اسلام آبادمیں مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں ہونے والے آزادی مارچ اوردھرنے میں اپوزیشن جماعتوں کے بے شمار مطالبات جائز بھی تھے اور جینوئن بھی۔ مثال کے طور پر اپوزیشن جماعتیں ایک عرصے سے یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ انتخابی عمل اوراس کے نتائج منصفانہ ہونا چاہئیں یاملک میں اظہار رائے کی آزادی ہونی چاہیے اورمیڈیا کے اوپر قدغنیں نہیں ہونے چاہئیں ،نیزپارلیمان طاقت کا سرچشمہ اورعدلیہ آزاد ہوناچاہیے اور تمام ادارے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کریں۔لیکن دوسری طرف ہماری انہی جماعتوں کے اکابر سیاستدانوں کی اخلاقی گراوٹ اور شخصی مفادات کے گردگھومنے والی سیاست دیکھ کر مجھے بڑا تعجب اور افسوس ہوتاہے ۔ میرا یقین ہے کہ جب تک ہماراسیاسی ٹولہ خود کو ضمیر کے احتساب میں کھڑا کرکے اپنامحاسبہ نہیںکرتا تب تک اس ملک کے مسائل کے بارے میں آوازیں صدابہ صحراثابت ہوتی رہیںگی۔ مولانافضل الرحمن ایک بڑی مذہبی سیاسی جماعت، جمعیت علماء اسلام کے سربراہ ہیں ۔ ان کی سیاسی بصیرت ، فصیح وبلیغ انداز سخن اور ذہانت سے ان کے اعداء بھی منکرنہیں مگر جہاں تک ان کی جماعت کے اسلامی منشوراور اس پرعمل درآمدکاتعلق ہے تو میںپیارے مولانااوران کی جماعت کو تینتیس نمبروں سے پاس کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہوں۔ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو سلیکٹڈ سلیکٹڈ کہہ کر انہوں نے یہ لفظ اپنے لاکھوں کارکنوں کو ازبر کرایا ہے لیکن وہ خود بھول جاتے ہیں کہ ان کی جماعت کے انٹرا پارٹی انتخابات کب اور کہاں فیئراور شفاف الیکشن ہوئے؟ میںدعوے سے کہتاہوں کہ مولانا کی جماعت میں مرکز سے لے کر صوبوں تک اور اضلاع سے لیکر تحصیل تک کے جماعتی انتخابات کے دوران ماضی میں بھی سلیکشن ہوتی رہی اور امسال بھی سلیکشن کی اعلیٰ مثالیں قائم ہوئیں۔اس کی ادنیٰ سی مثال یہ ہے کہ ستائیس اکتوبر کو میرے اپنے علاقے ژوب سے آزادی مارچ کیلئے جاتے وقت جے یوآئی کی ضلعی اور تحصیل قیادت کا ایک پیچ پر نہ ہونے کی واحد وجہ یہ تھی کہ چند مہینے قبل یہاں ہونے والے انتخابات میں بدترین دھاندلی ہوتی تھی جس کی شفافیت پر جے یوآئی کے بڑے سرکردہ رہنمابھی دس فیصد مطمئن نہیں۔ ماضی کی طرح یہ جماعت اب کی بار بھی دو گروپوں میں بٹ گئی۔ اس وقت ایک گروپ کو ضلعی امیر اور دوسرے کو تحصیل امیر لیڈکررہے ہیں۔غیر شفاف انتخابات کی وجہ سے اندرون جماعت اختلافات اتنے بڑھ گئے کہ آزادی مارچ جاتے وقت ضلعی امیر کی قیادت میں بھی الگ اور تحصیل امیر کی قیادت میں الگ قافلہ سلام آبادروانہ ہوا۔ یہی صورتحال صوبے کے دوسرے اضلاع کی بھی ہے جہاں پربھی الیکسن کنوینرکی مددسے ان مخصوص امیدواروں کو جتوایا گیاجنہیںمرکزی قیادت کی آشیرباد حاصل تھی ۔اس وقت بلوچستان میں جے یوآئی کے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع ہیں جو نہ صرف اپنے دور ِوزارت میں بدعنوانی اور اقرباء پروری کے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں بلکہ اس مرتبہ صوبائی امارت کے عہدے پربھی مولاناشیرانی کو مقابلے میں دھاندلی اورغیرشفاف طریقے سے بٹھایاگیا۔اسی بھونڈے سلیکشن ہی کانتیجہ ہے کہ سوشل میڈیا پر جے یوآئی کے اپنے لوگوں نے سوشل میڈیا پر ’’سلیکٹڈ امیر ‘‘کے نام سے باقاعدہ کاونٹس کھولے ہیں۔اسی حساب سے عام انتخابات کے دوران ٹکٹیں بھی ان لوگوں کو ملتی ہیں جو مرکزاور صوبے میں اچھا خاصا سورس رکھتے ہیں، اگرچہ وہ حددرجے نااہل کیوں نہ ہوں۔ماضی میں مولاناصاحب کی جماعت کو ایک مرتبہ خیبرپختونخوا اوردومرتبہ بلوچستان میں مخلوط حکومتیں ملی ہیں۔اس دوران اس جماعت کے وزراء نے نہ صرف اچھا خاصا مال بنایا بلکہ میرٹ کی بدترین خلاف ورزی کرکے اپنے اپنے محکموں میں مرضی کے لوگ بھی تعینات کیے ۔ میں دعوے سے کہتاہوں کہ’’خداکی زمیں پر خداکے نظام‘‘کے اس داعی جماعت کے وزراء کا کردار نہ تو پی پی پی کے کرپٹ وزراء سے کچھ مختلف تھا اور نہ ہی مسلم لیگی وزراء سے۔یہی حال پشتونوں کے حقوق کی علم بردار جماعت پشتونخواملی عوامی پارٹی کابھی ہے ۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات میں بلوچستان میں پشتونخوامیپ مسلم لیگ ن اور نیشنل پارٹی کی مخلوط سیٹ اپ کا پانچ سال تک حصہ رہا۔ اپنی حکومت میں اس جماعت کے وزراء کرپٹ بھی ثابت ہوئے ، نااہل بھی اور اقربا پرور بھی ۔مثال کے طور پراسی وقت کے صوبائی وزیرجناب عبدالرحیم زیارتوال کو لیجیے ۔زیارتوال کو صوبائی حکومت میںتعلیم جیسے اہم محکمے کا قلمدان سونپا گیالیکن پانچ سال کے طویل عرصے میں موصوف وزیر صوبے کے پشتون بیلٹ کے ڈگری اور انٹرکالجز کیلئے پشتو زبان کانصاب تک مرتب نہ کرواسکے۔ کالجز کے گیارہویں ، بارہویں اور چودہویں جماعت کے طالبعلموں کو یاتو خیبر پختونخوا بورڈ کے نصابی کی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں یا پھربیچارے کسی پروفیسر کی طرف سے تیارہونے والے امتحانی گائیڈزپر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ اپنی حکومت میں غیر تسلی بخش کارکردگی کا نتیجہ تھا کہ پشتونخوا میپ بھی جے یوآئی کی طرح بلاکوں میں تقسیم ہوکر رہ گئی ہے ۔ ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات ، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کاعمل اور پارٹی سے نظریاتی رہنماوئوں کا اخراج اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پشتونوں کی یہ قوم پرست جماعت بھی قابل رحم حدتک اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے ۔ محمودخان اچکزئی کی ذات اور سچائی اپنی جگہ لیکن کنٹینر پر کھڑے ہوکر عمران خان کوللکارنے کا ان کے پاس اخلاقی جواز نہیں تھا کیونکہ ان کے اپنے گھر میںہی میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ کہنے کامقصد یہ ہے کہ ہمارے یہ سیاستدان پی ٹی آئی جیسی حریف اور مقتدر جماعت کو للکارنے کے تب مجاز ہونگے جب یہ اخلاقی ہتھیاروں سے مسلح اور دیانت وامانت میں اپنی مثال آپ ہوں۔ مرحوم مولانا مفتی محمود ؒ نے بجافرمایاتھا کہ’’ اپنے چھ فٹ بدن کا احتساب کیے بغیر خدا کی زمیں پر خدا کا نظام نافذ کرنے کا خواب دیکھناحماقت کے سوا اور کچھ نہیں ہے‘‘۔وما علینا الالبلاغ ۔۔۔۔