الخدمت سمیت درجنوں رفاہی اور سماجی تنظیمیں میدان عمل میں ہیں ۔ لوگ اپنی بساط کے مطابق بروئے کار آ رہے ہیں۔ کہیں ماسک مفت تقسیم ہو رہے ہیں کہیں کھانا بانٹا جا رہا ہے۔ کہیں مہینے بھر کے راشن کی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں اور کہیں اس راشن کو گھر گھر پہنچانے کے لیے رضاکاروں کا اندراج ہو رہا ہے۔ خیر اور ہمدردی کے یہ مناظر دیکھ کر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ابتلاء کے دنوں میں وہ اہل ثروت کہاں ہیںہر الیکشن میں جو عوام کے غم میں دبلے ہوئے پھرتے تھے۔ یہ کردار کے غازی ، بے داغ ماضی ، نہ بکنے والے ، نہ جھکنے والے ، ہمارے ووٹ کے جائز حقدار ، نیک ، پاک ، سچے ، ایماندار ، انسان دوست اور مبینہ طور پر آرٹیکل باسٹھ تریسٹھ کی محیر العقول شرائط پر بیک وقت پورا اترنے والے یہ غریب پرور کہاں چلے گئے ہیں؟ ان کی تجوریوں کو کرونا وائرس ہو گیا ہے یا ان کے اے ٹی ایم کسی نے قرنطینہ میں لے جا کر بند کر دیے ہیں؟ لاک ڈائون کا رسمی اعلان ہو یا نہ ہو، عملا ملک میں لاک ڈائون ہو چکا ہے۔ دیہاڑی دار مزدوروں کے جن مسائل کے ڈر سے لاک ڈائون کی مخالفت کی جا رہی تھی ، وہ مسائل لاک ڈائون کے بغیر بھی غریب کو لاحق ہو چکے ہیں۔ مزدور سڑک پر بیٹھے ہیں کوئی کام نہیں مل رہا، ٹیکسی ڈرائیور انتظار کر رہے ہیں لیکن سواری میسر نہیں ہے ، دیہاڑی دار کو سڑک پر آنے کی تو آزادی ہے لیکن اس کی معیشت عملی طور پر اسی صورت حال سے دوچار ہو چکی ہے جس کا لاک دائون کے دنوں میں ڈر تھا۔ ملک ابتلاء میں ہے اور لوگ انفرادی طور پر اپنا کردار نبھا رہے ہیں۔ اس ملک میں اخلاقی زوال کے اس موسم میں بھی اہل خیر کی کثرت ہے۔ آج راولپنڈی میں ماسک لینے گیا ہوں تو کمرشل مارکیٹ کے کنارے مری روڈ پر واقع جنت فارمیسی والوں نے پیسے لینے سے انکار کر دیا ۔ وہ ہر آنے والے کو ماسک مفت فراہم کر رہے ہیں۔ اسلام آباد میں پارک روڈ پر پنجاب کیش اینڈ کیری نے بڑا سا بینر لکھ کر لگا رکھا ہے کہ پریشان ہو کر ذخیرہ اندوزی نہ کریں ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں اشیائے ضرورت آپ کو ملتی رہیں گی اور پرانی قیمتوں پر ملتی رہیں گی۔جی نائن میں ایک صاحب کو میں نے دیکھا موٹر سائیکل پر رکھ کر وہ دیگ لائے اور مزدوری کی تلاش میں پریشاں حال لوگوں میں انہوں نے چاول تقسیم کیے۔ ایسی کئی مثالیں آپ کے ارد گرد بھی ہوں گی۔ یہ بے لوث لوگ ہیں، میں بھی عام حالات میں ان کی شناخت ظاہر نہ کرتا لیکن اس ماحول میں اہل خیر کے لیے ہمارے پاس حرف تحسین کے علاوہ اور ہے ہی کیا؟ اس ملک میںقومی اسمبلی کے 342 اراکین ہیں۔ ان کے غالب اکثریت کے پاس غیر معمولی دولت ہے اور یہ اپنی دولت ہی کے بل بوتے پر الیکشن جیت کر قومی اسمبلی میں تشریف لاتے ہیں۔ہر حلقے میں الیکشن میں اوسطا تین امیدوار دولت کے لحاظ سے برابر ہوتے ہیں۔ یعنی یہ قریبا ایک ہزار لوگ ہو گئے۔ ان ایک ہزار میں سے ہر آدمی یہ استطاعت رکھتا ہے کہ اس موقع پر غریب لوگوں کی مدد کر سکے۔ پھر سینیٹرز ہیں۔ ایم پی ایز ہیں ۔ ضلعی حکومتوں کے اکثر اراکین بھی اچھی خاصی دولت رکھتے ہیں۔ یہ سب لوگ کہاں ہیں؟ اراکین پارلیمان کے اللے تللے ہمیشہ اس قوم نے اپنی لہو سے لہو نچوڑ کر پورے کیے۔ان کی تنخواہیں ہیں ، درجنوں الائنس ہیں، ایسے ایسی مد میں یہ مال بٹورتے ہیں کہ آدمی پڑھے تو سر پیٹ لے، یہ سابق رکن پارلیمان بھی ہو جائین تو ان کی مراعات کا بہتا دریا خشک نہیں ہوتا، یہ اجلاس بھگتانے آئیں تو اجلاس سے تین دن پہلے اور تین دن کی مراعات اور الائونس بھی انہیں حاضر تصور کر کے پیش کیے جاتے ہیں، ان کا استحقاق بھی مزاج یار کی طرح قدم قدم پر مجروح ہو جاتا ہے، یہ دس منٹ اجلاس کر کے اسے غیر سنجیدگی اور غیر حاضری کی وجہ سے ملتوی کر دیں تو یہ دس منٹ اس قوم کو چار سو لاکھ میں پڑتے ہیں۔آج قوم مصیبت میں ہے اور ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ سوال یہ ہے یہ نابغے، اس قوم کے یہ نمائندے کہاں ہیں؟ عوام کے یہ خادم ، یہ کردار کے غازی ، یہ بے داغ ماضی الیکشن کے دنوں میں تو حاتم طائی بنے ہوتے ہیں ، بینرز اور جھنڈوں سے کئی کلومیٹر طویل راستے سجا دیے جاتے ہیں۔ ان کرادر کے غازیوں سے کوئی پوچھے اب تمہیں کیا ہو گیا کہ چھ چھ انچ کے ماسک بنا کر خلق خدا میں بانٹنے کی توفیق سے بھی محروم ہو گئے ہو۔قائد محترم کو عمرے پر لے جانا ہو تو یہ طیارے چارٹرڈ کر لیتے ہیں ، ان کی خوشنودی کے لیے یہ اے ٹی ایم ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں ، اقتدار کی چھتر چھایا میں ان کے کاروبار دگنی نہیں دو سو دگنی ترقی کر جاتے ہیں لیکن آج عوام کو ضرورت پڑی ہے تو ان کا کوئی سراغ نہیں مل رہا۔ انتخابات کے دنوں میں ان کے لنگر خانوں میں کھانے ختم نہیں ہوتے، کردار کے بعض غازی ، بے داغ ماضی سینیٹ کی سیٹ کے حصول کے لیے تجوری کی تجوری انڈیل دینے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔آج عام آدمی کے گھر کا چولہا بجھنے کا ڈر پیدا ہو رہا ہے تو باستح تریسٹھ پر پورا اترنے والے یہ نایاب رجال کار منظر سے ہی غائب ہیں۔میدان عمل میں کون ہے؟جماعت اسلامی ، جسے کسی نے ووٹ دینا نہیں اور وہ سماجی تنظیمیں جنہوں نے کسی سے ووٹ مانگنا نہیں۔سوال یہ ہے کہ عوام کے یہ منتخب نمائندے ، یہ کردار کے غازی ، یہ بے داغ ماضی ، یہ ہمارے ووٹ کے جائز حقدار کہاں ہی؟ ان عظیم غریب دوست ہستیوں کو آسمان کھا گیا یا زمین نگل گئی؟ آج آپ الیکشن کا اعلان کر دیں ، آپ کہہ دیں ملک سے کرونا کی وبا ختم ہوتے ہی عام انتخابات ہوں گے پھر دیکھیے گلی کوچے کا منظر کیا ہوتا ہے۔کردار کے غازی اور بے داغ ماضی گلی گلی آپ کی خدمت کو موجود ہوں گے۔ جمہوریت کا احترام مجھے روک رہا ہے ورنہ میں لکھتا کہ کیا یہ رویہ اور یہ بے گانگی بھی کسی کرونا سے کم ہے؟