عنوان شاید آپ کو بہت عجیب لگے ۔ میں بہت سنجیدہ باتیں کرنے کے موڈ میں تھا جس میں نیوزی لینڈ کا سانحہ اور وزیر اعظم جیسنڈرا کی انسانیت دوستی ، اقلیتوں کے ساتھ برادرانہ سلوک اور جس طرح اس ملک کے باسیوں اور وہاں کی پارلیمنٹ نے محبت نچھاور کی جیسے معاملات تھے۔لیکن گزشتہ دو تین سال سے ہمارے ہاں سیاست میں ایسا مسخرہ پن شروع ہوا ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ کرپشن کی دھن پر جو ڈسکو دھمال شروع ہے اسکے مظاہرے آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں۔اس شو کو دیکھنے والے بھلے مجبوری میں محدود تعداد میں موجود ہیں لیکن یہ ڈسکو جاری ہے۔ پناما کے بعد سے مسلم لیگ (ن) کا بینڈ اسکو چلا رہا تھا اب شاید وہ بھی اس کے شور شرابے سے تنگ آ گئے ہیں اور انکی طرف سے اب پکے راگ ہی سننے کو ملتے ہیں اور شاید وہ کچھ عرصہ بعد اس راگ واگ والے کاروبار سے توبہ کرکے کوئی اور کام شروع کر لیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ حکومت کی دھن پر سر دھننا شروع کر دیں۔انتظار رہے گا کہ میاں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر سپریم کورٹ کی طرف سے فیصلے کے بعد وہ کونسی راگ راگنی چھیڑتے ہیں۔ ّٓٓآج کل پیپلز پارٹی کے بینڈ نے مسلم لیگ (ن) کی جگہ لے لی ہے اور وہ بھی تقریباً وہی دھنیں بجا رہا ہے جو نون والے بجایا کرتے تھے اور گانے کے بول بھی نہیں بدلے۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس دھن اور گانے پر ڈسکو دھمال کرنے والے اس وقت جیل میں سزا یافتہ قیدی کے طور پر وقت گزار رہے ہیں، جیالا ہجوم اس دھن کو ترک کرنے کو تیار نہیں ہے۔اس ساری صورتحال سے یہ اندازہ مشکل نہیں ہے کہ ان دھمالوں کا نتیجہ بھی کچھ مختلف نہیںہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان ڈسکو دھنوں پر سر دھننے والے کب تھکتے ہیں۔ لیکن یہ طے ہے کہ انہوں نے بھی آخر پکے راگ شروع کرنے ہیں کیونکہ پناما اور جعلی اکائونٹس کے مقدمات میں غیر ملکی اور ملکی ہونے کا فرق ہے۔ثبوتوں اور کرتوتوں میںکوئی فرق نہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں بڑی تعداد میں ووٹ بینک رکھتی ہیں اور انکی بقا میں ہی جمہوریت کی بقا ہے۔ لیکن جس راہ پرانکی قیادت چل نکلی ہے وہ پورس کا ہاتھی بنتی جارہی ہے جواپنے کرتوتوں کو چھپانے کے لئے اپنی ہی صفوں کو روندنے لگی ہے۔اپنے خلاف مقدمات کا دفاع عدالتوں کی بجائے سڑکوں پر احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے ذریعے کرنے کا تجربہ میاں نواز شریف بھی کر چکے ہیں لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ بلاول بھٹو بھی یہی کچھ کر رہے ہیں اسکا نتیجہ بھی وہ نہیں نکلنا جس کی توقع میاں نواز شریف کو تھی۔ اسکی تاویل اگر بلاول یا انکی جماعت عمران خان کے دھرنے سے لیتی ہے تو اس سے بوگس دلیل کوئی نہیں۔ عمران خان 2014 میں حکومت کے خلاف الیکشن میں دھاندلی کا ایک مقدمہ لیکر دھرنا دینے آئے‘ ان کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تھا جس پر وہ احتجاج کر تے۔انکے خلاف جو کیس تھاانہوں نے سپریم کورٹ میں اسکو بھگتا اور با لآخر سرخرو ہوئے۔ بلاول بھٹو آپ بھی ان مقدمات میں سرخرو ہو سکتے ہیں اگر آپ قانونی طور پر انکا مقابلہ کریں اور ان ناکردہ جرائم کو اپنے کھاتے میں نہ ڈالیں جس میں آپ بیگناہی ثابت کر سکتے ہیں۔ سیاسی مجبوریاں ضرور ہوتی ہیں لیکن اسکی قیمت وہ چکائیں جنہوں نے یہ کرتوت کئے ہیں۔ آپ اپنے نانا اور ماں کا نام خراب کرنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔آپ کو اگر علم نہیں تو اطلاعاً عرض ہے جب آپ ایک سال کے تھے آپ کے والد محترم مسٹر ٹین پرسنٹ کا ٹائٹل اپنے نام کر چکے تھے۔ افسوس صد افسوس وہ لوگ بھی گنگ ہو چکے ہیں جنہوں نے جان کی بازی لگا کرپیپلز پارٹی اور اسکے نظریے کو پروان چڑھایا۔ ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ ایسی بھی کیا مجبوری ہے جناب، اگر بھٹو اور بی بی شہید کی پارٹی اور اسکی اولاد کو بچانا ہے تو، خدارا، اسکی تباہی کے درپے لوگوں کو بے نقاب ہونے دیں، ورنہ یہ تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔ بلاول نے سیاست کا آغاز بہت اچھا کیا۔ سیاست میں متانت، وقار اور ساکھ کے ساتھ وہ آگے بڑھ سکتے تھے اور ابھی بھی کوئی نقصان نہیں ہوا۔ اپنا قانونی مقدمہ عدالت میں لڑیں۔ بہت بد قسمتی ہوگی اگر بلاول بھی اس ہجوم کا حصہ بن گئے جو جگتیں لگانے اور اپنی کہی ہوئی بات کو حرف آخر سمجھ کر اسکا ہر حال میں دفاع کرنے پر تل جاتے ہیں۔یہ سیاسی مسخرے دہائیوں سے ایک دوسرے کے کپڑے اتارتے چلے آرہے ہیں اور جب پھنس جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہمیں ننگا کس نے کیا۔سیاسی مقبولیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اسے ریاست کو بے بس بنانے اور عدل کے نظام کو اپنے حق میں موڑنے کے لئے استعمال کریں۔اگر آپ مذہب کی آڑ نہیں لے رہے اور آپکی جماعت کالعدم نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں سیاسی مقبولیت کو ہتھیار کے طور پر اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کے لئے استعمال کرنا جائز ہو جاتا ہے۔اس ملک میں صرف اس جمہوریت کو خطرہ ہے جو میاں نوازشریف اور آصف زرداری والی ہے جس کے تصور میںمیرے خیال میں پرویز رشید اور فرحت اللہ بابر جیسے صاحبان کا تخلیق کردہ ایک باب بھی شامل ہے۔جس کے مطابق جمہوریت میںعوام ایک دفعہ کسی کو منتخب کر لیں تو اسکے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور ان کو نئے سرے سے گناہ کرنے کا لائسنس مل جاتا ہے۔اس جمہوریت میں ریاست کو عدلیہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی کیونکہ منتخب بادشاہ خود ہی منصف ہوتا ہے۔اگر انکے علاوہ کوئی ناہنجار اقتدار پر متمکن ہو جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان صاحبان اور انکے خاندانوں کے لئے ایسے اقدامات کرے کہ انکے گناہوں کی سزا صرف عوام کو ملے اور وہ قومی مفاہمت کا لبادہ اوڑھ کر موجیں کریں ۔ جب مناسب موقع ہو پھر سے اقتدارمیں آئیں تا کہ ووٹ کو عزت دے سکیں اور پھر کرپشن کی دھن پر ڈسکو دھمال شروع کریں۔