کرونا کے مظہر دنیا بھر میں دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یورپ کے بعض ملکوں میں تو قیامت کا خوف ہے ‘امریکہ میں افراتفری۔ ہر ملک کرونا سے نمٹنے کے لئے کچھ نہ کچھ بلکہ بہت کچھ کر رہا ہے۔ سوائے پاکستان کے یہاں ’’عالمی چندے‘‘ سے حصہ لینے کے لئے لاک ڈائون کا کھڑاک تو خوب کیا گیا لیکن بندوبست ذرا برابر بھی نہیں۔ وفاق بے پروا ہے‘ پنجاب برابر مست‘ کسی ہسپتال جا کر دیکھ لیجیے‘ چار میں سے محض سندھ ایک صوبہ ہے جس نے آئسولیشن کیمپ بنائے۔ وفاق نے تو حد کر دی۔ ایئر پورٹس سے ہزاروں مشتبہ افراد بنا چیکنگ کے جاتے رہے جو ملک بھر میں پھیل گئے۔ یہاں نمٹنے کے لئے حکومت نے بس ایک بیان دے دیا کہ گھبرانا نہیں۔چین والے جانوروں پر غصہ نکال رہے ہیں۔ سائنس دانوں نے کہہ دیا‘ کرونا جانوروں نے نہیں پھیلایا‘ پھر بھی ملک بھر میں لاکھوں کتے اور بلیاں قتل کی جا رہی ہیں۔ بہت سے جانور موقع پر مار دیے جاتے ہیں بہت سے ٹرکوں میں بھر کر باہر گڑھے کھود کر زندہ دفا دیے جاتے ہیں۔ کچھ جنگلی جانوروں کے کھانے پر پابندی لگ گئی ہے لیکن بلیوں اور کتوں کے ’’فوڈ بازار‘‘ بدستور سجے ہیں۔ نیا فیشن یہ مقبول ہوا ہے کہ بلی یا کتے کو باندھ کر دو ٹانگیں بڑی قینچی سے کاٹ کر وہیں بھون لی جاتی ہیں اور کھا لی جاتی ہیں اور اس دوران جانور زندہ ہوتا ہے۔ پھر اس تڑپتے ہوئے بدقسمتی جانور کی باقی دو ٹانگیں بھی کاٹ لی جاتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ادھر بھارت میں بی جے پی نے کرونا سے مقابلے کے لئے گئو موتر پینے کی تحریک چلا دی ہے۔ یہ کہاں سے پتہ چلا کہ اس سے کرونا کا علاج ہو جائے گا۔ بہتر ہوتا کہ بی جے پی کے نیتا لوگ پہلے خود کو کرونا وائرس لگواتے‘ پھر گئو موتر سرعام پی کر بتاتے کہ یہ دیکھو ہم ٹھیک ہو گئے۔ لیکن ایسا تو ہوا ہی نہیں۔ماضی میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس سی کے پھیلائو پر بھی ایسی مہم چلی تھی لیکن ایک بھی مریض ٹھیک نہیں ہوا۔ گائے کے پیشاب اور گوبر کے بلا شبہ طبی فائدے ہیں روز ایسے ہی بعض دیگر جانوروں کے مثلاً عرب لوگ پرانے زمانے میں اونٹ اور گدھے کا پیشاب بعض بیماریوں میں پلاتے تھے لیکن کوئی بھی شے ہو‘ اس کا طبی فائدہ محدود اور متعین ہی ہوا کرتا ہے۔گائے کا پیشاب اور گوبر، وبائوں کا علاج ہوتا تو بھارت میں کروڑوں لوگ‘ ماضی میں ‘ہیضے‘ طاعون اور چیچک کی وبائوں سے نہ مرتے کہ ماضی میں تو اکثر گھروں میں گائے بھی ہوتی تھی‘ گئو موتر بھی اور گوبر بھی۔ ٭٭٭٭٭ گائے کی بھارت میں بہت اہمیت ہے۔ اس کا دودھ طبی طور پر کیمیا ہے‘ گوبر بھی جراثیم کش۔ قدیمی طب آیورویدک‘ تو کھڑی ہی اس کے پیشاب کے سہارے ہیں۔ اس کے اکثر نسخوں میں دوائوں کو گائے کے پیشاب سے ’’شدھ‘‘ کیا جاتا ہے۔ گوکل سے لے کر شنگرف تک‘ ہربل سے سونا ماکھی ، نمک ہر شے گئو موتر سے پہلے شدھ ہوتی ہے‘ کچھ نسخے میں ڈالی جاتی ہے۔ طب یونانی کے فارما کوپیامیں بھی بہت سے آیوریدک نسخے شامل ہیں لیکن حکیم حضرات گئو موتر کے بجائے ان دوائوں کو گائے کے دودھ سے شدھ(مدبر) کیا کرتے ہیں۔ اب تو آیوریدک پاکستان میں ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ اس کے قاعدے اتنے مشکل ہیں کہ فی زمانہ ان پر عمل ناممکن سا ہو چکا ہے۔ کسی نسخے کی سو دوائیں ہیں۔ سبھی پنسار سے نہیں خریدنی‘ بہت سی جنگل میں جا کر تازی توڑنے کا حکم ہے۔ اور تازی توڑنے کی بھی شرطیں ہیں۔ فلاں کو پورنماشی کی رات، فلاں کو صبح دم توڑو۔ پھر سائے میں خشک کرو۔ فلاں کا سفوف بنائو‘ فلاں کا عرق نکالو‘ فلاں کا پتال جنترسے تیل نکالو۔ فلاں کا جوہر اڑائو۔ فلاں کو فلانی لکڑی کی آگ چالیس دن دے کر کشتہ کرو۔اتنے جتن سے دوا بنتی ہے پھر شدھ کرنے کا معاملہ بھارت سے سمگل ہو کر ہمارے ہاں بعض ہاضمے(بلکہ ہاجمے) کی گولیاں آتی ہیں اور بہت مقبول ہیں۔ ان کے اکثر اجزا گائے کے پیشاب میں شدھ کئے جاتے ہیں۔ شاید اسی لئے اتنے ’’مزے‘‘ کی ہوتی ہیں کہ احباب چسکہ لیتے نہیں تھکتے۔ ٭٭٭٭٭ بھارت میں ’’گئو ماتا‘‘ کا حال کیا ہے؟ نظر بظاہر بہت اچھا، کھلے میں گھومتی ہیں۔ کوئی کچھ نہیں کہتا‘ بہت مزے میں ہیں۔لیکن یہ نظر بظاہر ہے‘ دیواروں کے پیچھے بہت دردناک حال ہے۔ کلیجہ ہلا دینے والا، ڈیری کی گائیں جب دودھ دینے کے قابل نہیں رہتیں تو ٹینری والوں کو دے دی جاتی ہیں۔جہاں باری آنے پر ان کی کھال اتارلی جاتی ہے۔ باری چاہیے مہینے بعد آئے‘ اسے اس دوران کھانے کو ایک دانہ پینے کو ایک قطرہ بھی نہیں دیا جاتا۔ بھلے سے بھوکوں مر جائے۔ کھال ہی تو اتارنی ہے‘ کون سا دودھ نکالنا ہے۔ ان کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ‘ کئی کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی‘ زخمی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ انہیں بھوکا مارنے‘ ذبح کرنے‘ کھال اتارنے چمڑا بنانے اور ایکسپورٹ کرنے والے سبھی ہندو ہیں۔مسلمان ایک بھی نہیں۔ مسلمان تو اب گائے پالنے سے بھی گیا۔ کروڑوں گائیں اسی طرح ماری جاتی ہیں اور بی جے پی ان پر ایک لفظ بھی نہیں بولتی۔گائیں روتی ہیں۔ یہ فقرہ شاید کچھ لوگوں کے لئے حیرت کا باعث ہو سبھی جانور روتے ہیں جب انہیں بہت زیادہ دکھ پہنچایا جاتا ہے۔ بوچڑ خانوں میں جا کر اکٹھے ‘ جانور‘ کو ان کی چھٹی حس بتا دیتی ہے کہ اب انہیں مار دیا جائے گا چنانچہ ان کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو بہتے ہیں۔ کوئی بھی جا کر دیکھ سکتا ہے۔کل ہی ایک ویڈیو ملی۔ کسی محلے میں ایک ڈری سہی بلی رہتی تھی۔ ہر کوئی اسے مارتا یا جھڑکتا تھا۔ کھانے کو بہت کم ملتا تھا اور پچھلے چند دنوں سے تو بالکل ہی بھوکی تھی۔ کسی نیک دل آدمی کی نظر اس پر پڑی۔ اٹھا کر گھر لے آیا‘ پیار کیا اور پیالہ بھر کے کھانے کو دیا۔بلی بے یقینی کے عالم میں تھی۔ جھڑکیاں سہنے کی عادی کو پیار کیا گیا تو یقین نہیں آیا۔ پھر پیالے میں کھانے لگی اور آنسو اس کی آنکھوں سے زارو قطار بہنے لگے۔ زندگی میں پہلی بار کسی نے اس کیساتھ بھی پیار کیا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اسے اچھا کھانا ملا تھا اور وہ بھی پیالہ بھر کے۔ آنسو رک نہ سکے‘ بہہ نکلے۔