بھارت اور پاکستان میں تقریباً ہر انتخاب میں بدعنوانی ایک اہم موضوع ہوتی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران تقریروں اور اپنے منشوروں میں سیاسی پارٹیاں بد عنوانی سے پاک وصاف انتظامیہ فراہم کرنے کے وعدے کرتی ہیں۔ مگر اقتدار میں آکر جلد ہی ان کو احساس ہوتا ہے کہ دریا میں تیرتے ہوئے مگرمچھ سے بیر نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ سیاستدانوں کو علم ہے کہ انتخابات کے دوران قوم پرست جذبات کو ابھارنا اور کرپشن سے چھٹکارا دینے کے نعرے سے مڈل کلاس کو اچھی طرح سے رجھایا جا سکتا ہے۔ یہ اب ایک آزمودہ ہتھیار بن چکا ہے ۔پاکستان میں عمران خان اور بھارت میں اس سے قبل نریندر مودی بھی کرپشن کو ختم کرنے اور کالے دھن کو ضبط کرنے جیسے وعدوں کو لیکر اقتدار کی مسند تک پہنچے۔ حال ہی میں اختتام پذیر انتخابات میں بھی مودی دوبارہ یہ داوٗ کھیل کر اقتدار میں واپس آئے۔ آخر انتخابات میں کرپشن کو ختم کرنے کے وعدوں کے باوجود جنوبی ایشیا ء میں اس پر لگام کیوں نہیں لگائی جاتی ہے۔ اس کا واضح جواب پارلیمانی و صوبائی انتخابات میں زر کا بے دریغ استعمال ہے۔ بھارت میں سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق اپریل۔مئی میں ہوئے پارلیمانی انتخابات میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے تقریباً27ہزار کروڑ یعنی 270بلین روپے خرچ کئے۔ بی جے پی نے ان انتخابات میں 437امیدوار میدان میں اتارے تھے۔ اسکا مطلب ہے کہ ایک امیدوار پر پارٹی کو 62کروڑ روپے خرچ کرنے پڑے۔ اب یہ امیدوار یا پارٹی لیڈران نے یہ رقم اپنی جیب خاص سے توخرچ نہیں کی ہوگی۔ اگلے پانچ سال تک یہ رقم کہیں نہ کہیں سے سود سمیت وصول ہوگی۔مجموعی طور پر ان انتخابات میں تقریباً60 ہزاریعنی 600بلین روپے خرچ ہوئے۔ سینٹر کے سربراہ بھاسکر راوٗ کے مطابق اس رجحان کے مطابق 2024ء کے انتخابات میں ایک ٹریلین روپے خرچ ہونے کا اندیشہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک بے انتہا انتخابی اخراجات پر لگام نہیں لگائی جاتی، بدعنوانی کو ختم کر نا ناممکن ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق 543رکنی ایوان کی ایک سیٹ پر 100کروڑ روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ یعنی ایک ووٹر پر 700روپے اوسطاً خرچ کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق 12سے15ہزار کروڑ روپے براہ راست ووٹروں میں بانٹے گئے، جبکہ 20سے25ہزار کروڑ روپے پبلسٹی پر خرچ کئے گئے۔ حیرت کی بات ہے کہ فنڈنگ کیلئے کسی بھی سیاسی جماعت نے عوام سے چندہ کی اپیل نہیں کی، بلکہ تمام اخراجات کارپوریٹ اداروں سے وصول کئے۔ اب اس صورت حال میں بدعنوانی یا کالے دھن پر روک لگے تو کیسے؟ بھارت اور پاکستان میں انتخابات کے مواقع پر سیاستدان اکثر کرپشن سے پاک انتظامیہ کیلئے ڈنمارک کی مثالیں دیتے ہیں۔ مگر ہر پانچ سال بعد یہ دونوں ممالک ڈنمارک کی پیروی کرنے کے بجائے بدعنوانی کی دلدل میں مزید دھنس جاتے ہیں۔ہر سال ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں یہ ملک بدعنوانی سے پاک ملکوں کی فہرست میں اول نمبر پر آتا ہے۔ چند سال قبل جب میں ڈنمارک دورے پر تھا تو میرے ذہن میں بار بار یہی سوالات اٹھ رہے تھے کہ آخر ڈنمارک نے یہ امتیاز کس طرح حاصل کیا ؟اس ملک نے بدعنوانیوں سے پاک رہنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟ ڈنمارک کے سیاست دانوں اور سول سوسائٹی کے کارکنوںسے میں نے اس سلسلے میں بات کی جنہوں نے مجھے بتایا کہ سیاست دانوںکی اعتدال پسند طرز زندگی ‘ لوک پال یعنی محتسب کی موجودگی اور کم خرچ انتخابات اسکی ایک اہم وجہ ہے۔ ڈنمارک پارلیمنٹ کے اسوقت کے اسپیکر موجینس لائکے ٹافٹ سے بھی میں نے سوال کیا تھا کہ ان کا ملک بد عنوانی سے کیسے پاک ہے؟ ان کا کہنا تھا انتخابی مہم چلانے کے لئے سیاسی پارٹیوں کو قومی خزانے سے رقم دی جاتی ہے۔ لائکے ٹافٹ نے بتایا کہ ’’اس کا طریقہ کاریہ ہے کہ سابقہ الیکشن میں جو پارٹی قومی او رعلاقائی سطح پر جتنا ووٹ حاصل کرتی ہے اسی کے حساب سے اسے پیسے دئے جاتے ہیں۔ ـ’’میری پارٹی سوشلسٹ ڈیموکریٹک پارٹی (ایس ڈی پی) کو ہر ووٹر کے بدلے 10 کرون (100ہندوستانی روپے) کے حساب سے20 ملین ڈینش کرون ملے تھے‘‘۔۔انہوں نے بتایا کہ 2011 ء کے الیکشن میں انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب پر20,000 ڈالر خرچ کئے تھے لیکن انہیں اپنی جیب سے ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دینی پڑی۔کیوں کہ یہ پیسے یا تو پارٹی نے دیئے تھے یا پھر سرکار ی فنڈ سے ملے تھے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمارا انتخابی مہم بھی بہت مختصر‘ یعنی تقریباََ تین ہفتے کا ہوتا ہے ‘ جس کی وجہ سے بھی اخراجات کم ہوتے ہیں۔اسکے علاوہ بدعنوانی میں ذرا سا بھی ملوث پائے جانے والوں کے خلاف صرف سرکاری کارروائی ہی نہیں ہوتی بلکہ انہیںعوامی سطح پر بھی سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جہاز رانی کے اس وقت کے وزیر بڑی مصیبت میں پھنس گئے تھے جب معلوم ہوا کہ ڈنمارک کی ایک مشہورکارگو کمپنی کے ایک بڑے شپنگ پروجیکٹ کا افتتاح کرنے کے بعدانہوں نے کمپنی کی طرف سے تحفتاََ پیش کی گئی قیمتی کلائی گھڑی قبول کرلی تھی۔ میڈیا نے اس معاملے پر ان کا ناطقہ بند کردیا جس کے بعد انہیں معذرت کرنی پڑی۔ایسے ہرمعاملے کو جس میں بدعنوانی کا کوئی شائبہ پیدا ہوتا ہو میڈیاپوری شدت سے اٹھاتا ہے۔ (جاری ہے)