اللہ تعالی کے آخری پیغمبررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل ہوئی اللہ کی آخری کتاب ’’قرآن مجید‘‘کی تعلیمات میں چھوٹے چھوٹے عذاب وآفات سے بچنے کے لئے ہمارے لئے بڑاسامان موجودہے مگرہم غوروفکرکریں توسہی۔ہم نے قرآن میں بتائے گئے گذشتہ اقوام کے ساتھ پیش آئے واقعات کومحض داستان سمجھ رکھاہے توایسے میں عبرت کہاں سے پکڑیں۔ غورکریں کہ کروناوائرس کی تباہ کاریاں مسلمانوں کے بجائے مغرب کی غیرمسلم عوام پرزیاد ہ کیوںسوال یہ ہے کہ کیاحضرت موسی علیہ السلام کی مسلسل نافرمانی کے بعد اللہ تعالی نے ’’قوم فرعون‘‘ فرعونیوں، قبطیوںپر لگاتار جوپانچ عذاب مسلط کردیئے آج مشرق سے مغرب تک کروناوائرس کی تباہ کاریوں کی کیاان عذابوں میں سے کسی ایک عذاب کے ساتھ کوئی مماثلت ہے۔واضح رہے کہ قوم فرعون قبطی کہلاتے تھے جبکہ موسی پرایمان لانے والے بنی اسرائیل کے’’اہل ایمان ‘‘کہلاتے تھے۔ فرعونیوں یعنی قبطیوں کواللہ کی نافرمانیوں سے باز آنے کے لئے انہیں پانچوں عذاب کا شکاربنادیاگیااوران عذابوں کودیکھ کربھی جب وہ قطعی طورپرنہ سنبھل سکے توپھرفرعون کے ساتھ غرق کردیئے گئے ۔ ’’قوم فرعون‘‘فرعونیوںقبطیوں پرجوپانچ عذاب مسلط ہوئے ان میںپہلاعذاب ’’طوفان‘‘ تھاناگہاں ایک ابر آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ پھر انتہائی زوردار بارش ہونے لگی۔ یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں تک آگیا۔ ان میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ طوفانی بارشوں کے عذاب کے باعث وہ باہم نہ ہل سکتے تھے نہ کوئی کام کر سکتے ، ان کی کھتیاں اور باغات طوفان کے دھاروں سے برباد ہو گئے۔ دوئم 2۔والجراد’’ ٹڈی دل‘‘ایک ماہ تک تو فرعونی نہایت عافیت سے رہے لیکن جب ان کا کفر و تکبر اور ظلم وستم پھر بڑھنے لگا تو اللہ تعالی نے اپنے قہر و عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا کہ چاروں طرف سے ٹڈی دل کے بادل جھنڈ کے جھنڈ آگئے ۔جو ان کی کھیتوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیوں تک کو کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں یہ ٹڈیاں بھر گئیں جس سے ان کا سانس لینا مشکل ہو گیا ۔چنانچہ آپ کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب بھی ٹل گیا اور یہ لوگ پھر ایک ماہ تک نہایت ہی آرام و راحت میں رہے لیکن پھر عہد شکن کی اور ایمان نہیں لائے اور پھر ان لوگوں کے کفر اور عصیاں و طغیان میں اضافہ ہونے لگا اور حضرت موسی اور مومنین کو ایذائیں دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہماری جو کھیتیاں اور پھل بچ گئے ہیں وہ ہمارے لئے کافی ہیں لہذا ہم اپنا دین چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے۔ سوئم قمل ’’گھن‘‘غرض ایک ماہ کے بعد پھر ان لوگوں پر قمل کا عذاب مسلط ہو گیا۔ بعض مفسرین کا بیان ہے کہ وہ گھن تھا جو ان فرعونیوں کے اناجوں اور پھلوں میں لگ کر تمام غلوں اور میووں کو کھا گئے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا جو کھیتوں کی تیار فصلوں کو چٹ کر گیا اور ان کے کپڑوں میں گھس کر ان کے چمڑوں کو کاٹ کر انہیں مرغ بسمل کی طرح تڑپانے لگا۔ یہاں تک کہ ان کے سر کے بالوں داڑھی مونچھوں بھنووں پلکوں کو چاٹ چاٹ کر اور چہروں کو کاٹ کاٹ کر انہیں چیچک رو بنا دیا۔ یہ کیڑے ان کے کھانوں پانیوں اور برتنوں میں گھسے پڑے تھے جس سے وہ لوگ نہ کچھ کھا سکتے تھے نہ کچھ پی سکتے تھے۔ نہ لمحہ بھر کیلئے سو سکتے تھے یہاں تک کہ ایک ہفتہ میں اس قہر آسمانی و بلا ئے ناگہانی سے بلبلا کر یہ لوگ چیخ پڑے اور پھر حضرت موسی علیہ السلام کے حضور حاضر ہوکر دعا کی ، درخواست کرنے لگے اور ایمان لانے کا عہد و بچن دینے لگے۔ چنانچہ آپ نے ان لوگوں کی بے قراری اور گریہ و زاری پر رحم کھا کر دعا کر دی اور یہ عذاب بھی رفع دفع ہو گیا لیکن فرعونیوں نے پھر اپنے عہد کو توڑ ڈالا اور پہلے سے بھی زیادہ ظلم وعدوان پر کمر بستہ ہو گئے پھر ایک ماہ بعد ان لوگوں پر مینڈک کا عذاب نازل ہو گیا۔یہ چیچڑیاں تمام قبطیوں کے خون کو چوس گئیں۔ سارے جسم میں، آنکھوں کی پلکوں میں لپٹ گئیں۔ لیکن کوئی چیچڑی قوم موسی کے اہل ایمان کے پاس نہیں جاتی تھی۔ اہلِ ایمان بالکل امن میں تھے۔ چہارم جوئیں۔ضفادع ’’مینڈک ‘‘ نازل ہوئے جو قبطیوں کے گھروں میں گھس گئے۔پھر اس کے بعد قبطیوں میں خون کا عذاب نازل ہوا۔ اور دریائے نیل جس کا اہلِ مصر پانی پیتے تھے وہ سارے کا سارا قبطیوں کے لیے نہایت بدبودار کالا خون ہوگیا۔ سارے کنویں خون کے ہوگئے۔ قبطیوں کے پانی کے برتن اور مٹکے نرے خون سے بھر گئے۔ اسی پانی کو مسلمان پیتے اور بھرتے ہیں۔ ان کے لیے وہ پانی نہایت شیریں صاف اور سفید ہے۔ دو خاصیتیں ایک پانی میں۔ اگر کسی کنویں پر مسلمان اور کافر پانی بھرتے تھے تو کافر کے ڈول میں کالا خون اور مسلمان کے ڈول میں صاف پانی آتا تھا۔ ایک دن فرعون نے ایک قبطی کافر اور ایک مسلمان اسرائیلی کو اپنے سامنے دربار میں بلایا اور ایک برتن میں پانی بھروایا اور حکم دیا کہ دونوں اس میں سے اپنے اپنے چلو میں اٹھا کر پیو۔ جو چلو موسی علیہ السلام، پرایمان لائے اٹھاتا، وہ پانی تھا اور جو کافر اٹھاتا وہ خون تھا۔ پھر فرعون نے حکم دیا کہ تم دونوں اسی برتن سے منہ لگا کر پیو۔ کافر و مسلمان دونوں اس برتن پر جھک گئے۔ ایک طرف پانی، دوسری طرف خون ہے۔ جو پانی کافر اپنے منہ میں کھینچ رہا ہے وہ خون ہے اور جو موسی علیہ السلام پرایمان لانے والے کی طرف کھنچ رہا ہے وہ شیریں اور خوشبودار پانی ہے۔ پھر فرعون نے حکم دیا کہ اے اسرائیلی تو اپنے منہ میں پانی بھر کر وہ کلی قبطی کے منہ میں ڈال۔ مسلمان نے اپنے منہ میں پانی لیا پھر منہ کی کلی قبطی کے منہ میں ڈالی۔ قبطی کے منہ کے قریب پہنچتے ہی خون ہوگیا۔ اِدھر پانی ادھر خون۔لیکن ان عذابوں کے شکارہونے کے باوجود وہ موسی علیہ السلام کی تکذیب کرتے رہے اورفرعون کے ساتھ ہی جڑے رہے یہاں تک آخری چارہ کارکے طورپرانہیں فرعون کے ساتھ دریا بردکرکے ہلاک کردیاگیااورپانی نے باذن اللہ فرعون کی لاش کو باہرپھینک دیااوراس طرح اللہ نے فرعون کی لاش کوقیامت تک نشان عبرت بنادیااوراللہ کے عذاب سے عبرت پکڑنے کے لئے جوقیامت تک مصرکے عجائب گھرمیں موجودرہے گی۔