انسان اپنے آپ کو خواہ کتنا سیانا اور کمالات کا مجموعہ ثابت کردے لیکن سچی بات یہ ہے کہ انسان پھر بھی انسان اور عجز کا پتلا ہی ہے۔یہ پَل دو پَل میں کسی بھی وقت اور کہیں بھی ڈھیر ہوکر زمیں بوس ہوسکتا ہے۔کرونا وائرس کی حالیہ وبائی لہر ہمارے سامنے اس کی ایک زندہ مثال ہے جس نے انسانی حقیقت کی قلعی محض چند دنوں میں کھول کر رکھ دی۔چار سے پانچ سو نینو میٹر کی جسامت رکھنے والے اس غیر مرئی( جرثومے( وائرس نے سات ارب کی انسانی آبادی کو ایک نئے عذاب سے دو چار کر دیا ہے۔چین کے شہر ووہان میں نمودار ہونے والے کرونا نے ایک مہینے کے اندر اندر امریکہ سے لے کر یورپ تک اور ایشیا سے افریقہ تک چاروں طرف سفرکیا ۔ایک اندازے کے مطابق اب تک دنیا کے ایک سو چوہتر سے زیادہ ممالک اس وائرس کی لپیٹ میں آچکے ہیں جس سے مجموعی طور پر 10 ہزار لوگوں کی اموت واقع ہوئی ہیں جبکہ دو لاکھ کے قریب افراد کو متاثر کیا ہے ۔چین کے بعد اس وقت کرونا کا مرکز براعظم یورپ ہے باالخصوص قدیم روما (اٹلی )جہاں پر اب تک بائیس سو اموات رپورٹ ہوئی ہیں۔دوسرے نمبر پر اسپین ساڑھے تین سو اموات کے ساتھ جبکہ فرانس ڈیڑھ سو اموات کے ساتھ تیسرے نمبر پر بتایا گیا ہے- مشرق وسطی میں ایران وہ پہلا ملک ہے جو اٹلی کے بعد سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور ہنوز کرونا وائرس کے متاثرین کے نئے کیسز سامنے آرہے ہیں۔اسی طرح متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور کئی دیگر خلیجی ملکوں میں بھی اس کے متاثرین سامنے آئے ہیں-پاکستان شاید اس حوالے سے خوش نصیب ملک ہے جو اس وائرس سے بری طرح متاثر نہیں ہوا ہے۔ چاروں اطراف سے کرونا متاثرہ ملکوں چین، ایران ،بھارت اور افغانستان میں گھرے ہوئے اس ملک کے بائیس کروڑ لوگوں میں سے صرف میں اب تک ایک سو چار کے قریب افراد میں اس کی تشخیص ہوئی ہے جن میں کسی دو مریضوں کی موت واقع ہوئی ہے۔لیکن دوسری طرف پاکستان اپنی غافل حکومت اور کمزور پالیسیوں کے حوالے سے ایک بدقسمت اور قابل رحم ملک بھی ہے ۔یہاں کرونا وائرس کا پہلا کیس چھبیس فروری کو کراچی میں اس وقت سامنے آیا جب ایران سے اٹھارہ فروری کو آئے ہوئے ایک وفد میں شامل ایک پاکستانی میں اس وائرس کے علامات پائی گئیں ۔چھبیس فروری کے بعد اول تو ریاست کو ایرانی سرحد پر ہائی الرٹ جاری کرنا چاہیے تھا تاکہ کرونا وائرس کے مزید متاثرین اندر نہ آسکیں محض چند ہزار زائرین کی وجہ سے بائیس کروڑ انسانوں کی زندگیوں کو خطرات سے بچایا جا سکتا۔ایران کی طرح چین بھی پاکستان کا کئی حوالوں سے قریبی اورہمسایہ ملک ہے اور جب چین میں موجود پاکستانیوں کے بارے میں ملک میں نہ آنے کی پالیسی اپنائی گئی تو ایرانی زائرین کو واپس بھیجنے کا رسک کیوں نہیں لیا گیا؟ پچھلے دو تین ہفتوں سے ہزاروں کی تعداد میں دھڑا دھڑ زائرین (جن میں سینکڑوں افراد کورونا وائرس سے متاثرہیں ایران سے پاکستان میں داخل ہورہے ہیں اور اس وائرس کو صحت مند لوگوں کو منتقل کررہے ہیںنتیجہ اس کا یہ نکلا کہ یہاں پر بھی 400کے قریب افراد میں اس وائرس کی تشخیص ہوئی ہے ۔دوسری غلطی بلکہ فاش غلطی حکومت نے یہ کی اور بدستور کررہی ہیں کہ ایران سے آنے والے زائرین کی دیکھ بھال، چیک اپ اور انہیں آئسولیشن میں رکھنے کے انتہائی قابل رحم انتظامات کیے گئے ہیں ۔قوم کو پہلے بتایا گیا کہ ان زائرین کو تفتان کے علاقے میں قرنطینہ میں رکھ کر ان کی پوری دیکھ بھال کی جائے گی مگر معاملہ اس کا برعکس نظر آتا ہے ۔قرنطینہ کا مقصد یہ ہے کہ بندوں کو ایک دوسرے سے الگ رکھا جائے لیکن ہمارے ہاں قرنطینہ مراکزمیں بیچارے زائرین کو انتہائی خستہ حال میں ایک ساتھ رکھا گیا ہے - وہاں پر خوراک اور رہائش کے مناسب انتظامات ہوسکے‘ نہ ہی پانی اور ٹوائلٹ کی سہولیات موجود ہے۔زائرین کی واپسی کا یہی سلسلہ جاری رہا اور ساتھ ساتھ قرنطینہ مراکز کی یہی ناگفتہ بہ حالت رہی تو خاکم بدہن صرف بلوچستان اور سندھ نہیں بلکہ پورا ملک اس مہلک وائرس کی لپیٹ میں آجائے گا ۔ہے کوئی جو اس حکومت کو محض بڑھکیں مارنے کی بجائے حقیقت اور اصل صورتحال سے آگاہ کردے ؟