کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر میں خوف ہے لیکن جو کیفیت چین کی ہے‘ اس کا صحیح اندازہ ممکن نہیں۔ چین والے خبریں چھپا رہے ہیں اور مغرب کے پاس رپورٹیں ہیں کہ وہاں ہلاکتوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگرچہ چین کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق محض ایک ہزار یا اس سے کچھ اوپر ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ چین کا معاشی نقصان اتنا زیادہ ہے کہ صحیح حال پتہ چلے تو ہوش اڑ جائیں۔کھربوں ڈالر کا گھاٹا ہو چکا ہے‘ صنعتیں بند پڑی ہیں‘ سٹاک مارکیٹیں بیٹھ گئی ہیں‘ بے روزگاری پھیل رہی ہے اور گروتھ ریٹ آدھا رہ گیا ہے۔ پورے ملک میں بالعموم اور مشرق والے آدھے حصے میں بے پناہ خوف ہے۔ یہ پہلا وائرس ہے جو مغرب کی تجربہ گاہوں سے نہیں پھوٹا۔ یہ چین ہی کی کسی لیبارٹری میں ہونے والے حادثے کا نتیجہ ہے لیکن چین کی حکومت اس راز کو چھپا رہی ہے اور چین والے سائنس میں اتنی ترقی کرنے کے باوجود اس جہالت آمیز ظلم کا مظاہرہ کر رہے ہیں کہ گلی محلے میں گھومنے پھرنے والے جانوروں کو ہی نہیں‘ اپنے پالتو جانوروں کو بھی بے رحمی سے مار رہے ہیں۔ایسی ویڈیوز وائرل ہو رہی ہیں کہ بلیوں اور کتوں کو بلند عمارتوں سے نیچے پھینکا جا رہا ہے۔سارے نہیں لیکن کافی سارے۔خود بلدیاتی حکام بھی جہالت اور ظلم سے کام لیتے ہوئے گھروں میں گھس رہے ہیں اور ان کے پالتو جانوروں کو پکڑ کر ان کے سامنے ہلاک کر رہے ہیں۔ گولی کا استعمال بہت کم کرتے ہیں‘ ڈنڈوں سے مار مار کر ہلاک کرتے ہیں اور پورے ملک میں پالتو جانوروں کا ’’ہولو کاسٹ‘‘ ہو رہا ہے حالانکہ ان کا کرونا وائرس سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ چین کرونا وائرس کے علاوہ بھی کئی بیماریوں کی زد میں ہے جو آنے والے دنوں میں اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گی۔ ان بیماریوں کی وجہ ہر قسم کے جانوروں کو کھا جانا ہے۔ کچھ عشروں سے چین ہی نہیں‘ ساری اقلیم زرد فام میں یہ بیماری ہے۔ کتا‘ گدھا‘ سوّر‘ لومڑ‘ بندر‘ سانپ‘ مگرمچھ‘ کیچوا‘ چوہا‘ مینڈک‘ راکون‘ بلی سمیت کوئی جانور ایسا نہیں ہے جسے یہ لوگ نہ کھاتے ہوں۔ بعض تو زندہ کھا جاتے ہیں۔ مثلاً چھوٹے جانور کو پکڑا‘ اس کا سر منہ سے نوچ کر الگ کر دیا‘ پھر باقی کو بھی نوچ نوچ کر کھا گئے۔ کوئی انسان ایسا نہیں کر سکتا لیکن چین والے تو پھر چین والے ہیں اور ساتھ ہی ان کے بھائی بند۔ اقلیم زرد فام درجن سے زیادہ ملکوں پر مشتمل ہے۔ چین ‘شمالی اور جنوبی کوریا‘ جاپان‘ تائیوان‘ فلپائن ‘ ویت نام‘ لائوس ‘ کمپوچیا‘ تھائی لینڈ‘ برما اور سنگا پور۔ ان کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائیشیا بھی جزوی طور پر اسی اقلیم کا حصہ ہیں۔ ان ملکوں کی قومیں چینی اور ہندوستانی نسل کا آمیزہ ہیں۔ چین‘ ویت نام، فلپائن، کوریا اور انڈونیشیا اس بہیمت میں سب سے آگے ہیں۔ جاپان تائیوان میں تہذیبی اقدار جنگ عظیم دوئم کے بعد بدل گئیں‘ وہاں صورتحال کچھ بہتر ہے۔(نیپال اور بھوٹان کی نسلوں میں بھی چینی عنصر خلط ملط ہے) حرام جانوروں کا کھا جانا اپنی جگہ‘ لیکن انہیں مارنے کا طریقہ ایسا کہ جو سن لے اس کا پتہ بھی پانی ہو جائے‘ دیکھنے والے کی حالت تو خدا جانے کیاہو گی۔ ہولناک اذیتیں دے دے کر مارتے ہیں‘ پھر کھاتے ہیں۔وجہ ایڈر نالائن Adernalineنامی کیمیائی مادے کا لالچ ہے۔ انسان اور جانور جب ناقابل بیان عذاب سے گزریں تو جسم کے بعض گلینڈ یہ مادہ کثرت سے خارج کرتے ہیں اور اقوام زرد فام کا ’’عقیدہ‘‘ ہے کہ اس کی وجہ سے گوشت لذیذ ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جانوروں کی زندہ حالت میں کھال اتاری جاتی ہے۔ کھال اترتے اترتے اکثر آدھا گھنٹہ فی جانور لگ جاتا ہے۔ جانور پھر بھی نہیں مرتا۔ ٹراما کی حالت میں پڑا رہتا ہے اور گھنٹے دو گھنٹے بعد مرتا ہے۔ یہ اڑھائی گھنٹے ’’عالم نزع‘‘ کے ہیں۔ اسلامی طریقہ سے ذبح کئے جانے والے جانور کی جان دو سے اڑھائی منٹ میں نکل جاتی ہے۔ جانوروں کو ابلتے ہوئے کڑھائو میں ڈال کر اوپر سنگی تختہ ڈال دیا جاتا ہے‘ کبھی ان کے بازو اور ٹانگیں بڑی قینچی سے کاٹ دی جاتی ہیں پھر مرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کبھی آگ کا فوارہ پھینکنے والے پائپ سے انہیں زندہ حالت میں ’’روسٹ‘‘ کیا جاتا ہے تو کبھی کوئلوں پر ۔ اور بھی کئی طریقے ہیں اور افسوس ہے کہ انڈونیشیا مسلمان ملک ہونے کے باوجود اس غیر انسانی کلچر کو اپنائے ہوئے ہے۔ یہ ستم الگ ہے کہ جانوروں کی یہ (Lynching)’’لنچنگ‘‘ دوسرے ہزاروں جانوروں کے سامنے کی جاتی ہے۔ اقوام زرد فام میں تو گوشت کھانے کی حرص حد سے زیادہ ہے۔ دنیا میں ان کی آبادی ایک چوتھائی ہے لیکن قتل کئے جانے والے جانوروں کا ایک تہائی حصہ یہی لوگ کھا جاتے ہیں یعنی اپنے تناسب سے زیادہ۔ ہر سال دنیا بھر میں 72ارب زمینی جانور ذبح کئے جاتے ہیں ان میں مچھلیاں اور سمندری مخلوق شامل نہیں‘ وہ الگ ہیں اور وہ جانور بھی الگ جو انفرادی طور پر گھروں میں پالے جاتے ہیں۔ ان میں سے 20ارب سے زیادہ چین میں کھائے جاتے ہیں۔ چین میں صرف وہی جانور ہی نہیں مارے جاتے جو چین میں پائے جاتے ہیں۔ افریقہ‘ایران‘ مشرق وسطیٰ سے کروڑوں گدھے درآمد کئے جاتے ہیں اور ان کی زندہ کھال اتاری جاتی ہے۔ افریقہ اور جنوبی امریکہ سے اژدھے‘ مگر مچھ‘شیر‘ چیتے‘ گینڈے کا گوشت بھی منگوایا جاتا ہے‘ زیادہ تر غیر قانونی۔ ہاتھیوں کا سب سے زیادہ قتل عام‘ دنیا بھر میں چینی اداروں ہی کے توسط سے ہوتا ہے۔ جانوروں کی نسلوں کی نسلیں مٹ رہی ہیں۔جانور ذی روح ہوتے ہیں اور ذی عقل بھی۔ بعض علما کہتے ہیں کہ جانور’’غیر ذی عقل‘‘ہیں۔ امام شوکانیؒ نے اس کی تردید کی۔ قرآن پاک ہر نوع حیوان کو ایک امت قرار دیتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ جانور کو باندھ کر بھوکوں مارنے والا دوزخ میں جائے گا۔ جانور اسی طرح سے دکھ درد خوشی غمی محسوس کرتے ہیں جیسے کہ انسان۔ جدید سائنسی تحقیق ہے کہ کتا‘ سوّر‘ بندر‘ بلی‘ لومڑی اور راکون اپنی بالغ عمری میں سوچ سمجھ اور احساسات کے لحاظ سے انسان کے پانچ سالہ بچے کے برابر ہوتے ہیں۔ اقوام زرد فام جانوروں پر ظلم میں تاریخ بنا رہی ہیں۔ مکافات عمل کی تاریخ ابھی لکھی جانی ہے‘ اس کا انتظار فرمائیں۔