور کیریکٹر اس موقع پر بھی اپنے ذاتی مفادات کوقومی مفادات پر مقدم رکھتے ہوئے حکومت کے خلاف زہریلے پراپیگنڈاوار میں ملوث ہیں جو کہ قابلِ مذمت ہے۔ اسی طرح جھوٹ، فریب اور فراڈ پر مبنی پراپیگنڈا اور اس کے نتیجے میں480 افراد کی ہلاکت کی تازہ ترین مثال ایران میںبھی دیکھنے میں آئی۔ ایران میں سوشل میڈیا پر کسی نے یہ خبر پھیلا دی کہ فلاں قسم کا کیمیکل پی لینے سے انسان کرونا وائرس کا شکار نہیں ہوتا۔ اس جھوٹ اور فریب پر مبنی انسان کش خبر پڑھنے کے بعد ایران کے ایک گائوں میں بہت سے سادہ لوح دیہاتیوں نے یہ کیمیکل پی لیا جسکی وجہ سے 480 معصوم افراد اپنی جانیں گنوا بیٹھے۔اس طرح کی بے تحاشا بوگس، بے بنیاد سیاسی اور معاشرتی خوف و ہراس پر مبنی خبریں سوشل میڈیا پر آپ کو نظر آئیں گی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایک باوقار قوم ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کی 22 کروڑ عوام کو سوشل میڈیا پر مثبت میڈیا وار اور پراپیگنڈاکی جنگ لڑنی ہے نہ کہ منفی۔مجھے بحیثیت وزیرِ اطلاعات پنجاب یہ بات کہنے اور لکھنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ پاکستان کے تمام پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا گروپس کے مالکان، بیورو چیف، نیوز ایڈیٹرز، رپورٹرز اور کیمرہ مینوں نے ریاست کا ذمہ دار ستون ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ خصوصاً میڈیا گروپس کے مالکان کا رویہ پیشہ ورانہ صحافت اور جذبہ حُب الوطنی سے سرشار ہے۔ کرونا وائرس کے خلاف جنگ میںوفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتوں کی جانب سے بتائی جانے والی تمام معاشی اور انتظامی پالیسیوں کو میڈیا گروپس کے مالکان بڑے احسن انداز سے اپنے اپنے ٹی وی چینلز اور اخبارات میں پیش کر رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں آج پاکستان کا میڈیا واقعتا اس عزم کے ساتھ پاکستان کا جھنڈا ہاتھ میں لے کرمیدانِ عمل میں ہے کہ ہم نے پراپیگنڈا وائرس کا شکار ہوئے بغیر پورے جذبہ حب الوطنی اور پیشہ ورانہ وقار کے ساتھ کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کرنی ہے۔ آج پاکستان کے میڈیا گروپس کے مالکان، بیورو چیف، نیوز ایڈیٹرز، رپورٹرز اور کیمرہ مین اپنے دل میں ایک ہی جذبہ جاںگزین کیے ہوئے ہیں کہ : تو سلامت وطن تا قیامت وطن اے خدا کے وطن اے جناح کے وطن