وزیر اعظم عمران خان نے کرونا وائرس کے منفی اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے خصوصی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ کمیٹی معیشت کو وائرس کے نقصان دہ اثرات سے بچانے کی تدابیر کرے گی۔ وزیر اعظم نے کہا ہے کہ معاشی سرگرمیوں کی بلا تعطل روانی یقینی بنانا اور عام آدمی کے روزگار کے مواقع کھلے رکھنا حکومت کی ترجیح ہے۔ معاشی صورت حال کو عوامی ضروریات کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ اشیائے خورونوش کی دستیابی یقینی بنائی جائے، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے دنیا کے درجنوں ممالک میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ دنیا بھر کے بینکوں اور مالیاتی اداروں نے بڑے نقصان کے بعد اپنے سالانہ اہداف پر نظرثانی کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ سٹاک مارکیٹوں سے سرمایہ کار نکل رہے ہیں جس سے سرمایہ کاری کا حجم سکڑ رہا ہے۔ یہ صورت حال عالمی برادری کے لیے تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ معاشی حوالے سے کرونا وائرس کا پھیلائو اہم نہیں بلکہ اس کے انسداد کے لیے اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات ہیں۔ شہروں اور علاقوں کو لاک ڈائون کرنے سے تجارتی اور تفریحی سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں۔ انسانی اجتماعات پر پابندی کی وجہ سے کاروباری مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔ ان اقدامات کے باعث لوگوں میں بدحواسی پھیل رہی ہے۔ مغربی ممالک میں یہ بدحواسی اس درجے کو چا پہنچی ہے کہ صارفین صابن، ٹائلٹ پیپر اور خوراک کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑ رہے ہیں۔ کرونا وائرس نے دنیا کی معیشت کو خطرناک حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ کرونا کی وجہ سے چین کی شرح نمو میں واضح کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ رواں برس چینی جی ڈی پی 4.9فیصد تک رہنے کا امکان ہے۔ قبل ازیں یہ شرح 5.7فیصد کی سطح پر تھی۔ اسی طرح بین الاقوامی معیشت کی شرح نمو میں کمی کے باعث اس سال کا تخمینہ 2.9فیصد لگایا جا رہا ہے۔ جن ممالک کے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات تھے وہ بھی کرونا کے منفی اثرات سے متاثر ہوئے ہیں۔ ویتنام،سنگا پور اور جنوبی کوریا کا ذکر خاص طور پر کیا جا سکتا ہے۔ پیداوار کی طرح خدمات کا شعبہ بھی اس صورت حال سے متاثر ہوا ہے۔ امریکہ دنیا میں سروسز کی سب سے بڑی صارف منڈی ہے۔ امریکہ میں کرونا وائرس کی اطلاعات کے بعد بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آ رہی ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ یہ قیمتیں گزشتہ دو عشروں میں سب سے نچلی سطح تک پہنچنے والی ہیں۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک کی مشکل یہ ہے کہ اس وقت مارکیٹ میں تیل کی دستیاب مقدار طلب کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ چین کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، چین چونکہ خام تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اس لیے تیل کی کھپت نہ ہونے سے قیمتیں گرنے لگی ہیں۔ پیداواری اور خدمات کے شعبوں کی طرح سٹاک مارکیٹیں بھی بحران سے دوچار ہیں۔پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں کئی بار کاروبار کو وقفہ دیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یو این کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ نے پاکستان کو دنیا کی ان 20معیشتوں میں شامل کیا ہے جو چین میں پھوٹنے والے کرونا مرض سے متاثر ہو رہے ہیں۔ چین پاکستان سے ٹیکسٹائل اور اپیرل خریدتا ہے۔ چین کی جانب سے خریداری میں تعطل کی وجہ سے پاکستان کو 44ملین ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ جو ملک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں ان میں یورپی یونین، امریکہ، تائیوان، برطانیہ، جاپان، جنوبی کوریا، ویتنام، میکسیکو، سوئٹزر لینڈ، ملائیشیا اور تھائی لینڈ شامل ہیں۔ عالمی سطح پر گلوبل چین متاثر ہونے سے 50ارب ڈالر کی برآمدات خطرے میں ہیں۔ گزشتہ ماہ جب کرونا وائرس کی اطلاعات ابھی ابتدائی مرحلے میں تھیں تو پاکستانی حکام کہتے رہے ہیں کہ اس کی وجہ سے پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک منصوبوں پر اس کے اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ فروری 2020ء میں ہی عالمی مالیاتی فنڈ کا وفد پاکستان آیا۔ وفد نے مالیاتی اصلاحات کے منصوبوں پر پاکستانی حکام سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر آئی ایم ایف حکام نے خدشہ ظاہر کیا کہ کرونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی شرح نمو پہلے سے بھی کم سطح پر جا سکتی ہے۔ پاکستان چین کو 937ملین ڈالر کی مصنوعات برآمد کرتا ہے جبکہ چین سے درآمدات کا حجم 4.9ارب ڈالر ہے۔ کرونا کے خاتمے کے لیے چین کی کاوشیں مؤثر ثابت ہو رہی ہیں، اسرائیلی، آسٹریلوی، امریکی اور چینی کمپنیاں کرونا کی ویکسین دریافت کرنے کا دعویٰ کر رہی ہیں۔ یہ ویکسین جانوروں پر آزمانے کے بعد اب انسانوں پر آزمائی جا رہی ہیں۔ پاکستان کی معاشی بحالی کا انحصار اس امر پر ہے کہ وہ کتنی جلد کرونا وائرس کو غیر مؤثر بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ بعض معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ برآمدی آرڈر منسوخ یا ملتوی ہونے کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں تمام ممالک کا پیداواری شعبہ متاثر ہوا ہے تا ہم محدود سہی ایسے مواقع پاکستان کے پاس موجود ہیں جن کے ذریعے چین کی کمپنیوں کے منسوخ آرڈر پاکستان کو مل سکتے ہیں۔ حکومت کرونا وائرس کے انسداد کی منصوبہ بندی کو بہتر بنانے، حفاظتی انتظامات کو برق رفتاری سے نافذ کرنے اور معیشت پر اس کے منفی اثرات کا درست تجزیہ کرنے کے قابل ہو گئی تو نقصانات کو خاطر خواہ حد تک کم رکھا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے تو ایک انٹرویو میں عالمی اداروں سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان اور دوسرے غریب ممالک کی معیشت کرونا کا بوجھ اٹھانے سے قاصر ہے۔ اس صورت حال میں ان ممالک کے ذمہ قرضوں کو معاف کر دیا جائے۔ وزیر اعظم کا یہ صائب مشورہ ہے جس میں زور پیدا کرنے کے لیے دیگر مقروض ممالک کو ساتھ ملانے کی ضرورت ہے۔