عالمی ادارہ صحت نے کورونا وائرس کو دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد اسے عالمگیر وبا قرار دے دیا ہے ۔ چین کے علاوہ امریکہ ، برطانیہ ، اٹلی،ایران ، جنوبی کوریا، آسٹریلیا ،سعودی عرب ،بھارت اور پاکستان سمیت 124ممالک اس موذی مرض کی زد میں آ چکے ہیں ،کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ میں بھی کرونا وائرس کی علامات ظاہر ہوئی ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو آئسولیٹ کر لیا ہے۔ 2008ء کی عالمی کساد بازاری کے بعد دنیا ایک اور اقتصادی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے بلکہ یہ بحران آ چکا ہے ۔اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے بر طانیہ 39، اٹلی 28،امریکہ 8.3،چین 16، جاپان 10.6جنوبی کوریا 9.8اور آسٹریلیا 13ارب ڈالر خرچ کریں گے ۔ خزانے کے منہ کھولنے کے ساتھ ساتھ یہ ممالک اپنی اقتصادی پالیسیوں میں بھی مناسب ردوبدل کر رہے ہیں ۔برطانیہ نے شرح سود میں جو پہلے ہی بہت کم تھی مزید کم کر کے 0.25 فیصد کر دی ہے ۔جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے اپنی روایتی جرأت رندانہ سے کام لیتے ہوئے پیش گوئی کی ہے کہ ہر تین میں سے دوجرمن یعنی کہ قریباً ستر فیصد آبادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے ۔دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے سوا یورپ بھر سے آنے والی تمام پروازیں بند کر دی ہیں ۔تیزی سے پھیلتی وبا جس سے ساڑھے چار ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں اور سوا لاکھ سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں کا فوری تریاق بھی نہیں ہے کیونکہ اس کی ویکسین تیار کرنے میں بھی قر یباً ایک سال لگ جائے گا ۔انجیلا مرکل نے جو بنیادی طور پر سائنس دان ہیں ‘نے اپنے شہریوں کے ساتھ کوئی لمبے چوڑے وعدے بھی نہیں کئے ،وہ چودہ برس سے جرمنی میں برسر اقتدار ہیں ‘اب ریٹائر ہونے والی ہیں ۔انہوں نے2008ء کے اقتصادی بحران کے دوران بھی اپنے شہریوں کو یقین دلایا تھا کہ آپ کی بینکوں میں رکھی رقوم محفوظ ہیں ۔اس خاتون چانسلر کی اتنی ساکھ ہے کہ کچھ بینکوں کے دیوالیہ ہونے کے باوجود جرمن عوام نے ان کی باتوں پر اعتماد کیا اور اپنی رقوم بینکوں سے نہیں نکلوائیں، اب بھی انہوں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے عوام کو مشکل وقت کے لیے تیار ہونے اور اس ضمن میں حکومتی کاوشوں کی یقین دہانی کرائی ہے۔ اس رویئے کے قطعاً برعکس کرونا وائرس کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باوجود ہمارے ہاں روا یتی مبارک سلامت کا ماحول ہے جو ہماری حکومتوں کا خاصا بن چکا ہے۔ بڑے فخر سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارے ہاں صرف20کیسز ہیں ۔کیا اس بارے میں حکومت پورے حقائق سامنے لا رہی ہے یا واقعی ایسی ہی صورتحال ہے، کسی کو علم ہی نہیں ۔ پنجاب جس کی آبادی گیارہ کروڑ سے زائد ہے میں محض ملتان میں خاتون سمیت تین مریضوں کا پتہ چلا ہے جو جدہ سے واپس آئے تھے۔واضح رہے کہ کرونا وائرس سے شدید متاثر ایران سے آنے والے زائرین کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے ،اگر یہ اعداد وشمار درست ہیں تو ہم پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی مہربانی ہے ۔معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا جو مصر میںصحت کے عالمی ادارے میں کام کرتے رہے ہیں نے درست کہا ہے کہ کرونا وائرس پر سیاست سے بالاتر ہو کرکام کرنا چاہئے ۔ وائرس کے سب سے زیادہ کیس کراچی میں سامنے آئے ہیں اور خود وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے قریبی عزیز اس سے متاثر ہوئے ہیں، سکردو میں ایک بچے میں بھی وائرس کی خبر منظر عام پر آئی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سندھ کا ہی مسئلہ ہے بلکہ سارے پاکستان کا مسئلہ ہے ۔برطانیہ اٹلی ، جرمنی اور فرانس جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں یہ پھیل رہا ہے اور اٹلی میں تو مکمل لاک ڈاؤن ہو چکا ہے ۔لیکن پاکستان میں اس حوالے سے ابھی تک قومی سطح پر کوئی خاص مستعدی نظر نہیں آتی‘ سب کام روٹین کے مطابق چل رہے ہیں ۔نیوز چینلز پر حکومتی عہدیدار اور اپوزیشن کے ارکان حسب سابق ہر شام نبرد آزما رہتے ہیں ۔وزیراعظم کے ترجمان پہلے کی طرح ہی پوائنٹ سکورنگ پر مجبور ہیں ۔کرکٹ ٹورنامنٹ اور سماجی تقریبات بھی زور وشور سے جاری ہیں، شادی بیاہ اور ہلے گلے بھی عروج ہیں ۔ان میں زیادہ تر ایسی سرگرمیاں ہیں جو حفظ ماتقدم کے طور پر وائرس سے متاثر ہونے والے ممالک میں محض پیش بندی میں معطل یا محدود کر دی گئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاق کی سطح پر قومی صحت کی اہم ترین وزارت جس کا کو رونا وائرس کے حوالے سے کلیدی کردار ہے کا حکومت کو کوئی سیکرٹری ہی نہیں مل رہا ۔پہلے سیکرٹری جو بظاہر اچھا کام کر رہے تھے جنہیں چند ماہ قبل ہی ایڈیشنل سیکرٹری سے سیکرٹری بنایا گیا تھا کی معاون خصوصی صحت سے نہ بننے کی بنا پر گھر بھیج دیا گیا اور چند دنوں کے لیے ایڈیشنل سیکرٹری کو چارج دیا گیا لیکن یہ بات بھی خاصی معنی خیز ہے کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ ہفتے تعینات کئے گئے ڈاکٹر توقیر شاہ کو چارج لینے کے ایک ہفتے کے اندر ہی عہدے سے ہٹا کر او ایس ڈی بنا دیا ۔اب ڈاکٹر تنویر قریشی کو چارج دیا گیا ہے ڈاکٹر توقیر کا قصور یہ ہے کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے پرنسپل سیکرٹری تھے، ان کی تقرری پر ڈاکٹر طاہر القادری نے شدید احتجاج کیا جس پر انہیںتبدیل کر دیا گیا۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ کرونا وائرس جیسے سنگین مسئلے پر بھی سیاست ہو رہی ہے ۔ ڈاکٹر توقیر سرکاری ملازم ہیں تو کیا اس وقت شہبازشریف کے ساتھ کام کرنے والے تمام بیوروکریٹس کو سیاسی دباو ٔپر او ایس ڈی بنا دینا چاہیے ۔اگر وہ جیسا کہ ان کی شہرت کہ اپنا کام جانتے ہیں تو ان کی اہلیت اور تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا ۔ واضح رہے کہ وزیراعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ارباب شہزاد کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ڈاکٹر توقیر کی تقرری کی سفارش کی تھی۔ ان کی مدت برائے سیکرٹری صحت کے دوران انہیں اس حوالے سے جو بریفنگ اور معلومات فراہم کی گئی ہونگی وہ اب ضائع چلی گئی ہیں ۔ ایک طرف گلہ کیا جاتا ہے کہ بیورو کریسی تعاون نہیں کرتی لیکن دوسری طرف ان کے ساتھ ڈھورڈنگڑوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ۔مغرب جیسے ترقی یافتہ معاشروں میں کرونا وائرس پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر نہ صرف شہروں کے شہر بند کر دیئے گئے ہیں بلکہ امریکہ میں بہت سے تعلیمی اداروں کو تالے لگ گئے ہیں ۔عوام کو اس وائرس سے نبٹنے، احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جا رہا ہے لیکن یہاںہم خواب خرگوش میں مبتلا ہیں نہ تو عوام کو اس بڑھتے ہوئے بلکہ یقینی خطرے سے نبرد آزما ہونے کے حوالے احتیاطی تدابیر سے آگاہ کیا جا رہا ہے اور نہ ہی حکومت کے روزمرہ کے معاملات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان قر یباً ہر روز ایک نئی تقریب میں نئے منصوبوں کے افتتاح کرتے نظر آتے ہیں ۔بدھ کو انہوں نے اسلام آباد میں بیس ہزار ہاؤسنگ یونٹس کے سات پراجیکٹس کا سنگ بنیاد رکھا ۔اس حوالے سے نیا پاکستان ہاؤسنگ سوسائٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔اس سے پہلے ہیلتھ کارڈ ،احساس کفالت، احساس جیسے پروگرامز کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے وزیراعظم کی کاوشوں کو سراہنا چاہیے لیکن اس وقت ملک کی اقتصادی صورتحال اور کرونا وائرس کی وجہ سے اس کے مزید ابتر ہونے کے خدشات کے پیش نظر اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنی سربراہی میں کورونا وائرس کے حوالے سے صحافیوں کو آن بورڈ لیا۔ حکومت سندھ بھی اس ضمن میں خاصی فعال نظر آتی ہے ،سندھ کابینہ نے حفظ ماتقدم کے طور پر تمام تعلیمی اداروں میں تین ماہ کی چھٹیاں کر دی ہیں جبکہ کراچی میں پی ایس ایل کے میچز کیلئے شائقین پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ لیکن وفاقی سطح پر زیادہ فعالیت نظر نہیں آ رہی ۔ایسا لگتا ہے کہ وفاق اور صوبوںمیں ان معاملات پر پوری طرح تال میل نہیں ہے ۔کرو نا وائرس کی روک تھام اور حفاظتی تدابیر کے بارے میں میڈیا خاصا مثبت رول ادا کر سکتا ہے ۔لیکن میڈیا بھی اپنے جھمیلوں میں پھنسا ہوا ہے ۔حکومت کو اس حوالے سے پبلسٹی مہم تیار کرنی چاہیے وہ بھی کہیں نظر نہیں آ رہی۔ خدانخوا ستہ اگر جرمن چانسلر کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی تو خدشہ ہے کہ پاکستان بھی اس سے نہیں بچ سکے گا لہٰذا مناسب پیش بندی‘ منصوبہ بندی اور سیاست سے بالاتر ہو کر حکمت عملی بنانی چاہیے ۔