خدائے عزو جل ہ میں تمام زمینی، آسمانی، وبائی، فضائی بیمارےوں ، آزارےوں سے ہمیشہ اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔ اس انوکھے اور ہنگامی سے وائرس نے کس طرح دنےا بھر کے بڑے بڑے ممالک کو ہلا کے رکھ دےا ہے ۔ بڑی بڑی قوموں کا ناک میں دم کر دیا ہے ۔ چین، ایران، اٹلی، برطانیہ، فرانس، امریکا جیسی طاقتیں دہل کے رہ گئی ہیں ۔ دنےا بھر میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے ۔ ہر طرف نام نہاد ترقی دھری کی دھری رہ گئی ہے ۔ ایسے میں کوئی کچھ بھی کہے، ہ میں تو قرآنِ پاک کی وہ آےات رہ رہ کے ےاد آ رہی ہیں ، جن میں حضرتِ انسان کو مخاطب کر کے تنبیہہ کی جا رہی ہے ۔ مفہوم کچھ یوں ہے کہ اے انسان! تم تو اس قابل بھی نہیں ہو کہ ایک مُٹھی مٹی کی بنا سکو، بلکہ تم میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے کہ ایک مچھر تمھارے کھانے میں سے ایک ذرہ اٹھا کے لے جائے تو اس سے واپس لے سکو ۔ پھر اس زمین پہ اکڑ اکڑ کے کیوں چلتے ہو;238; کیا اس زمین کو پھاڑ دو گے ےا آسمانوں کو گرا دو گے;238; اسی خدا کا فرمان ہے کہ جب حضرتِ انسان فطرت کے مقاصد کے درپے ہوتا ہے اور خدائی نظام میں ضرورت سے زیادہ دخل انداز ہونے لگتا ہے تو وہ کہیں طاعون، کہیں چیچک، کہیں ایڈز، کہیں پولیو، کہیں ٹی بی، کہیں ایبولا، کہیں ڈینگی اور کہیں کرونا جیسے عتاب کے ذریعے اسے اس کی اوقات ےاد دلانے کا بندوبست کرتا رہتا ہے ۔ خواتین و حضرات! اس معاملے میں میڈیکل سائنس جو بھی مرضی کہے، دنےا کے بڑے بڑے دماغ جتنی مرضی دور کی کوڑی لائیں ، زمانے بھر کی لیبارٹرےاں جیسی چاہیں تشخیص کریں ۔ سیانے لوگ اس کا تعلق چمگادڑ کے سوپ سے جوڑیں ، چوہوں کی چٹنی کو اس کا سبب قرار دیں ، بھانت بھانت کے حشرات الارض کو اس کا موجب ٹھہرائیں ، سرد موسموں پہ الزام دھریں ، صفائی ستھرائی کی کمی کا رونا روئیں ۔ اس بیماری کے رنگا رنگ اسباب گنوائیں ۔ تمام اقوام اخباروں ، اشتہاروں ، دیواروں پہ احتےاطی تدابیر کی نہ ختم ہونے والی فہرستیں شاءع کریں ۔ وید حکیم لیموں کی شکنجبین، ادرک کے پاوَڈر اور گرما گرم پانی کا استعمال بتائیں ۔ یار لوگ ہاتھوں پہ دستانوں ، جیب میں الکحل اسٹرلائزر، ناک اور منھ پہ قیمتی ماسک کے مشورے دیں ، لیکن ہ میں تو رہ رہ کے اکبر الہٰ آبادی ےاد آ رہے ہیں ، جنھوں نے آج سے کم و بیش ایک صدی قبل ہماری ایسی ہی احتےاطی تدابیر کے جواب میں فرماےا تھا: مصیبت میں بھی اب ےادِ خدا آتی نہیں ان کو دعا منھ سے نہ نکلی ، پاکٹوں سے عرضیاں نکلیں بہرحال اس مصیبت پر قابو پانے کے لیے دنےا بھر کے تمام ممالک کی کاوشیں قابلِ داد ہیں ۔ بارڈرز، ہوائی اڈے،سپورٹس ایونٹس اور سیاحتی دورے محدود کرنا بھی مناسب ہے ۔ خانہ کعبہ میں طواف کی سرگرمےوں کو محدود کرنے جیسے اقدامات بھی نہاےت اہم ہیں ۔ پھر ہماری حکومت نے بھی اگلے تین ہفتوں کے لیے تمام سکولز، کالجز اور سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کا حکم نامہ جاری کر دےا ہے ۔ تمام امتحانات منسوخ، تمام ٹیوشن سنٹرز بند، تمام مدارس، ہاسٹلز، میرج بینکوءٹ، مذہبی اجتماعات، ہر طرح کی تقریبات، جشنِ بہاراں کے میلے، نجی اور سرکاری فیسٹیولز، حتی کہ جیلو ں میں قیدےوں سے ہونے والی ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد کر دی ہے ۔ یہ تمام امور بر وقت اور نہاےت قابلِ تعریف ہیں ۔ موقع شناس پیروں فقیروں کا اپنے جنتر منتر میں اس وائرس کو شامل کرنا بھی ان کی حاضر دماغی اور کاروباری حِس کی بیداری کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ لیکن اس وقت ہم جس امر کی جانب آپ کی خصوصی توجہ مبذول کروانے جا رہے ہیں ، وہ کرونا وائرس سے متعلق ہمارے من چلوں کا شوخ و شریر رویہ ہے ۔ اس رویے کوچاہے بعض لوگ برا بھلا کہیں ۔ ثقہ لوگ سن کے ناک منھ چڑھائیں ۔ اللہ کے عذاب سے ڈرائیں لیکن ہ میں تو یہ اس ڈپریشن زدہ ماحول میں حواس بحال رکھنے کا یہ سب سے کارگر حربہ دکھائی دیتا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حسِ مزاح انسان کو بہت سے متفکرات سے صحیح سالم بچا لے جاتی ہے ۔ لطافت اور ظرافت کا مظاہرہ تو ہمارے پیغمبروں رسولوں نے بھی فرماےا ہے ۔ مشہور ہے کہ امریکےوں نے اپنے لطیفوں کے ذریعے روسی سوشلسٹوں کو ناکوں چنے چبوا دیے ۔ یہ تسلیم کر لینے میں تو کوئی باک نہیں کہ ہمارے مظلوم نظامِ صحت کو ہمارے ظالم اور لندن مزاج حکمرانوں نے اس قابل ہی نہیں بناےا کہ وہ کسی طرح کے ہنگامی حالات کا مقابلہ کر سکے ۔ رہی سہی کسر اس محکمے سے وابستہ کالی بھیڑوں نے پوری کر دی ۔ پوری دنےا میں حفاظتی ماسک مفت تقسیم ہو رہے ہیں ، جب کہ ہماری گندی ذہنےت کو اس پہ بھی بزنس کی سوجھی ہوئی ہے ۔ ایسے میں ہماری درخواست ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں آرایءوں ، جاٹوں ، گجروں کے لطیفوں اور مزے مزے کے انوکھے نرالے ٹوٹکوں ، اونگی بونگی شاعری سے خالی جیب لوگوں کا دل پشوری کرنے اور اپنا من پرچانے والوں پہ فتوے لگانے کی بجائے ان کی پیٹھ تھپکی جائے ۔ یقین جانیں میرے کانوں میں تو اس بے فکرے نوجوان کی سریلی آواز اب تک گونج رہی ہے، جو سرِ عام اور بھرے بازار میں بلا خوف و خطر ہو بہو محمد رفیع کے سٹائل میں گاتا جا رہا تھا: کرونا جان کر تم تو مِرا دل توڑ جاتی ہو مجھے اس حال میں کس کے سہارے چھوڑ جاتی ہو پھر مجھے تو اپنے ہنگامی اور ہنگامہ خیز شاعر لالہ بسمل پہ بھی رہ رہ کے پیار آ رہا ہے جس نے اس ہوش ربا صورتِ حال، رقت انگیز خبرناموں کے ماحول اور حواس باختہ عوام کا دل بہلانے کے لیے چھیڑ چھاڑ کا یہ طریقہ نکالا ہے: عشق مِرے کا دم تو بھرو نا جانِ من اب کچھ تو کرو نا باتیں سن لو دھےان سے میری چھوڑو اب یہ سینا پرونا چھٹےاں ہیں اسکول سے اب تو پھیلا ہے ہر طرف کرونا مرتا ہوں جس طرح مَیں تم پر تم بھی کبھی تو مجھ پہ مرو نا