اسی دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جن سے مجھے اس سوال کا تشفی بخش جواب مل گیا۔ دس دن کے دورے کا آخری ڈنر ڈینش انسٹی ٹیوٹ آف ہیومن رائیٹس میں طے تھا۔ اس ادارے کے ایک سرکردہ رکن ایک پاکستانی نژاد پروفیسر بھی اس ڈنر میں شامل تھے جو کوپن ہیگن یونیورسٹی سے درس و تدریس کی ڈیوٹی سے ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔ میں نے جب ان سے یہ سوال کیا تو کچھ دیر غور و فکر کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ حتمی جواب شاید وہ بھی نہیں دے پائیں گے، مگر بتایا کہ وہ اپنا ایک واقعہ گوش گذار کریں گے ، شاید ا س میں جواب مل جائے۔ انہوں نے بتایا کہ جب وہ ڈنمارک وارد ہوئے اور انہیں یونیورسٹی میں نوکری ملی، تو تنخواہ ملنے کے دن وہ خاصے افسردہ اور ذہنی دباوٗ کے شکار ہوجاتے تھے، کیونکہ ہر ماہ تنخواہ سے تقریباً25تا30فیصد ٹیکس کی مد میں کٹ جاتا تھا۔ محنت کی کمائی کے اسطرح ضائع ہونے کا قلق رہتا تھا۔ اسی دوران آفس میں ہی ایک دن وہ ہارٹ اٹیک کا شکار ہوگئے۔ فوراً ایمبولینس بلائی گئی اور ایک صاف و ستھرے اسپتال میں انکو بھرتی کیا گیا۔ شفٹوں میں ہمہ وقت نرسیں خدمت پر مامور تھیں۔ پانچ ستارہ ہوٹل کی طرح اسپتال میں ہر روز اخبار و تفریح کیلئے ٹی وی حاضر تھا۔ڈھائی ماہ اسپتال میں رہنے کے دوران صرف ویک اینڈ پر اہل خانہ عیادت کیلئے آکر پورا دن ساتھ گذارتے تھے ۔ اسی دوران لاتعداد ٹسٹ، آپریشن اور اسٹنٹ وغیرہ ڈالے گئے۔ جب پروفیسر صاحب کام کرنے کے لائق ہوگئے تو ایک گاڑی میں بٹھا کر ان کو گھر چھوڑ ا گیا اور بس چند کاغذوں پر دستخط لئے گئے۔ ان کے بقول ایک بھی پیسہ ان سے وصول نہیں کیا گیا۔ جب کہ پاکستان میں کوئی بھی اسپتال چا ر یا پانچ لاکھ سے کم کا بل چارج نہیں کرتا ۔ اسکے علاوہ اہل خانہ کی پریشانی اور ایک ہمہ وقت تیمادار کی ضرورت الگ۔ ان کا کہنا تھا کہ اس دن وہ سوچنے لگے ، کہ ان کے بچے ایک سرکاری اسکول میں مفت میں زیر تعلیم ہیں۔ ریٹائرمنٹ اور ضعیف العمری میں وہ سوشل سکیورٹی کے حق دار ہونگے، تو ٹیکس ادائیگی پر افسردہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ جب یہ معلوم ہے کہ اسکا مصرف ان کی بہبودی پر ہی کیا جائیگا۔ ہیلے تھورنگ شمٹ ان دنوں ڈنمارک کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔اپنے دفتر پہنچنے سے قبل وہ اپنے دو نوں بچوں کو خود ہی اسکول پہنچاتی تھیں۔ان کے بچے بھی اسی عام سرکاری اسکول میںپڑھتے تھے جہاںدوسرے عام شہریوں کے بچے تعلیم حاصل کررہے تھے۔اس ملک میں پبلک اسکولوں کا کوئی وجود نہیں ہے، بلکہ ایک یونیورسل ایجوکیشن سسٹم قائم ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ جب اس حد تک اسٹیٹ رعایا کا خیال رکھتی ہو ،تو کوئی ٹیکس چوری یا کرپشن کرے تو کیوں کرے۔ ڈنمارک پارلیمنٹ کے اسپیکر لائکے ٹافٹ اس سے پہلے وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ کا عہدہ بھی سنبھال چکے تھے اور ملک کے سینئر ترین سیاستدان تھے۔بھارتی صحافیوں کے ایک تین رکنی وفد کے ممبرکی حیثیت سے اور مقامی میزبانوں کے ہمراہ جب ہم ان کے کمرہ میں داخل ہوئے ، تو ہمیں خوش آمدید کرتے ہوئے انہوں نے ایک لمبی میز کے گر د بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خود ایک ہوٹل کے بیرے کی طرح ایک ایک کرکے مہمانوں کے پاس آکر ناشتہ پانی کیلئے پوچھنے لگے۔ کسی نے چائے، کسی نے کافی یا کولڈ ڈرنک پینے پر رضامندی ظاہر کی۔یہ معمر سیاستدان ایک پیڈ پر یہ نوٹ کر رہا تھا۔ پھر کمرے کے ایک کونے میں جاکر چائے اور کافی بنائی، ریفریجریٹر سے کولڈ ڈرنک اور ایک الماری سے بسکٹ کے پیکٹ نکال کر ان کو ایک پلیٹ میں رکھ کر سب کو سرو کیا۔ اور یہ سب کام کرکرنے کے بعد کرسی پر بیٹھ کر ہم سے ہم کلام ہوئے۔ انہوں نے ماتحت عملہ کو آواز دی نہ ہی گھنٹی بجائی۔ حتیٰ کہ ا ن کے کمرہ میں انٹرنشپ کرنے والے چند طالب علم بھی موجود تھے ان کو بھی چائے اورکافی انہوں نے خو د ہی سرو کی۔ وہ بھی ہمارے ساتھ گفتگومیں شامل تھے اور نوٹس لینے کا کام انکو سپرد کیا گیا تھا۔معلوم ہوا کہ معمر اسپیکر صاحب روزانہ دس کلومیٹر کی مسافت سائیکل کے ذریعہ طے کرکے اپنے دفتر پہنچتے ہیں۔ عوام کو سوشل اسکیورٹی فراہم کرانے کے علاوہ جس چیز نے ڈنمارک کو میری تحقیق کے مطابق بدعنوانی سے پاک رکھا ہے وہ سیاست دانوں کی سادہ زندگی ہے۔ پوری دنیا کی دولت ان کے قدموں میں تھی اس کے باوجود انہوں نے جس طرح کی جفاکشی اور سادہ زندگی گذاری اس کی کوئی دوسری مثال تاریخ میں ملنی مشکل ہے۔حضرت عمر ؓنے اپنے گورنروں کو بھی موٹا کپڑا پہننے اور موٹا آٹا کھانے کی ہدایت دی تھی۔اگر کانگریسی وزراء بھی اسی سادگی اور کفایت شعاری کو برقرار رکھیں گے جس پر وہ1920 ء سے گامزن ہیں تو اس سے ہزاروں روپے بچیں گے‘ جس سے غریبوں کی امیدیں روشن ہوسکتی ہیںاور خدمات کے آہنگ میں تبدیلی آسکتی ہے۔ میں اس جانب اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سادگی کا مطلب پھٹے حالی ہر گز نہیں ہے ۔سادگی میں ایک خوبصورتی اور کشش ہوتی ہے جسے اس خوبی کو اپنانے والے بخوبی دیکھ سکتا ہے۔ پاک صاف اور باوقاررہنے کے لئے پیسے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ دکھاوا او رنمائش بالعموم فحاشی کے مترادف ہوتے ہیں۔‘‘ایسا محسوس ہوتا ہے گاندھی جی کی ان نصیحتوں کو ڈنمارک کے سیاست دانوں نے حرف بہ حرف اپنا لیا ہے لیکن مہاتما گاندھی کے پیروکار ں نیز آخری رسول حضرت محمدﷺ کے ماننے والوں نے ان تعلیمات کو بہت پہلے ہی بھلا دیا ہے ‘ جس کا انجام آج عوام کو بدحالی اور تباہی کی صورت میں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میںآزادی کے بعد فرسودہ اور ناقص انتخا بی نظام کے نتیجہ میں جمہوری لبادہ میں امرا (Oligarchy)کا جو طبقہ معرض وجود میں آیا، اس نے ملک کے وسائل اور دولت کو دونوں ہاتھوں لوٹا ہے۔ (ختم شد)