یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پوری دنیا کرونا وائرس کی تباہ کاری سے پریشان ہے ۔ امریکہ ، روس، چین بھارت اور دنیا کی دیگر بڑی طاقتوں کو کرونا وائرس نے ہلاکر رکھ دیا ہے ۔ ہم اپنے ملک پاکستان کو دیکھتے ہیں تو 22کروڑ انسانوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں ۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی طرف سے کرونا وائرس کے خلاف جنگ کے اعلان ہو رہے ہیں۔ جنگ ہمیشہ دشمن کے خلاف کی جاتی ہے ۔ دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں جو کرونا وائرس کو اچھا جان رہا ہو ۔ سب کرونا وائرس کو بد دُعائیں دے رہے ہیں اور اس کے خلاف جنگ کرنے کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں مگر اربوں انسانوں میں سے چند ایک ایسے بھی ہیں جو مختلف سوچ رکھتے ہیں ان کی سوچ کا پیمانہ اپنا ہے مجھے ریلوے افسر چودھری عتیق الرحمن جو میرے دوست بھی ہیں نے سوشل میڈیا کی ایک تحریر بھیجی ہے جس میںایک سکالر نے کرونا وائرس کی تعریف کی ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ سوچ کا اپنا اپنا زاویہ نگاہ ہے ۔ تحریر آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں آپ اِسے چشمِ قلب سے پڑھیے اور پھر اپنی رائے قائم کیجئے کہ کرونا کے بارے میں ایک سکالر کا نقطہ نظر کیسا ہے ؟ ایک سکالر کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس پر لعنت مت بھیجو، کیوںکہ اس نے انسان کو انسانیت اور خالق کی حقانیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ وہ اپنے اسی دعویٰ کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہتے ہیں۔ کیا پوری دنیا میں تمام عیش و طرب کے مراکز بند نہیں ہو گئے؟ سینما گھر، نائٹ کلب، شراب خانے، جوا خانے اور ریڈایریا بند نہیں ہیں کیا؟ کیا خاندانوں کو ایک طویل جدائی کے بعد ان کے گھروں میں دوبارہ اکٹھا ہونے کا موقع نہیں دیا کیا؟ کیا اس نے غیر مرد اور غیر عورت کو ایک دوسرے کا بوسہ لینے سے نہیں روکا؟ کیا اس نے عالمی ادارہ صحت کو اس بات کے اعتراف پر مجبور نہیں کیا کہ شراب پینا تباہی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے؟ کیا اس نے صحت کے تمام اداروں کو یہ بات کہنے پر مجبور نہیں کیا کہ درندے، شکاری پرندے، خون، مردار اور مریض جانور صحت کے لیے تباہ کن ہیں؟ کیا اس نے انسان کو نہیں سکھایا کہ چھینکنے کا طریقہ کیا ہے، صفائی کس طرح کی جاتی ہے جو ہمیں ہمارے رسول ﷺ نے آج سے 1450 سال پہلے بتایا تھا؟ وہ لکھتے ہیں کیا اس نے فوجی بجٹ کا ایک تہائی حصہ صحت کی طرف منتقل نہیں کیا؟ کیا اس نے دونوں جنسوں کے اختلاط کو مذموم قرار نہیں کر دیا؟ کیا اس نے دنیا کے فرعون حکمرانوں کو بتا نہیں دیا کہ لوگوں کو گھروں میں پابند کرنے، جبری بٹھانے اور ان کی آزادی چھین لینے کا مطلب ہوتا کیا ہے؟ کیا اس نے لوگوں کو اللہ سے دعا مانگنے گریہ وزاری کرنے اور استغفار کرنے پر مجبور اور منکرات اور گناہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں کیا؟ کیا اس نے متکبرین کے کبر و غرور کا سرپھوڑ نہیں دیا اور انہیں عام انسانوں کی طرح لباس نہیں پہنایا؟ کیا اس نے دنیا میں کارخانوں کی زہریلی گیس اور دیگر آلودگیوں کو کم کرنے کی طرف متوجہ نہیں کیا؟ جن آلودگیوں نے باغات، جنگلات، دریا اور سمندروں کو گندہ کیا ہوا ہے۔ کیا اس نے ٹیکنالوجی کو ربّ ماننے والوں کو دوبارہ حقیقی ربّ کی طرف متوجہ نہیں کیا؟ کیا اس نے حکمرانوں کو جیلوں اور قیدیوں کی حالت ٹھیک کرنے پر آمادہ نہیں کیا؟ اور اس کا سب سے بڑا کارنامہ کیا یہ نہیں ہے کہ اس نے انسانوں کو اللہ کی وحدانیت کی طرف متوجہ کیا، شرک اور غیر اللہ سے مدد مانگنے سے منع نہیں کیا؟ آج عملی طور پر یہ بات واضح ہو گئی کہ کس طرح بظاہر ایک وائرس لیکن حقیقت میں اللہ کا ادنا سپاہی انسانیت کے لیے شر کے بجائے خیر کا باعث بن گیا۔ تو اے لوگو! کرونا وائرس پر لعنت مت بھیجو یہ تمہارے خیر کے لیے آیا ہے کہ اب انسانیت اس طرح نہ ہو گی جس طرح پہلے تھی، آج دنیا جس کرب سے گزر رہی ہے، نظرنہ آنے والا ایک وائرس پوری دنیا کے لیے تھرٹ بنا ہوا ہے۔ شخصی آزادی جسمانی آزادی، میرا جسم میری مرضی، مائی باڈی مائی چائس اور بڑے بڑے فرعون نما انسانوں کی اصلیت کھول کر نہیں رکھ دی۔ 1995ء میں ہمارے ایک دوست نے مذاق میں کہا تھا کہ اللہ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، میں نے حیران ہو کر پوچھا وہ کیوں؟ انہوں نے کہا وہ ربّ ہے وہ خود ڈرا لے گا۔ ڈرنے کی بات انسانوں کے شیطانی کردار ہے۔ آج وہ بات بالکل سچ ثابت ہو رہی ہے پوری دنیا ایک چھوٹے سے بظاہر نظر نہ آنے والے وائرس کا بری طرح شکار ہے۔ سب کچھ کھا جانے والے چائنیز کے گھر سے شروع ہونے والا یہ وائرس وہاں اتنا نقصان نہیں کر سکا جتنا کر سکتا تھا وجہ وہاں انسان نے انسان کو پابند کر دیا مگر اٹلی چھوٹا تھا مگر وہاں کے لوگ مادر پدر آزاد تھے سب کچھ ہونے کے باوجود اٹلی کے وزیر اعظم کا یہ بیان کہ زمینی طاقت اور وسائل اس کرونا کی آفت پر قابو پانے سے قاصر ہیں اس لیے آسمان سے مدد کی ضرورت ہے۔ کیا امریکہ کا غرور خاک میں نہیں مل گیا؟ انسانیت کا قاتل مودی کس طرح تڑپ رہا ہے؟ کیا یہ بات اس سکالر کے دعویٰ کا ثبوت نہیں، اللہ سب محفوظ رکھے اس وباء سے مگر جو اس وباء میں مارے جائیں گے یا مرے گئے ہیں اسلامی روح سے وہ شہید ہیں مگر احتیاط لازم ہے، احتیاط نہ کرنا خودکشی اور خودکشی حرام ہے۔ ہر بات کے دو رخ ہیں وہ لوگ یقینا بڑے لوگ ہوتے ہیں جو منفی بات سے بھی مثبت پہلو نکال لیتے ہیں۔ کرونا وائرس کے حوالے سے یہ تحریر بھی کسی زاویہ نگاہ سے ہے خدانخواستہ سوشل میڈیا پر یہ تحریر چھوڑنے والے کا مقصد کرونا وائرس کو خراج تحسین پیش کرنا نہیں بلکہ اس بات کا احساس دلانا ہے کہ انسان اپنے گناہوں سے توبہ کرے اور اپنے خالق حقیقی کی طرف رجوع کے بارے میں سوچے۔ ٭٭٭٭٭