سیانے کہتے ہیں گھر بیٹھے ہوئے شاعر اور شوہر دونوں بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ دونوں کا دماغ یا تو چل جاتا ہے یا پینسٹھ کلومیٹر کی رفتار سے چل پڑتا ہے۔ اس بات کے واضح ثبوت گزشتہ دو ہفتوں سے ان ہر دو طرح حضرات کے ارشادات و فرمودات سے لبالب سوشل میڈیا ہے۔ سماجی تنہائی، شخصی گوشہ نشینی یا سوشل ڈسٹنس کے حوالے سے نئے سے نئے موضوعات کا ایسا پنڈورا بکس کھلا ہے کہ بند ہونے میں نہیں آتا۔ تحقیق میں دانش و بینش کے ایسے ایسے در وا کیے جا رہے ہیں کہ بڑے بڑے محقق و مولف و نکتہ داں سن لیں تو سر پکڑ کے بیٹھ جائیں یا ویسے ہی گھر بیٹھ جائیں، جیسے یہ حضرات بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ چیزوں کا مذاق اڑانا اور ہوتا ہے، ان سے لطف لینا، لطف فراہم کرنا یا مشکل وقت کو ہنس کھیل کے گزارنا ایک بالکل ہی مختلف امر ہے۔ ہمارا تو یہ بھی ایمان ہے کہ دین بھی اپنی اصل روح کے ساتھی مردہ دلی سے نہیں، زندہ دلی سے سمجھ میں آتا ہے۔ ایسے میں ’’ تجھے اٹھکیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں‘‘ قسم کے بزرگان، ناصحین اور واعظین سے ہمیں کچھ نہیں کہنا کہ ہمارے منھ پھٹ قسم کے شاعر پہلے ہی بہت کچھ کہہ چکے ہیں۔ اور تو اور مولانا حالی جیسے پابندِ صوم و صلوٰۃ و شرع تک فرما گئے ہیں کہ: واعظو! آتشِ دوزخ سے جہاں کو تم نے وہ ڈرایا ہے کہ خود بن گئے ڈر کی صورت ہم سمجھتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں کہ ایسے مشکل حالات میں کسی نرالی منطق،نکتہ طرازی، دُرفنطنی یا انوکھی بات سے دوسروں کو حظ پہنچانا،خوش کرنا اورہنسانا تو باقاعدہ حسنات میں آتا ہے۔ افسوس ہم نے بذلہ سنجی کی ادا کو ترک کر کے ’’بدلہ سنجی‘‘ کا کلچر اپنا لیا ہے، حالانکہ سچے مومن کی تو سب سے بڑی نشانی ہی یہی بتائی گئی ہے کہ ’’چوں مرگ آید، تبسم بر لبِ اُوست‘‘۔ شاعروں کا تذکرہ تو ہم کسی اور دن کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔فی الحال گھروں میں مقید یا محصور شوہروںکی مزے مزے کی موشگافیوں پہ ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے مزے کی بات ہمارے دوست اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے پروفیسر ڈاکٹر شہزاد بسرا (مورنگا فیم) نے کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جو بندہ گھر میں اکیلا بیٹھا اپنی ہی کمپنی سے بور ہو رہا ہے، وہ سوچے کہ وہ آج تک کتنے لوگوں کو کیسے کیسے بور کرتا رہا ہے؟…فیصل آباد ہی سے ایک اور محترمہ ، جو پی ایچ۔ ڈی کی سکالر بھی ہیں، نے ہمارے علم میں اضافہ کیا ہے کہ پوری تحقیق کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ بجلی جانے کے بعد چھت والا پنکھا ایک منٹ اور تینتالیس سیکنڈ کے بعد رکتا ہے، ساتھ انھوں نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ یہ معلومات محض خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت فراہم کی جا رہی ہیں، اس میں شکریہ ادا کرنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں … ایسے ہی ایک باریک بیں محقق نے یہ فرمایا ہے کہ نوٹ کر لیں: لیز کے پچاس روپے والے ایک پیکٹ میں نو بڑے، اکیس درمیانے اور چودہ چھوٹے چپس ہوتے ہیں، پور چور اس کے علاوہ ہوتا ہے، چپس کا پیکٹ نہ ہوا، پاکستانی سوسائٹی ہو گئی۔ سچ پوچھیں توہمیں بھی ایسے ہی خیرخواہ برادران کی عرق ریزی سے معلوم ہوا ہے کہ نیسلے کی بڑی بوتل میں پینسٹھ گلاس پانی اور گھروں میں صدیوں سے دی جانے والی جھاڑو میں تین سو اکیس تِیلے ہوتے ہیں اور یہ کہ آٹے والی چھلنی میں چھے سو پچیس سوراخ اور ایک کلو لوبیہ میں سترہ سو چھبیس دانے ہوتے ہیں… ایک صاحب کے دل میں تو اس خدشے نے بھی سر اٹھایا ہے کہ بار بار ہاتھ دھو کے کہیں ہاتھوں سے دوسری شادی کی لکیر ہی نہ مٹ جائے!! ایک بی بی نے فیس بک پوسٹ کے ذریعے وارننگ دی ہے کہ آج صبح سے مجھے وقفے وقفے سے چھینکیں آ رہی ہیں، اگر کوئی مجھے یاد کر رہا ہے تو خدا کے لیے کچھ دن انتظار کر لے!!! میرے ایک انوکھے بھائی نے تو اس بات کی بھی اجازت مانگی ہے کہ کئی دن سے ہاتھ تو اچھی طرح دھو لیے ہیں ،اب بتائیں کہ پیچھے کس کے پڑنا ہے؟ ایک شریر صحافی نے ہمارے قومی مزاج کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ خبر بریک کی ہے کہ: ’’ بنوں میں اٹلی سے آئے دو افراد کا کرونا ٹسٹ نیگیٹو آنے پر گھر والوں کی خوشی سے فائرنگ… چار افراد جاں بحق،سات کی حالت تشویش ناک۔‘‘ایک محترمہ نے برملا کہا ہے کہ کیا ہوا جو روس والوں نے گلیوں میں شیر چھوڑ دیے ہیں، پاکستان کے ہر گھرانے میں تو پہلے ہی سے ایک عدد شیرنی موجود ہے۔ شاید انہی محترمہ کے شوہر نے التماس بھیجی ہے کہ براہِ کرم مجبور اور محصور شوہروں پر ہاتھ ہولا رکھا جائے!!! پھر اپنے حکیم جی نے محکمہ بہبودِ آبادی والوں کی جانب سے نئے شادی شدہ جوڑوں سے کی گئی اس گزارش کی طرف خصوصی توجہ مبذول کرائی ہے کہ: ’’لاک ڈاؤن میں ایک بات کبھی نہ بھولیں کہ پاکستان پہلے ہی آبادی کے مسائل سے دوچار ہے۔‘‘ اس سلسلے کا خوش کُن امر یہی ہے کہ ہر شخص نے اس فراغت، تنہائی یا مجبوری میں واویلا کرنے یا اس کو سر پر سوار کرنے کے بجائے ،اس کا کوئی نہ کوئی مثبت پہلو تلاش کر لیا ہے۔ ہمارا ایک فلاسفر نما دوست اس بات پہ پھولا نہیں سما رہا کہ پہلے اسے گھر میں فارغ بیٹھنے پر نکما اور نکھٹو ہونے کے طعنے سننا پڑتے تھے، اب سب گھر والے اس کی سمجھ داری اور معاملہ فہمی کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے۔ اور تو اور ہمارے محلے کا ایک عادی سگریٹ نوش، دوسرے چین سموکر سے خوشگوار موڈ میں کہہ رہا تھا کہ یار کرونا کا یہ فائدہ تو ہوا کہ اب کوئی خواہ مخواہ کا شوقین، جلتا ہوا سگریٹ دیکھ کے یہ نہیں کہتا: ’ ’پائن اک سُوٹا تے لوانا!!‘‘ کسی دل جلے نے تو لاک ڈاؤن ،دفعہ ۱۴۴ اور جگہ جگہ پولیس اور فوج کی موجودگی کے باوجود قانون کی دھڑا دھڑ کی جانے والی خلاف ورزیوں کو دیکھتے ہوئے یہ پوسٹ بھی لگائی ہے:’’ ہم ایسی قوم ہیں کہ وطنِ عزیز میں گھر سے نکلنے پر گولی مارنے کا اعلان بھی ہو جائے تو بہت سے من چلے محض یہ دیکھنے کے لیے گلیوں بازاروں میں نکلیں گے کہ گولی کھڑے کر کے مار رہے ہیں، یا لٹا کے؟… پستول سے مار رہے ہیں یا بندوق سے؟ … سر میں مار رہے ہیں کہ سینے پہ؟ … گولی چلنے کی آواز آتی ہے یا سلنسر لگایا ہوا ہے؟ … اور یہ کہ… مار بھی رہے ہیں یا اینویں گلّاں ای بنیاں نیں!!!! آج کی آخری بات یہ کہ موجودہ صورتِ حال کا سبب ہمارے اعمال ہیں یا عدمِ احتیاط… آپ سے التماس ہے کہ گھر میں موجود خواتین پر پڑنے والے کام کے بوجھ کا خیال کریں، حکومت اور محکمہ صحت کی ہدایات پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوں، موجودہ حالات میں بھی اپنے مفادات کا کھیل کھیلنے والے سیاست دانوں اور صحافیوں کو سمجھیں اور اللہ کے حضور گِڑگِڑا کر دعا کریں اور اس شعر کو انجوائے کریں: ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا اِک شخص تِرے پاس نہ ہونے سے مرے گا