کرونا وائرس کے بارے میں وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرونا ریلیف فنڈ قائم کر دیا ہے اور ٹائیگر فورس کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ ملازمین کو فارغ نہ کرنے والے اداروں کو اسٹیٹ بینک سستے قرضے فراہم کرے گا۔ ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو ریاست سخت سزا دے گی۔ انہوں نے کہا کہ وائرس کے خلاف جنگ جیتیں گے۔ کرفیو نافذ نہیں ہو گا۔ وزیر اعظم نے ہمسایہ ملک بھارت کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں لاک ڈائون کی سختی کی گئی تو لوگ بھوکے مرنے لگے جس پر بھارتی وزیر اعظم کو معافی مانگنا پڑی۔ وزیر اعظم کے خیالات قوم کے جذبات کی ترجمانی ہیں اور وزیر اعظم کا نقطہ نظر سختی کی بجائے نرمی کے حوالے سے قابل تحسین اور قابل داد ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ پوری پاکستانی قوم اور عالمی برادری کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے جلد نجات حاصل کرے گی۔ کرونا وائرس کے سلسلے میں جزوی طور پر ریلوے اور ٹرانسپورٹ کی بندش کو ختم ہونا چاہئے اور ضرورت مندوں کو ضروریات زندگی بہم پہنچانے کیلئے فوری اقدامات ہونے چاہئیں کہ کرونا وائرس کی تباہی اور موت سے بڑھ کر کرونا وائرس کا خوف ہے۔ قوم کو خوف کی کیفیت سے باہر نکالنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم کرونا کی تباہ کاریوں کا جائزہ لیں تو تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں نوول کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کر گئی جن میں امریکہ سب سے زیادہ مریضوں کے ساتھ سرفہرست ہے، چین میں کرونا وائرس کیسز میں مقامی سطح پر اضافہ صفر ہو گیا، برونائی میں کرونا وائرس سے پہلی ہلاکت، نیوز لینڈ ایئر لائن کے عملہ کے 8 افراد میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے، بھارت میں کرونا وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 19 اور 873 مریضوں کی تصدیق ہوئی ہے، کرونا وائرس کے باعث شانگریلا مذاکرات منسوخ ہو گئے۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے سنٹر برائے سسٹمز سائنس اینڈ انجینئرنگ (سی ایس ایس ای) کے تازہ ترین اعدادو شمار کے مطابق دنیا بھر میں نوول کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد 6 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔امریکہ کے ٹرمپ نے تکبر سے کام لیا تھا اور کرونا وائرس کو چائنا وائرس کا نام دیا تھا۔ تازہ ترین معلومات کے مطابق امریکہ میں کرونا وائرس کے سب سے زیادہ کیسز ہیں جن کی تعداد ایک لاکھ 4 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ اٹلی میں نو ہزار 100 سے زیادہ اموات ہوئی ہیں جو تمام ممالک اور خطوں میں سب سے زیادہ ہے۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جب کائنات میں انسانوں کے ساتھ ظلم ہو عدل اور انصاف کا نام جاتا رہے حکمران وعدہ خلافیاں کریں اور انسانیت ختم ہو جائے تو عذاب نازل ہوتے ہیں اور انہی عذابوں کا باعث کوئی اور نہیں انسان خود ہوتا ہے۔ سورئہ تغابن میں ارشاد ہوا کہ کوئی مصیبت اذن رب کے بغیر نہیں آتی۔ سورۃ الحدید میں اس بات کو مزید واضح فرمایا گیا کہ کوئی بھی مصیبت زمین میں یا تمہاری جانوں پر نہیں آتی ہے مگر اس کے معرض وجود میں آنے سے قبل اس کی پوری تفصیل اللہ تعالیٰ کے علم قدیم میں پہلے ہی سے موجود ہوتی ہے۔ سورئہ روم میں فرمایا کہ بحروبر میں جو فساد برپا ہو گیا ہے یہ لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے یعنی جیسے ہمارے اعمال ہوتے ہیں اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ ہمارے حق میں فیصلے صادر فرماتے ہیں۔ مزید فرمایا کہ اس کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ لوگوں کو ان کے بعض اعمال کا مزا چکھائے۔ کیا عجب کہ وہ اللہ کی نافرمانی سے باز آجائیں۔ دوسری جگہ فرمایا کہ یہ آفات سماوی و ارضی ہمارے بعض اعمال کا بدلہ ہیں لیکن وہ ہمارے اکثر گناہوں سے تو درگزر فرما دیتا ہے۔ اس پس منظر میں اپنے معاشرے پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بلائیں اور وبائیں بحیثیت مجموعی ہماری اپنی بداعمالیوں کا نتیجہ ہیں۔ لہٰذا ان سے نجات کے لیے ہمیں فوری طور پر اللہ کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ توبہ و استغفار کرنا چاہئے اور اصلاح احوال کیلئے سوچنا چاہئے۔ آج انسانوں کے ساتھ ساتھ حکمرانوں کو بھی اپنی بداعمالیوں سے توبہ کرنی چاہئے کہ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کی حکومت باقی رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ اہل وطن کی طرف سے لاک ڈائون میں نرمی کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا بہتر ہوا ہے کہ حکومت نے گڈز ٹرانسپورٹ بحال کر دی ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹ کا پہیہ چلنے سے ان اشیاء کی قلت دور کرنے میں مدد ملے گی جو بروقت ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ پہنچائی جا سکیں، جہاں ان کی اشد ضرورت تھی ان میں ادویات بھی شامل ہیں اور بعض شہروں میں دوائوں کی قلت کی شکایات بھی سامنے آئی ہیں، اسی طرح دوسری اشیائے خوردنی کی قلت کا معاملہ بھی ہے، تاہم گڈز ٹرانسپورٹ کے راستے میں جو ضروری سہولتیں ہونی چاہئیں اب وہ بھی فراہم کرنا ضروری ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کرونا عالمی مسئلہ ہے دنیا کے تقریباً 200 ممالک کیساتھ ساتھ پاکستان بھی کرونا کی لپیٹ میں آیا ہوا ہے۔ ملک کے مختلف علاقوں میں کرونا کے خلاف جنگ جاری ہے، اس جنگ کے خلاف سب اپنی اپنی تجاویز دے رہے ہیں وسیب کے اقتدار پرست سیاستدان قدر خاموش نظر آتے ہیں البتہ سرائیکی صوبہ محاذ کی طرف سے ایک بیان سامنے آیا ہے اس کا متن اس بناء پر پیش کر رہا ہوں کہ اہل وطن کے سامنے وسیب کے لوگوں کا نقطہ نظر سامنے آئے۔ بیان میں سرائیکی رہنمائوں کی طرف سے کہا گیا ہے کہ گڈز ٹرانسپورٹ کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ وسیب کے جاگیردار اور سرمایہ دار غریبوں کی مدد کیلئے آگے آئیں۔ ابھی تک اس حوالے سے صورتحال خوشگوار نہیں ہے اس لیے مطالبات ہو رہے ہیں کہ با اثر افراد سے ریاست سختی کرے۔ حکومت کرفیو کے بارے میں سوچنے کی بجائے لاک ڈائون میں نرمی کرے۔ حکومت اور میڈیا لوگوں کو خوفزدہ کرنے کی بجائے امید اور بہتری کا پیغام دے۔ وزیر اعظم نے کھربوں روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان تو کیا ہے مگر ابھی تک غریبوں کو کوئی ریلیف نہیں ملا الٹا مہنگائی نے غریبوں کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے۔ 1600 روپے من فروخت ہونے والا آٹا 2400میں بھی نہیں مل رہا۔ حکومت ناکام ہو چکی ہے۔ لوگوں میں خوف و ہراس کی کیفیت ہے افواہوں نے کروڑوں انسانوں کا سکون چھین لیا ہے اور وہ ذہنی اذیت کا شکار ہیں۔ وسیب کے جاگیردار،سرمایہ دار اور گدی نشین سیاستدانوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کے موقع پر یہ حشرات الارض کی طرح باہر نکل آتے ہیں اور جب غریبوں پرکوئی مشکل وقت آتا ہے تو اپنے اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں۔ مطالبہ کیا گیا ہے کہ غریبوں کا خون چوسنے والے با اثر طبقات کی جاگیریں اور سرمایہ ضبط کرکے غریبوں میں تقسیم ہونا چاہئے۔ کرونا وائرس کے سلسلے میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تاکہ پوری دنیا کے انسانوں کو اس وبائی آفت سے نجات مل سکے اور ایک مرتبہ پھر زندگی کی چہل پہل بحال ہو سکے۔