کیا آپ نے چین کا شہر وُہان دیکھا؟ میرا مطلب ہے، وبا کے ان دنوں ، انٹر نیٹ پر اس شہر کی تصویر اور تقدیر دیکھی؟ سوا کروڑا نسانوں کا بھرا پرا شہر ، ایسا بنا بنایا اور جدید تعمیر کا شاہکار شہر ،صاف ستھرا، نکھرا نکھرا ،ایسا کہ دیکھیں تو حیرت ہو۔ مگر ایسا سناٹا کہ جیسے کسی نے ووہان شہر کے باسیوں پر ، یہاں کی پوری زندگی پرکوئی کار گر جادو کر دیا ہو۔زندگی یہاں یوں مفقود ہے گویا آپ عہدِ قدیم کے کسی داستانوی سوئے ہوئے محل میں آ نکلے ہوں۔ ایسا سناٹا ، ایسی بیابانی اور ایسا بے بشر شہرگویا ہالی وڈ کی کسی فلم کے مناظرمجسم ہو کے آپ کے سامنے آ کھڑے ہوں۔ یاخدا! ایک ایسے عہد میں جب انسان کے پاس وقت کا ایک قطرہ تک نہیں بچا، کہ انسان کا سارا وقت نچوڑ کے اس کی مادی مصروفیات کھا گئیں۔ کوئی شہر ایسا بھی ہو سکتا ہے جہاں انسان ہوں ،ان کی ضروریات ہوں، سڑکیں ہوںاور گھروں کے گیراجوں میں پیٹرول سے بھری جدیدگاڑیا ں بھی ہوں مگر زندگی چار دیواریوں کے اندر قید اور خوفزدہ ہوکے سانس روکے بیٹھی ہو۔ کوئی جان سکتا ہے کہ جدید چین پر یہ کون سی قیامت ٹوٹ پڑی ہے؟ وہ چائنہ جس نے اپنی محنت ، لیاقت اور ہنرمندی سے دنیا کی معاشی منڈی پر قریب قریب تالا لگا دیا تھا، تالا جو بتدریج بند ہوتا جا رہا تھا، چین جواپنے منصوبوں سے خطے کی تقدیر بدلنے جا رہا تھا، سی پیک کے ذریعے سے براعظموں کو قریب لا رہا تھا۔امریکہ جس کا سب زیادہ مقروض ہو چکا تھا۔پھر یہ کیا جادو ہوا کہ یکایک دنیا ہاتھ باندھے اپنے اپنے ائیرپورٹس پرکھڑی ہو گئی کہ خدارا چین سے یہاں کوئی نہ آئے۔ کیا خدا یہ بتا رہا ہے کہ ہیلو انسانو!کدھر جارہے ہو، میں بھی موجود ہوں، یہ سازش ہے، اتفاق یا کچھ اور مگر اتنا ضرور ثابت ہوتا ہے کہ یقیناانسان بے بس ہے ! اگرچہ آزاد بھی ! اپنی اپنی حدود ہیں، اپنے اپنے مدار ہیں۔ کچھ مجبوریاں اور کچھ اختیارات ہیں۔ اقبا ل نے کہا تھا ؎ صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے، پا بہ گل بھی ہے انھی پابندیوں میں حاصل آزادی کو تو کر لے اگرچہ اس نے یہ بھی کہا ؎ تقدیر کے پابند نباتات و جمادات مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند ایم اے انگلش کے دنوں میں کھلا کہ انگلش ادب میں یہ بحث بہت ہے، یہی کہ انسان کتنا آزاد ہے اور کتنا بے بس۔ کسی بزرگ سے پوچھاگیا ،انسان تو بے بس ہے،میر تقی میر کی زبان میں … ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا بزرگ نے فرمایا، ایسا نہیں،تم اپنی ٹانگ اٹھاؤ، سوال کرنے والے نے ٹانگ اٹھا لی۔ فرمایا، گویا تم اپنی مرضی سے اپنی ٹانگ اٹھا سکتے ہو، اس پر سائل نے کہا، تو گویا انسان آزاد ہے، فرمایا ،اتنا بھی نہیں، تم ذرا اب اپنی دوسری ٹانگ بھی اٹھاؤ۔سائل نے کہا ، دونوں تو بہ یک وقت نہیں اٹھا سکتا۔بزرگ نے فرمایا بس یہی انسانی آزادی اور پابندی کی کل کہانی ہے۔ اس معاملے میں سازش کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتاکہ جہاں انسان وہاں ہر شے کا امکان ۔ شک سارا مغرب پر جائے گا، تفتیش کے قاعدے کے تحت سارا فائدہ بھی مغرب کے کھاتے میں جا رہا ہے ۔ظاہر ہے، مغرب کے مقابلے میں ابھرتی ہوئی طاقت چین کو اس سلسلے میں شدید دھچکا لگا ہے۔چائنہ بدنام اور تنہا ہو کے رہ گیا۔ بائیولوجیکل وار کرنا اور انسانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے جانوروں سے بدتر سمجھتے ہوئے استعمال کر جاناویسے بھی مغرب کا وتیرہ ہے۔ بل گیٹس جیسے کئی لوگ اپنا سرمایہ ایسی لیبارٹریز اور ان میں ہونے والے تجربات پر لگاتے بھی پائے جاتے ہیں۔ اب تو یار لوگ کوئی ہالی وڈ کی کوئی فلم بھی ڈھونڈ لائے ہیں، جس میں چمگادڑسے پھیلنے والا وائرس تباہی پھیلاتا ہے ۔چین کی موجودہ صورتحال اور فلم میں پیش کردہ کہانی میں کئی مماثلتیں بتائی جاتی ہیں۔ ان چیزوں کو لیکن کبھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بظاہر چین پر یہ افتاد اس کے اپنے ہاتھوں ٹوٹی ہے۔دراصل چینی بھائی بھی خدا کی کچھ عجب ہی مخلوق ہیں۔دھرتی کی کوئی چیز انھوں نے نہیں چھوڑی جو یہ ڈکار نہ جاتے ہوں۔ جیسا کہ بتایا جا رہا ہے، سانپ اور چمگادڑ کے سوپ کا ان دنوں وہاں بہت چرچا تھا۔خدا کے کیسے بندے؟ جن چیزوں کے ذکر سے ہی ہمیں کراہت آئے، وہی ان کا من بھاتا کھانا۔ خیر فطرت بھی بڑی غیرت مند ہے ، جہاں انسان اس کے مقابل آئے گا،یہ اپنا خراج وصول کر کے رہے گی۔چنانچہ یہ نیا وائرس پھوٹ پڑا۔ نام جس کا کرونا رکھا گیا،یہ پرانے وائرس سارس کے قبیلے کا وائرس ہے۔ تاہم اتنی اس کی تباہی نہیں ، جتنا خوف پھیلا دیا گیا ہے، سو میں سے دو افراد جان سے جا سکتے ہیں۔جبکہ پچھلے وائرس سارس کی شرحِ اموات دس فیصد تھی ، مصیبت لیکن یہ ہے کہ اس کا علاج ابھی دریافت نہیں کیا جا سکا۔خبروں کے مطابق چائنہ نے کرونا وائرس کا جو جنیٹک کوڈ ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا ، امریکی لیبارٹری نے اسے ڈاونلوڈ کرکے کام شروع کر دیا ہے۔جلد ہی علاج دریافت کر لیا جائے گا۔ علاج دریافت کرنے والے بھی ظاہر ہے دنوں میں ارب کھرب پتی ہو جائیں گے اور انسانوں کے مسیحا بھی کہلائیں گے، خواہ وائرس پھیلانے کا کام بھی انھی کا ہو۔ بطور مسلمان بھی ہمارے لیے اس معاملے میں کئی سبق ہیں۔ایک تو وہی کہ انسان جتنی بھی ترقی کر لے، عقل اور سائنس جتنے بھی آپے سے باہر ہو جائیں ، انسان کبھی بے پناہ نہیں ہو سکتا۔یہ اپنی اوقات میں ہی رہے گا۔ اسے خوفزدہ ہونا پڑے گا، اسے تکلیف سہنی پڑے گی اور اسے رونا پڑے گا۔ پھر دیکھئے انسان جب حلال و حرام کی تمیز چھوڑتا ہے تو اس کا خمیازہ بھی اسے بہرحال بھگتنا پڑتاہے۔ اگرچہ کچھ لوگ اس کو ہزگز نہ مانیں گے، ظاہر ہے ،جو خد اکو نہیںمانتا ، اسے پھر کسی جراثیم پر ایمان لانا پڑتا ہے۔خدا سے نڈر ہونے والے کو خداکی مخلوق سے ڈرنا پڑتا ہے۔حلال کھانے ، پاکیز گی اختیار کرنے ، دن میں پانچ بار وضو کرنے والے بھی اس بیماری سے بچ سکتے ہیں کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایسی ہی تدابیر بتائی جا رہی ہیں۔خیال تھا، وبا کے متعلق اسلام کے کچھ آداب اور معاملات دہر الیے جاتے ۔ کالم مگر اس کے بغیر ہی تمام ہو گیا۔ اچھا پھر سہی۔