حیران ہوں، پریشان ہوں، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ، کیا کروں؟ دماغ میں جو اتھل پتھل جاری ہے اسے ختم کیسے کیا جائے؟ جو سوالات سر اٹھا رہے ہیں ان کے جواب کس سے حاصل کروں؟ مسلسل ان سوچوں میں غلطاں ہوں کہ کیا یہ وہی وکیل ہیں، کیا یہ وہی وکلاء برادری ہے جو اس ملک میں ڈکٹیٹروں کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں میں ہراول دستہ ہوا کرتی تھی؟ مفاد پرست اور عوام دشمن وکلاء کے کئی گروپ بھی ہماری زندگی میں سامنے آتے رہے ہیں، آمریت کا ساتھ دینے والی بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے وابستہ وکلاء کو بھی بہت دیکھا ہے، لیکن یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ چار دن پہلے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر یلغار کرنے والے وکلاء جتھے کو کس خانے میں فٹ کیا جائے، بے شک وہ سب ایک خاص مائنڈ سیٹ والے لوگ تھے لیکن یہ مخصوص مائنڈ سیٹ کسی نہ کسی حد تک ہر گروپ اور ہر جماعت میں موجود ہوتا ہے، دل کے مریضوں کے اسپتال پر حملہ آور ہونے والے وکیلوں کے بارے میں اب تک یہ تحقیق سامنے نہیں آئی کہ وہ کن نظریات کے لوگ تھے؟ کیا کسی خاص سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے تھے یا اس ہجوم میں دائیں اور بائیں بازو کی سب جماعتوں کے ارکان شریک ہوئے؟ اگر اس حوالے سے کوئی ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ آج تک سانحہ پی آئی سی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو پوری قوم کو ہمیشہ شرمندہ رکھے گا، ہم اس شرمناک سانحہ کے باعث اپنی اگلی نسل کے سامنے آنکھ نہیں اٹھا سکیں گے، یہ بات آسانی کے لئے اس طرح بھی کہی جا سکتی ہے کہ اس ملک میں وکیل ججوں پر بھی بھاری ثابت ہوئے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ دشمن کی فوجیں بھی شہر میں داخل ہو جاتیں تو وہ بھی اسپتال پر یلغار سے پرہیز کرتیں، اور اگر غلطی سے ایسی حرکت کر جاتیں تو پوری دنیا سراپا احتجاج بن جاتی، انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک ایک ملک میں مظاہرے کرتی نظر آتیں، میں اس سانحہ کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پس منظر میں دیکھتا ہوں۔ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم اس آزاد ملک کے باسی ہیں جہاں ڈکٹیٹر اعظم کہلانے والے آمر کے منہ بولے بیٹے جمہوریت کے چمپئن بن جاتے ہیں۔ آمریت کی گود میں پلنے والے تین تین بار وزیر اعظم ،، منتخب،، ہوجاتے ہیں، آمروں کے یہی ،، بچے،، جمہوریت کے لئے شہادتیں دینے والوں کو،،سیکیورٹی رسک،، قرار دیتے ہیں، تیس تیس سال ،، بڑی عزت،، سے حکمرانی کرتے ہیں ، پورے کے پورے نظام کو کرپٹ کرتے ہیں اور پھر جب ان کی طرف کوئی ہاتھ اٹھتا ہے تو انتہائی چابک دستی سے سارے اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آسانی سے،، جلا وطن،، ہوجاتے ہیں، یہ وہی ملک ہے جہاں ،،مسٹر ٹین پرسنٹ،، کا خطاب پانے والا پہلے بارہ سال جیل کاٹتا ہے اور پھر پانچ سال ڈٹ کر حکومت بھی کرتا ہے، یہ وہی ملک ہے جہاں ایک آمر کا قریب ترین ساتھی وزیر اعظم منتخب ہوجاتا ہے اور تمام تر ناکامیوں کے باوجود محفوظ دکھائی دیتا ہے، یہ شاید واقعی کوئی ملک نہیں ایک جنگل ہی ہے جہاں انسانوں کے لئے قانون بنتے ہیں نہ انسانوں کے لئے بنائے گئے قوانین لاگو ہوتے ہیں۔ دل کے مریضوں کے اسپتال پر کالے کوٹوں والے خود حملہ آور ہوئے اور خود ہی ملک گیر احتجاجی ہڑتال شروع کردی۔ عوام سے کہا جا رہا ہے کہ اس حملے کی حمایت کی جائے، اعلی عدلیہ سے کہا جا رہا ہے کہ اس حملے کے خلاف درخواستیں نہ سنی جائیں، میڈیا سے کہا جا رہا ہے کہ ان کے ارکان کا بار ایسوسی ایشنز کے دفاتر اور عدالتوں میں داخلہ بند کر دیا جائیگا؟ ان تمام حالات میں میڈیا نے انتہائی بہادری سے اپنا کردار ادا کیا۔ صرف میڈیا ہی شاید واحد قومی ادارہ ہے جس نے اس کھلی غنڈہ گردی کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ مجھے میڈیا مالکان ، میڈیا یونینز اور میڈیا ورکرز سے پچھلے کئی سالوں سے بہت شکایات رہی ہیں لیکن وکلاء گردی کے خلاف اگر میڈیا بھی ہتھیار ڈال دیتا توبڑا افسوس ہوتا۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے بھی اس سانحہ کے حوالے سے ریمارکس قابل تحسین ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ اسپتال پر حملہ کرنے والے تین چار سو وکلاء اس ملک کے ہزاروں وکیلوں کے ترجمان نہیں ہیں لیکن بار ایسوسی ایشنز کے بعض موجودہ اور سابق عہدیداروں نے جس طرح ،،حملہ آوروں،، کی وکالت کی ہے وہ شرمناک ہے۔ میں سینئر وکیل راہنما جناب حامد خان کا بہت احترام کرتا ہوں لیکن انہوں نے اس واقعہ پر جو جو جواز پیش کئے ہیں قوم انہیں مسترد کر رہی ہے۔ شاید ان کی یہ بلا جوازیاں بار پالیٹکس کی مجبوریاں ہیں، وہ وکلاء کے ایک گروپ کے قائد بھی ہیں، ان کے گروپ نے کئی بار عاصمہ جہانگیر گروپ کو بار کے انتخابات میں شکست دی ہے۔ میں سمجھا کرتا تھا کہ شاید وہ عاصمہ جہانگیر سے زیادہ بڑے انسانی حقوق کے علمبردار ہوں گے لیکن اب واضح ہوا ہے کہ ان کی کامیابیوں کے پیچھے تو ایک خاص مائنڈ سیٹ ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک راہنما لطیف کھوسہ بھی حامد خان سے پیچھے نہیں رہے ان کا بھی فرمانا ہے کہ اسپتال کے اندر تو وکیلوں کو مارا جا رہا تھا،،، اللہ اللہ،،،، موجودہ حکومت کے پہلے دن سے میڈیا مختلف حوالوں سے دباؤ کا شکار ہے۔ دل کے مریضوں کے اسپتال پر وکیلوں کے ایک گروپ کی جانب سے ہونے والے حملے کی کوریج کے دوران بھی میڈیا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ اپنی خبروں اور رپورٹس کو ،، بیلنس،، کریں، میڈیا سے کہا گیا کہ اسپتال کے اندر پہلے ڈاکٹروں نے وکلاکرام پر حملہ کیا ، پھر اس دبائو پر ،،، بیلنس،، شروع ہوا اور نیوز چینلز کی اسکرینوں پر دکھایا گیا کہ ایک چھت پر کھڑی تین چار گھریلو ٹائپ خواتین وکلا پر پتھر برسا رہی ہیں، ان خواتین کے ساتھ فٹیج میں،، وردی،، میں ملبوس ایک وکیل بھی کھڑا ہوا دکھائی دیتا ہے، جہاں سے وکلا کو پتھر مارے گئے وہ اسپتال ڈاکٹرز اور عملے کا رہائشی علاقہ ہے، جہاں نرسنگ ہاسٹل بھی ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ حملہ آور وکلا کا جتھہ ہائی کورٹ سے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جانے کے لئے پیدل نکلا تھا، جو چار پانچ میل کے فاصلے پر ہے، سارے راستے یہ وکیل نعرے بازی کرتے رہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور کیا کرنے جا رہے ہیں،،، پولیس سمیت کسی بھی حکومتی یا ریاستی ادارے نے ان کا راستہ کیوں نہ روکا؟ پاکستان کے سارے نشریاتی ادارے ماسوائے پی ٹی وی اس کی لائیو کوریج کر رہے تھے، صوبائی اور وفاقی حکومت نے آنکھیں کیوں بند رکھیں؟ پولیس کی ہائی کمان نے کوئی اقدام کیوں نہ کیا؟ وکلا گردی میں ایک خاتون سمیت تین مریض،،، قتل،،، بھی ہوئے۔ لواحقین کو بعد میں دس دس لاکھ روپے دینے والے وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار نے اپنا کردار بروقت کیوں نہ نبھایا، ان تین مریضوں کے ،،، قتل،، کا پرچہ کس پر کٹے گا؟ میڈیا پر اس بات کا بہت چرچا ہے کہ وزیر اعظم کا بھانجا بیرسٹرحسان نیازی بھی حملہ آوروں میں شامل تھا جس کے خلاف پرچہ کٹا نہ اسے گرفتار کیا گیا، حسان نیازی عمران کا بھتیجا بھی ہے، ان کے فرسٹ کزن کا بیٹا، حسان نیازی کے والد عمران خان کے کٹر مخالف اور خالص شریکا ہیں، اس پروپیگنڈے سے سانحہ کے اصل ماخذ تک پہنچنے میں دشواری پیش آئے گی۔ حیران ہوں اسلام آباد کے خوبرو وکیل عمیر بلوچ کی جرأتوں پر بھی جنہوں نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں ،،طاقت،، کا مظاہرہ ہی نہیں کیا یہ بھی فرمایا کہ احتجاج کے دوران اسپتال میں تین مریضوں کا مرجانا کوئی بڑی بات نہیں، اسپتالوں میں تو مریض مرتے ہی رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور حرف آخر۔۔۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے ڈاکٹرز بھی کسی ،،، عوام دوست،، طبقے کا نام نہیں ہے۔