پوری دنیا کورونا وبا کے جس عذاب سے گزر رہی ہے وہ ایک جنگ ِعظیم سے کم نہیں۔چین سے شروع ہونے والی یہ جنگ دنیا کے ایک سو اسّی سے زیادہ ملکوں میں بیک وقت لڑی جارہی ہے۔یورپ کے امیر ملکوں کا حال پاکستان ایسے کم آمدن والے ملک سے بھی زیادہ خراب ہے۔ اٹلی اور اسپین ایسے ترقی یافتہ ملکوں میں سینکڑوں لوگ روزانہ موت کے منہ میںجا رہے ہیں‘ ہزاروںلوگ اس وبائی مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ امریکہ کے شہروں میں وبا پھیلتی جارہی ہے۔چند روز پہلے تک ایک ہزار سے زیادہ امریکیوں کو یہ مرض لاحق ہوچکا تھا‘ اکتیس امریکی کورونا کے باعث مر چکے تھے۔ سوائے لوگوں کی نقل و حرکت‘ میل جول محدود کرکے اس وبا کو تیزی سے پھیلنے سے روکنے کے سوا کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے نام نہاد سپر پاور کے پاس کوئی ہتھیار نہیں۔ کورونا کی وبا نے ملکوں اور دنیا کے سیاسی اور معاشی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکی عوام کے دفاع اور سلامتی کے نام پر تشکیل دی گئی فوجی طاقت‘کوئی جدید ترین ہتھیار کورونا سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔ کوئی میزائل‘ کوئی ففتھ جنریشن جنگی طیارہ‘کوئی ڈرون امریکی عوام کی سلامتی کا ضامن نہیں بن سکتا۔اس سال پوری دنیا کا مجموعی فوجی بجٹ تقریباً دو ہزار ارب ڈالر ہے یعنی پاکستان کی تمام قومی دولت کا تقریباً سات گُنا۔ اگر چند عشروں میں دنیا کے فوجی اخراجات کو جمع کرلیں تو کھربوں ڈالر ہتھیاروں اور جنگ و جدل پر خرچ ہوچکے۔ ریاستوں پر قابض حکمران اشرافیہ نے اپنے اپنے ملکوں میں سلامتی اورد فاع کے ایسے تصورات کی ترویج کی ہے جن میں اسلحہ خریدنا ‘ جنگی تیاریاں اور جنگی مشقیں سلامتی کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہیں۔ حالانکہ انسانوں کی سلامتی کو لاحق اصل بڑے خطرات آلودگی ‘ ماحول کی تباہی ‘ میٹھے پانی کی کمی‘ بھوک اور بیماریاں ہیں جن پر فوجی اخراجات کا عشر عشیر بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ انسانوں کے علاج معالجہ کو منافع کے لالچ میں کاروبار کرنے والے نجی ہسپتالوں‘ دوا ساز اداروںاور انشورنس کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاگیا ہے۔ لیکن جب کورونا کی وبا پھوٹی تو یہ پرائیویٹ ہیلتھ نظام ناکام ہوگیا‘ ریاست کو ہی عوام کے علاج معالجہ کے لیے آگے آنا پڑا۔ کئی عشروں سے وائرس وبائی شکل میں انسانی معاشروں کو نشانہ بنا رہے ہیں لیکن اس خطرہ سے مقابلہ کے لیے دنیا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ۔کورونا کے وائرس کے بارے میں ابتدائی تحقیق ہے کہ اس کی ساخت پینگولن میں پائے جانے والے وائرس سے مشابہہ ہے اور اسی جانور سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ پینگولن سخت چھلکوں سے ڈھکی کھال والا ایک جانور ہے جسکا گوشت چین اور مشرق بعید کے ملکوں میں شوق سے کھایا جاتا ہے‘ اسکے چھلکوں سے دوائیں بنائی جاتی ہیں۔ کورونا کی طرح گزشتہ بیس برسوں میںکئی مہلک وائرس جانوروںسے انسانوں میں منتقل ہوئے جنہوں نے تباہی پھیلائی لیکن دنیا کے امیر اور ترقی یافتہ ممالک نے اس معاملہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔دو ہزار تین میںجنوبی چین میں سارس وائرس کی وبا پھوٹ پڑی تھی جسکا ماخذ چمگادڑیں تھیں۔ چھبیس ممالک میں آٹھ ہزار افرادسارس کی وبا کا شکار ہوئے تھے۔ دو ہزار چودہ سے سولہ تک ایبولا وائرس کی وبا نے مغربی افریقہ کے کئی ملکوں کو لپیٹ میں لیے رکھا جس سے گیارہ ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس وائرس کا ماخذ گوریلا اورچمپنزی تھے۔ پاکستان میںمخصوص مچھر سے پھیلنے والی ڈینگی کی وبا ایک مستقل تلوار ہے جو کئی سال سے ہمارے سروں پر لٹکی ہوئی ہے۔ پاکستان میں تو جگر کے ہیپاٹائٹس کی وبا خطرناک حد تک عام ہوچکی ہے لیکن اس کے تدارک کا کوئی بندوبست نظر نہیں آتا۔ اگر ملکوں نے جنگی تیاریوں اور اسلحہ کی فروخت سے مال بنانے کی بجائے وسائل بھوک اور بیماری سے مقابلہ کے لیے مختص کیے ہوتے تو آج دنیا کورونا وائرس کے مقابلہ میں اتنی لاچار نہ ہوتی۔ حال یہ ہے کہ برطانیہ ایسے امیر ملک کا وزیر صحت کہہ رہا ہے کہ اس کے ملک کے پاس کورونا وبا سے نپٹنے کے لیے کافی میڈیکل سامان نہیں ہے۔ اسپین میں دو ہزار سے زیادہ لوگ وبا میں ہلاک ہوچکے ہیں۔ سینکڑوں مریض ہسپتالوں کے برآمدوں میں لیٹے ہوئے ہیں کہ بیڈ کم پڑ گئے ہیں۔ اٹلی کو چین طبی سامان کی امداد فراہم کررہا ہے۔ ہمارا اپنا یہ حال ہے کہ پورے ملک میں صرف اٹھارہ سو وینٹی لیٹر ز ہیں۔ ان میں سے بھی بہت سے خراب پڑے ہیں۔کاروبار زندگی معطل ہوچکا ہے۔ لاکھوں محنت کش بے روزگار ہوچکے ہیں۔حکومت کی مالی حالت ایسی نہیں کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے کورونا کے تشخیصی ٹیسٹ کرواسکے۔ عام آدمی تو دُور کی بات ہے حکومت دو ماہ تک ڈاکٹروں اور نرسوں کو حفاظتی سامان مہیا کرنے کے قابل نہیں تھی۔ کورونا کی وبا کا زورایک دو ماہ تک ہی ٹوٹنے کی توقع ہے لیکن اس پر اچھی طرح قابو پانے میں ایک ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے کیونکہ اسکے تدارک کے لیے جو ویکسین بنا ئی گئی ہے اسکے ٹیسٹ مکمل کرنے میں اتنا عرصہ لگے گا۔ تاہم ایک بات قطعی ہے کہ اس واقعہ کے بعد دنیا ایسی نہیں رہے گی جیسے اس وبا سے پہلے تھی۔دنیا اپنی سمت بدلے گی۔ دنیا بھر میںعوام ابھی تو وبا کی شدت اور اپنی بقا کے پیش نظر سب سختیاں برداشت کررہے ہیں۔ جب طوفان تھمے گا تو وہ اپنے حکمران طبقہ سے حساب کتاب کریں گے۔ سلامتی اور دفاع کاروائتی تصور تبدیل ہوگا۔ بیماریوں سے حفاظت اورنت نئے جرثوموں کے حملوں سے بچاؤ دنیا کے ایجنڈے پر بڑا موضوع ہوگا۔انسانوں کے رہن سہن ‘ طرز زندگی‘ معیشت اورعالمی سیاست پر گہرے اثرات ہونگے۔ ابھی سے نظر آرہا ہے کہ چین دنیا بھر کے ملکوں کو وبا کو قابو میں کرنے کی غرض سے بڑے پیمانے پر امداد فراہم کررہا ہے‘ ایک قائدانہ کردار ادا کررہا ہے جبکہ امریکہ جو دنیا کا لیڈر ہوا کرتا تھا عالمی اسٹیج سے غائب ہے۔