دَورِ حاضر میں صرف ہمارے ملک ہی میں نہیں بلکہ عالمی سطح پر لفظ ’کرپشن‘ کی جتنی تکرار ہوئی اور مسلسل ہو رہی ہے، شاید ہی کسی اور اصطلاح کو سماجی، سیاسی،ابلاغیاتی اور حکومتی دائرے اتنے تسلسل اور بڑے پیمانے پر دہرایا گیا ہو۔حکومتوں اور انتظامی دائروں میںمالیاتی بد عنوانی نہ نئی چیز ہے اور نہ ہی اسے کبھی کسی معاشرے میں اسے سندِ جوازملی نہ کہیں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ کرپشن کو صحیح طور پر ’ڈیفائن‘ نہیں کیا گیا۔چھوٹے یا بڑے پیمانے پرمالیاتی ہیر پھیر ،غبن ، دھوکافریب، جھوٹ ، بے قاعدگی سے مال بناناکرپشن کی معروف صورت ہے۔لیکن انسان کے اندر جلَبِ زر اور غصب و نہب کا رجحان دراصل ایک فساد زدہ ذہنیت اورپست اخلاقی رویّے اور حرص و ہوس کے میلان کا نتیجہ ہوتا ہے ۔فطرت میں بیٹھا ہو بگاڑ اور فساد حرام خوری ہی نہیں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہولناک حرکات اور سنگین جرائم میں مبتلا کر دیتا ہے۔سورۂ ِ اعراف کی 56ویں آیت ہے کہ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا۔۔ ’زمین میں فساد برپا نہ کرو جب کہ اس کی اصلاح ہو چکی ہو۔‘مطلب یہ ہے کہ خُدا کے پیغمبروں، مصلحین، داعیانِ حق کی مساعی سے انسانی معاشرت، تمدّن اور اخلاق میں جو اچھائی اور اصلاح پیدا ہوئی ہے اسے پھر خرابی سے دوچار نہ کردو۔قُرآنِ پاک کے ڈیڑھ درجن سے زیادہ انگریزی ترجمہ نگاروں میں سے تقریباً نصف نے لَا تُفْسِدُ وْا کا ترجمہ do not corrupt, do not spread corruption, cause not corruption, do not corruption کیا ہے۔ واضح امر ہے کہ معاشرے کی صالح روایات، اعلیٰ اخلاقی اقدار اور نیکی اور راستی کی روش اور تہذیب و شائستگی کے طرزِ عمل میں بگاڑ پیدا کر دیناکرپشن ہے۔اصول، قاعدے اور ضابطے سے ہٹ کر کیا جانے والا ہر عمل کرپشن ہے۔ملکی آئین اور دستور سے ماورا کوئی اقدام خواہ ملک کا صدر اور وزیرِ اعظم کرے، انتظامی مشینری کے چھوٹے بڑے اہلکارکریں، چیف جسٹس کرے یا عسکری اداروں کے سربراہ کریں ، اس کو کرپشن ہی کہیں گے۔حکومت یا عدالت یا کسی اہم پوزیشن پر فائز کوئی شخصیّت قواعد و ضوابط توڑ کر اقربا پروری، دوست نوازی،خاص افراد اور گروہوں کو بے جواز اور نا حق فائدہ پہنچائے تو یہ کرپشن ہے، قطعِ نظر اس سے کہ نوازش و عنایت کرنے والی شخصیّت نے خود اس سے ایک پیسے کا فائدہ نہ اٹھایا ہو۔سرکاری محکموں کے بعض افسر اگر رشوت خور نہ ہوں مگر وقت پر دفتر نہ پہنچتے ہوں اور وقت سے پہلے دفتر سے چلے جانے کے عادی ہوں تو ان کا یہ طرزِ عمل کرپشن کی ایک قسم ہے۔سرکاری دفتروں میں بڑے افسروں کے آنے سے بہت پہلے گرمیوں میں اے سی اور پنکھے چلنے لگیں اور سردیوں میں گیس کے ہیٹر چالو کر دیے جائیں تو یہ کرپشن کی تعریف میں آنے والی حرکت ہے۔ اعلیٰ آئینی و انتظامی منصب پر فائز شخصیات نہ صرف خودسرکاری خرچ پر حج و عمرہ کریں بلکہ اپنے اہالی و موالی اور اعزہ و اقارب اور دوست احباب کے لشکروں کو بھی یہ’ ثواب‘لُوٹنے کے لیے لے جائیں تو اسے کرپشن کے سوا اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ جس نظام میں سب سے بڑے احتسابی ادارے کا سربراہ عمر رسیدگی کے باوجود اپنے دفتر میں ایک خاتون کے ساتھ نازیبا اور منافیِ حیاحرکات کرتا پایا جائے اور اس کی ویڈیو چلے اور وہ پھر بھی اپنے منصب پر قائم رہے ، وہ نظام کرپٹ ہی نہیں بلکہ اخلاقی فساد کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔اخلاقی پستی کے یہ نمونے سامنے ہوں اور چرچا یہ ہو کہ وزیرِ اعظم کرپٹ نہیں ہے۔عہد و پیمان کی پاسداری اِسلامی اخلاقیات کا بنیادی اصول اور قُرآن و حدیث کی زرّیں تعلیم ہے۔ یہ اصول پامال ہو تو سارا نظام بے اعتبار ہو جاتا ہے۔ لیکن کیا اخلاقی فساد کی آخری حد نہیں کہ ایک شخص جو ملک کا آئینی سربراہ رہا ، اس کا فلسفہ ہے کہ عہد معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے کہ ان سے پھرا نہ جا سکے۔اپنے موقف ، وعدے، قول و قرار سے پھرنا بدترین اخلاقی رویّہ ہے۔ لیکن اس نظام کے اندر ملک کے وزیراعظم کا نظریہ ہے کہ ’یوٹرن (U Turn) بڑے لیڈر کا نشانِ امتیاز ہے۔ لفظ فساد کے لیے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا کہ کرپشن کا لفظ ہی آیا ہے۔ قُرآن کے کرپشن جھوٹ، اِفترا، مبالغہ، الزام تراشی،سنی سنائی باتوں کوحقیقت باور کرا کے بے بنیاد پروپیگنڈا،مخالین کے لیے بد زبانی ،تضحیک،توہین اور بدتمیزی ایک عام آدمی کی روش ہوتب بھی معاشرے میں فساد پھیلتا ہے۔لیکن اگر ملک کا کوئی بزعمِ خود مقبول لیڈر یہ سارے کام کرے تو اس سے پیدا ہونے والا فساد نظان کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے۔میں اہلِ دانش و فکر، عُلماء اور سیاسی مدبّروں سے بار بار عرض کر چکا ہوں اور یہاں پھر دہراتا ہوں کہ define corruption، کرپشن کا جامع اور شامل مفہوم متعیّن کریں۔