صور اسرافیل علامّ الغیوب اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کب پھونکا جائے گا؟کرونا کے معمولی جرثومے نے مگر قیامت کی ایک ادنیٰ جھلک دکھا دی ہے‘ یہ قیامت کا منظر نہیں تو کیا ہے کہ چین کے شہر ووہان میں ایک جرثومے نے کئی ہفتے تک تباہی پھیلائے رکھی‘ جدید ترین مواصلاتی نظام بالخصوص خلا میں موجود مصنوعی سیاروں(سیٹلائٹ) کے ذریعے دنیا بھر میں ایک ایک پل پل اور انسان تو انسان چیونٹیوں کی نقل و حرکت سے مکمل آگہی کا دعویدار امریکہ دیکھتی آنکھوں ‘ سنتے کانوں سے اس تباہی کے مناظر اور حضرت انسان کی بے بسی کو دیکھتا‘ سنتا رہا مگر اپنی سرزمین اور قوم کو بچانے کی کوئی پیشگی تدبیر کر سکا نہ معمولی جرثومے کو کسی حیاتیاتی میزائل‘ ایٹم بم اور دیگر خفیہ ہتھیار سے ملیا میٹ کہ کم از کم فرسٹ ورلڈ کے نسلی برتری میں مبتلا شہری محفوظ رہ سکتے۔ کرونا سے افریقہ کے کسی غریب ترین ملک‘ امریکہ و یورپ کی نگاہ میں قابل نفرت مسلم ریاست کے محروم و مظلوم پسماندہ شہریوں اور جدید طبی سہولتوں کے باوجود سائنس و ٹیکنالوجی کے حصار میں محفوظ باشندوں میںسے کوئی محفوظ ہے نہ خوف سے کوئی مامون اور نہ موت سے کسی کو رستگاری‘ ہر چھوٹے بڑے طاقتور و کمزور ملک کا شہری یکساں شکار و ہراساں۔ فرمایا’’اور صور پھونک دیا جائے گا‘ پس آسمانوں اور زمین والے سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے مگر اللہ تعالیٰ جسے چاہے(وہ بچا رہے گا) پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا پس وہ یکدم کھڑے ہو کر دیکھنے لگ جائیں گے‘‘ ایک نظر نہ آنیوالے معمولی جرثومے کے ذریعے خالق کائنات نے اپنی ذہانت‘ صلاحیت ‘ علم و فن‘انفس و آفاق کو مسخر کرنے کی خواہش پر نازاں انسان کو یہ احساس دلایا کہ وہ اس کے ساتھ کب کیا کر سکتا ہے؟ مبہوت‘ بے بس اور لاچار۔اپنی خداداد صلاحیتوں ‘علم و ذہانت اور ایجادات سے خلق خدا کو آسانیاں فراہم کرنے‘ کرہ ارضی کو جنتِ گم گشتہ کا نمونہ بنانے کے بجائے خدا فراموشی‘ ظلم و زیادتی اور فسق و فجور کا گڑھ بنا نے کی دھن میں ہم میں سے ہر ایک نے بغاوت و سرکشی کا ارتکاب کیا‘ گزشتہ دو تین عشروں میںبغاوت و سرکشی کا یہ رجحان زیادہ بڑھا ‘انسانیت مُنہ چھپانے پر مجبور ہو گئی‘ سب سے بڑا حادثہ یہ ہوا کہ نسلی‘ لسانی ‘ مذہبی ‘ مسلکی اور علاقائی تعصب و نفرت کی بنا پرظلم کے اس کھیل میں سب ہی شریک رہے۔ کوئی براہ راست اور کچھ بالواسطہ‘ افغانستان میں لاکھوں انسانوں پر جدید ترین مہلک ہتھیاروں کا تجربہ کرنے والوں کا کسی نے کھل کر ساتھ دیا‘ کوئی زبانی تائید و حمائت کرتا رہا اور کسی نے الخاموشی نیم رضا کے ذریعے اپنا حصہ ڈالا۔ دل سے بُرا سمجھنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی الشاذ کا لمعدوم کشمیر‘ فلسطین ‘ روہنگیا اور دیگر مقامات پر ریاستی دہشت گردی کے شکار انسانوں کی آہ و فغان نے عرش الٰہی کو ہلا ڈالا مگر حضرت انسان کے کانوں پر جوں رینگی نہ کسی مسلم و غیر مسلم ریاست کا ضمیر جاگا‘ سب خدا کو بھول کر جارح‘ جابرانہ اورظالم کی ناراضگی سے خائف‘ خوشنودی کے طلب گار رہے۔ہر مذہب و مسلک کا انسان اس وبا کا شکار ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کہ کوئی خدا کا سگا ہے نہ سوتیلا‘ ہر ایک سے وہ خالق و مالک رنجیدہ ہے ویٹی کن کے مکینوں اور کعبے کے پاسبانوں سے یکساں نالاں۔ کرونا عذاب الٰہی نہیں لیکن قدرتی آزمائش اور خدائی قوت و جبروت کا مظہر ضرور ہے‘ قیامت کا منظر یہ ہے کہ جو چیزیں کل تک متروک تھیں آج مرغوب ہیں‘ طہارت اور صفائی ‘فاسٹ فوڈ کے بجائے گھر کا کھانا ‘ملازمین کے بجائے اپنے دست و بازو پر انحصار ‘ سادگی‘ تخلیہ اور پیسے‘ دھیلے سے زیادہ اپنے خاندان‘ عزیز و اقارب اور کمزوروں ‘ ناداروں کی فکر۔ بعض حرماں نصیب اب بھی ذخیرہ اندوزی ‘ گرانفروشی اور لوٹ مار کے قبیح کاروبار میں مگن ہیں مگر بحیثیت مجموعی انسان بدل گیا ہے۔سپین میں آٹھ سو سال بعد اذان کی گونج سنائی دیتی ہے‘ فرانس میں حجاب پر پابندی تھی اب خواتین کے مُنہ ڈھانپے بغیر باہر نکلنے پر جرمانہ عائد ہے‘ چین میں وضو کی ترغیب دی جا رہی ہے اور مذہب سے الرجک روس میں مذاہب کی طرف مراجعت کا رجحان غالب۔ 9/11کے بعد طاغوت نے اسلام اور مسلمانوں کو ہدف بنا کر صلیبی جنگ کا آغاز کیا۔جہاد‘ اپنے حقوق کی جنگ کو دہشت گردی کا نام دیا مگر امریکہ و یورپ میں اسلام کو سمجھنے اور قرآن مجید کی آفاقی تعلیمات پر غور کرنے کا رجحان بڑھا‘ اب بھی سلیم الفطرت لوگ اسلام اور قرآنی و دینوی تعلیمات کی طرف راغب ہیں کہ صدیوں قبل رسول اللہ ﷺنے جن چیزوں کی ترغیب دی ان میں کس قدر انسانوں کی اجتماعی بھلائی اور رہنمائی مضمر تھی‘ افسوس مگر یہ ہے کہ پاکستانی علماء نے بحیثیت مجموعی اجتہاد کے بجائے جمودکو ترجیح دی اور تعلیمات رسولﷺکے بالکل برعکس طرز عمل اختیار کیا‘ انسانی جان کی حرمت پر جائے نماز کا تقدس غالب رہا‘ عالمگیر وبا کے موقع پر بھی علماء مسلکی تفریق اور طبقاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اُمہ کی رہنمائی نہ کر سکے‘ افسوس۔پاکستان سمیت پوری دنیا کے حکمرانوں کے علم و ہنر‘ دور اندیشی اور جذبہ خدمت خلق کی قلعی کھلی۔ پاکستان میں عمران خان کی کور ٹیم دو اڑھائی ماہ کے دوران بنیادی نوعیت کے فیصلے بروقت نہ کر سکی۔ عمران خان کو دیہاڑی دار آبادی کا احساس تھا اور ہے مگر لاک ڈائون کے بعد غریبوں کی خبر گیری کیلئے کوئی منصوبہ وہ بنا نہ سکے‘ ٹائیگر فورس کی تشکیل اور غریبوں‘ ناداروں اور دیہاڑی داروں کی امداد کے لئے ریلیف فنڈ کے قیام میں کم از کم پندرہ دن کی تاخیر ہوئی اور ذخیرہ اندوزی‘ گراں فروشی کی روک تھام میں مجرمانہ غفلت برتی گئی‘ یہ ذمہ داری صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کی تھی مگر انہیں ہوش تب آیا جب مافیا اپنا کام کر چکا تھا۔ عام شہری تو درکنار پولیس و سرکاری اہلکاروں تک کو کرونا وائرس سے نمٹنے کا سلیقہ نہیں‘ لاک ڈائون کی خلاف ورزی پر شہریوں کو پکڑ کر بھیڑ بکریوں کی طرح وینوں میں ڈالا اور حوالات میں اکٹھے بند رکھا ‘ سماجی دوری کا اہتمام نہ کرونا پھیلنے کا خوف‘ مناسب حفاظتی انتظامات کے بغیر طبی عملہ جان پر کھیل کر اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہے اور این ڈی ایم اے کے علاوہ حکومت انہیں 31مارچ تک مکمل سہولتیں فراہم کرنے کی خوشخبری سنا رہی ہے۔ کاروباری مراکز جلد بند کرانے اور لوگوں کو سیر سپاٹے سے روکنے کا اقدام بھی صوبائی حکومتوں نے اس وقت کیا جب بیرون ملک بالخصوص ایران ‘ سپین‘ برطانیہ وغیرہ سے پاکستان آنیوالے مسافر ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد سے میل ملاپ کے ذریعے یہ مرض منتقل کر چکے ہیں۔اللہ خیر کرے۔قادر مطلق نے انسان کو اپنی طے شدہ حدود اور قوانین فطرت سے تجاوز نہ کرنے کا واضح پیغام دیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ حضرت انسان سمجھ پاتا ہے یا نہیں۔