سوشل میڈیا کی پوسٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ احباب لاک ڈائون کا وقت نت نئے پکوان پکانے، ان کی تصاویر لینے اور پھر ان کو سوشل میڈیا پر تشہیر کرنے کی مصروفیت میں گزار رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے 3کروڑ غریبوں کے گھروں پر فاقوں کے زر دسائے لہرا رہے ہوں، اس قسم کے مرغ مسلم، بریانی اورقورموں کی سوشل میڈیا پر تشہیر مجھے تو بے حسی کی دلیل لگتی ہے۔ کل ایک شاعرہ دوست کا بھی فون آیا تو کہنے لگی کہ اور سنائو کیا حال ہے، تم کوئی کھانے وانے نہیں بنا رہی۔ آج کل تو ٹرینڈ بنا ہوا ہے تصاویر شیئر کرنے کا۔ بات یہ ہے کہ اس مشکل دور میں، اگر صرف احساس کی دولت ہی ہمارے پاس ہو، تو ہم اس بحران سے مل جل کر بہتر طور پر نبرد آزما ہو سکتے ہیں۔ ہم تو خوش قسمت ہیں کہ ہمارے لیے لاک ڈائون بھی کسی تفریح سے کم نہیں۔ فیملی گیٹ ٹو گیدر ہے۔ تین وقت بہترین کھانے سے پیٹ بھر سکتے ہیں۔ بس اتنا احساس ضروری ہے کہ ان نعمتوں کے شکرانے کے طور پر کسی مستحق سفید پوش، ضرورت مند کی مالی مدد ضرور کر دی جائے۔ پیسوں کی صورت میں یا پھر بنیادی ضرورتوں پر مشتمل راشن کی صورت میں۔ آپ کے غریب رشتہ دار…کام کرنے والی، مددگار میڈز اس کے پہلے حق دار ہیں لیکن اس میں بھی یہ دیکھیں کہ وہ افراد جن کا اس لاک ڈائون میں سلسلہ روزگار بند ہو چکا ہے، ان کی مدد پہلے کریں۔ بس اس مشکل وقت میں اپنے دلوں میں احساس کے دیئے کو بجھنے نہ دیں۔ وزیر اعظم پاکستان ملک کے غریبوں کے لیے بڑے پیکیج کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ فیصلہ دیر سے ہوا اور اب بھی اس فیصلے کو عملی شکل میں ڈھالنے کے لیے کام بہت آہستگی سے ہو رہا ہے۔ کرونا ٹائیگرز فورس کی رجسٹریشن کا کام بقول سرکار کے 10اپریل تک مکمل ہو گا۔ یعنی کہ ’’خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک!‘‘ وزیر اعظم بھلے ہر خطاب میں بار بار یہ فرماتے ہیں کہ لاک ڈائون کا اعلان اس لیے نہیںکیا کہ غریب مشکل میں آ جاتے، لیکن اس سے زمینی حقائق بھی بدل جائیں گے؟ حقیقت یہ ہے کہ ڈیڑھ ہفتے سے ملک میں لاک ڈائون ، دیہاڑی دار گھروں میں قید ہیں، مزدوروں کو کام نہیں مل رہا ہے کیونکہ عملاً کاروبار زندگی بند ہے۔ کوئی غریب گھبرا کر باہر نکلے کسی کام کی تلاش میں تو پولیس اسے باقاعدہ ڈنڈے لگاتی ہے اور بازار بند ہیں، دکانوں کو تالے لگے ہیں، گھروں میں کام کرنے والی ہیلپرز تک کو چھٹی دے دی گئی ہے اور کیا ہوتا ہے لاک ڈائون؟ سرکار وضاحت فرما دے! اس لاک ڈائون میں روز کما کر روز کھانے والوں کے لیے ہر نیا دن، سوالات کے ساتھ طلوع ہوتا ہے کہ آج کا دن پیٹ کا دوزخ کیسے بھرنا ہے۔ کچھ لوگوں نے اپنے تئیں راشن دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے جو نہایت قابل ستائش ہے۔ الحمداللہ ہم نے اپنا حصہ بھی ڈالا ہے اور وسیلے بنانے والے رب سے اور توفیق کے خواہاں ہیں لیکن یہ سارا کام بہت محدود پیمانے پر، کسی باقاعدہ نیٹ ورکنگ کے بغیر ہو رہا ہے جبکہ سرکار بھی ابھی اعلانات تک محدود ہے۔ کرونا کے اس بڑے نازک بحرانی مرحلے پر، جس نے بھی کرونا ٹائیگر فورس کا نام تجویز کیا ہے۔ اس نے اس قوم کے ساتھ ظلم ہی کیا ہے۔ کوئی ایسا نام رکھا جائے جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے نوجوان ورکرز آسانی سے شریک ہو سکیں اور اس پر کسی سیاسی جماعت کا دھبہ نہ لگا ہو۔ مشکل کی اس گھڑی میں اعلیٰ ظرف ہونے اور دلوں کو فیاض رکھنے کی ضرورت ہے۔ باقی سیاسی جماعتیں بھی اپنے رویوں کو اعلیٰ ظرف بنائیں۔ ’’کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا‘‘… بس یہی کریں کہ ’’سیاست کا عمومی چلن‘‘ چھوڑ دیں۔ تنقید برائے تنقید نہ کریں۔ سرکار کو بھی چاہیے۔ اپوزیشن کی طرف سے آنے والی اچھی تجاویز کو سیاسی مخالفوں کی تجاویز کہہ کر رد نہ کرے۔ گزشتہ روز مارچ کا آخری دن تھا۔ کبھی مارچ کیسا پربہار ہوا کرتا تھا اور اس بار۔زندگی کی تصویر بھی بدلی ہوئی ہے۔ مارچ کے آخری دنوں میں، برقی ڈاک سے آنے والا ایک خط ہمیں یاد دلاتا ہے کہ پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکی ایجنسیوں نے 30مارچ 2003ء کو کراچی سے تین بچوں کے ہمراہ اغوا کیا تھا۔ امریکہ کی قید میں عافیہ کو 30مارچ 2020ء میں پورے سترہ برس ہو گئے ہیں۔ اس دنیا میں ظلم کے جتنے رنگ ہیں سب میں امریکہ کا کردار نمایاں ہے۔ امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86برس کی قید سنائی اور وہ کم نصیب اپنی زندگی کے دن ہوسٹن کے ایک جیل خانے میں کاٹ رہی ہے۔ سترہ برس کی اس جدائی اور قید میں عافیہ پر کیا گزری اور اس کے پیچھے اس کے پیاروں پر کیا گزری۔ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ اس وقت کرونا وائرس ایک عذاب کی طرح امریکہ پر مسلط ہے۔ عالمی طاقت کی تمام ٹیکنالوجی اور وسائل اس نادیدہ دشمن کے سامنے ڈھیر ہو چکے ہیں۔ امریکیوں کو خدا یاد آنے لگا ہے۔ پوپ فرانسس نے تنبیہہ کی ہے کہ وبا کو روکنا ہے تو دنیا سے ظلم ختم کرنا ہو گا۔ جنگ بند کرنا ہو گی۔ ڈولی پارٹن، امریکی گلوکارہ اپنے گانے میں خدا کو ڈھونڈ رہی ہے۔ وہ خدا سے مخاطب ہے…! This world has gone to pieces can we fix it, is there time? Hate violence,Just increases We are so selfish, cruel and blind we fight and kill each other we are so lost and confused Hello God, are you there? ہیلو گاڈ، ہیلو گاڈ!