ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے دنیا کے 180ممالک میں کرپشن کی شرح کے حوالے سے درجہ بندی رپورٹ جاری کی ہے۔ یہ رپورٹ شواہد اور اعداد و شمار کی بنیاد پر ترتیب نہیں دی گئی بلکہ اس کو ایک عمومی تاثر کی بنیاد پر تیار کیا گیا ہے لہٰذا اس کی حیثیت سے قدر اہم نہیں جیسا کہ کچھ حلقے اسے ثابت کرنا چاہتے ہیں۔یاد رہے کہ 2018ء سے قبل کرپشن پر سپشن انڈکس میں پاکستان کا نمبر 33تھا۔گزشتہ برس یعنی 2019ء میں یہ 117ہو گیا جبکہ حالیہ 120واں نمبر بتاتا ہے کہ دنیا میں پاکستان کو بدعنوان سمجھنے والوں کا تاثر یہاں کے لوگوں اور اداروں کے بارے میں مزید خراب ہوا ہے۔ رپورٹ تیار کرنے والی تنظیم نے صورت حال میں بہتری کے لئے بعض سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ ٹرانسپرنسی کا کہنا ہے کہ کرپشن روکنے کے لئے چیک اینڈ بیلنس اور اختیارات کو الگ الگ کیا جائے۔سماجی کارکنوں اور صحافیوں کو تحفظ دیا جائے۔ کسی سماج میں قانون اور اخلاقیات پر عمل نہ کرنے کا رجحان تقویت پکڑ لے تو سماج دشمن رویے جڑ پکڑنے لگتے ہیں۔ کرپشن سماج اور ریاست دونوں کے مفادات کے خلاف کام کرتی ہے۔کرپشن اپنی نوع میں کئی شکلیں رکھتی ہے۔ پاکستان کے لوگ برسوں سے شکایت کر رہے ہیں کہ ہر صاحب اختیار اپنے سرکاری فرائض کی انجام دہی کے لئے حکومت سے تنخواہ و مراعات کے علاوہ ان لوگوں سے فوائد الگ سے طلب کرتا ہے جو اپنے کام کی خاطر اس سے رجوع کرتے ہیں۔ پولیس ‘ محکمہ مال‘ کسٹمز‘ بلدیات‘ تعلیم‘ صحت اور ترقیات کے محکموں میں سفارش کے ساتھ رشوت کی شکل میں کرپشن دکھائی دیتی ہے۔ اس صورت سے لگ بھگ ہر پاکستانی واقف ہے اور زندگی میں کئی بار بے بس ہو کر اس عمل کا حصہ بن جاتا ہے۔ کرپشن کی ایک شکل یہ ہے کہ وفاقی و صوبائی محکموں کو جو سالانہ فنڈز اور گرانٹس ملتی ہیں یا حکومت کسی نئے منصوبے کے لئے فنڈز جاری کرتی ہے تو اس میں سے کس قدر رقم درست استعمال ہوتی ہے اور رقم کا کتنے فیصد مختلف افسران اور ٹھیکیداروں کی جیب میں ناجائز آمدن کے طور پر چلا جاتا ہے۔ بڑے ترقیاتی منصوبوں میں اس طرح کی کرپشن کے اعداد و شمار سامنے آتے رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت پہلے دن سے سادگی اور کرپشن سے پاک نظام کی بات کرتی رہی ہے۔ گزشتہ سولہ ماہ کے دوران ایسا کوئی قابل ذکر میگا ترقیاتی منصوبہ بھی مکمل نہیں ہوا جس میں کرپشن کی بات ہوئی ہو۔ اس صورت حال میں کرپشن بڑھنے کا تاثر حقیقی دکھائی نہیں دیتا بلکہ اسے انتظامی کمزوری سے پھوٹنے والا ذیلی مسئلہ کہا جا سکتا ہے کہ مختلف محکموں کے نچلی سطح کے اہلکار حکومت کی انسداد بدعنوانی مہم کو ایک رکاوٹ قرار دے کر کام کے سلسلے میں رجوع کرنے والے افراد سے رشوت کی شرح بڑھانے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے اگر صرف اس پہلو کو معیار بنا کر رپورٹ مرتب کی ہے تو حکومت کی جانب سے اسے مسترد کرنا غیر مناسب نہیں۔ سفید کالر جرائم سے نمٹنے والے ادارے نیب کی ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 2010ء کے آس پاس پراسیکیوشن کی کمزوریوں کے باعث نیب مقدمات میں کامیابی کی شرح بہت کم تھی۔2016ء اس سلسلے میں کامیاب ترین سال تھا۔ یہ دلچسپ امر ہے کہ 2016ء میں جی ڈی پی بھی زیادہ ہو گیا۔ یعنی انسداد بدعنوانی کی موثر کوششیں جی ڈی پی میں اضافے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ کرپشن بہرحال ایک ایسا سماجی مرض ہے جو معاشی اور اخلاقی ترقی کو چاٹ جاتا ہے۔ رپورٹ کو مرتب کرنیوالی تنظیم ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل پاکستان ماضی میں متنازع رہی ہے۔2013ء کے انتخابات کے وقت ٹرانسپرنسی نے ایسی رپورٹس جاری کیں جن کا فائدہ مسلم لیگ ن کو پہنچا۔ ادارے کے سربراہ کو میاں نواز شریف نے وزیر اعظم ہائوس میں تعینات کیا۔ حالیہ رپورٹ ہو سکتا ہے تکنیکی طور پر درست ہو مگر اس رپورٹ کے کئی پہلو حقائق سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے اپنی ساکھ کو متاثر کر رہے ہیں۔ یہ امر باعث تعجب ہے کہ ٹرانسپرنسی کی مقامی تنظیم نے یہ رپورٹ اس وقت جاری کی جب اندرون ملک کچھ ناعاقبت اندیشوں کی وجہ سے مصنوعی آٹا بحران پیدا ہوا اور وزیر اعظم ڈیووس میں اقتصادی فورم کے سامنے کرپشن کے خاتمہ سے متعلق اپنے اقدامات بیان کر رہے تھے۔ ان دنوں ایف اے ٹی ایف کا بیجنگ میں اجلاس بھی تھا۔ اس موقع پر بدعنوانی میں اضافے کا تاثر دینے والی رپورٹ سے ملکی مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ انسداد بدعنوانی کے حوالے سے صورت حال بظاہر اس قدر دگرگوں نہیں جس قدر رپورٹ بتاتی ہے۔ رپورٹ کا سابق برسوں کی چند رپورٹس کے ساتھ موازنہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اکثر ممالک میں بدعنوانی کم نہیں ہوئی۔ حزب اختلاف تحریک انصاف کی حکومت پر الزام عاید کرتی ہے کہ اس کے دور میں ترقیاتی منصوبے سست روی کا شکار ہیں‘ چند روز قبل وفاقی وزیر فواد چودھری نے انکشاف کیا تھا کہ پنجاب میں سالانہ ترقیاتی فنڈز کا بڑا حصہ تاحال جاری نہیں ہو سکا۔ نیب اور دیگر اداروں کے متحرک کردار پر اعتراض کرتے ہوئے کہا جاتا رہا کہ بیورو کریسی اور تاجر اس کی کارروائی کے خوف سے کام نہیں کر رہے۔ اس متضاد صورت حال کا ایک مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کے حکومتی کارکردگی پر اعتراضات غلط ہیں یا پھر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ درست نہیں۔ وزیر اعظم گندم اور آٹا بحران کی تحقیقات کا حکم صادر کر چکے ہیں‘ وہ ہر سطح پر کرپشن کے خاتمہ کا عزم رکھتے ہیں۔ ٹرانسپرنسی کی رپورٹ میں اگر کچھ چیزیں ایسی ہیں جن پر عملدرآمد سے پاکستان میں انسداد بدعنوانی کی کوششیں بہتر ہو سکتی ہیں تو پوری رپورٹ کو مسترد کرنے کی بجائے افادیت والے حصوں پر غور کرنے میں حرج نہیں۔