شاعرہوں تو ہر چیز کو شاعر کی آنکھ سے دیکھتا ہوں اور محسوس کرتا ہوں۔ رات پاکستان کرکٹ ٹیم کی برطانیہ سے فتح پر مجھے فیض صاحب کی نظم تنہائی نہ صرف یاد آئی بلکہ نیرہ نور کانوں میں رس گھولنے لگی: رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے سچ مچ مجھے ایسے ہی لگا کہ سوکھے ہوئے دھان پر پانی پڑ گیا اور جیسے مردہ زمین جاگ اٹھی۔ کیا کریں یہ اپنے ملک سے وابستگی۔ دلبستگی اور پیار ہے جو رگ و پے میں گردش کرتا ہے۔ یہ بات میں نے پچھلے کالم میں لکھی تھی جب ہم ویسٹ انڈیز سے بری طرح ہارے تھے اور ہم سب نے اپنی ٹیم پر اپنی طنزو مزاح کی ساری صلاحیتیں آزمائی تھیں اور سب نے کھلاڑیوں کو خوب خوب رگیدا تھا، اور یہ سب اسی وجہ سے تھا کہ درپردہ اپنے ملک کیلئے وہ محبت موجزن رہتی ہے جو اپنے ملک کو ہارتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔ فرسٹریشن میں کوئی دل کے پھپھولے پھوڑے گا تو کیا کرے گا۔ اب رات جب ہماری ٹیم نے ان ہونی کو ہونی کر دیا تو سب کے سب انگشت بدنداں رہ گئے۔ میں نے پہلے بھی لکھا تھا کہ ہماری طرح کوئی جیت سکتا ہے اور نہ ہار سکتا ہے۔ کیا کریں کہ ہم ہیں ہی ایسے۔ اسی طرح ہم کرکٹ کے شائقین بھی ردعمل انتہاؤں پر رکھتے ہیں۔ شاید یہ محبت ہی کی ایک شکل: محبت بھی عجب شے ہے کہ جب بازی پہ آتی ہے تو سب کچھ جیت لیتی ہے یا سب کچھ ہار دیتی ہے محبت مار دیتی ہے ہم بہت خوش ہیں کہ ہماری کرکٹ ٹیم نے سچ مچ ٹیم ورک دکھایا اور ہمیں عید کا تحفہ زبردست جیت کی صورت دیا۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں یہ 92 والا ری پلے تو نہیں۔ تب بھی ہم پاتال سے اٹھے تھے اور پھر عمران خان نے 92 کا کپ اٹھا لیا تھا۔ لگتا تو ایسے ہی ہے کہ گہرے زخم نے شاہینوں کو جگا دیا ہے۔ سب لوگ کتنی دلیری سے کھیلے۔ فخر زمان اور امام نے اچھا آغاز دیا پھر بابر اعظم بڑے اعتماد سے اننگز کو آگے بڑھاتے گئے۔ خاص طور حفیظ نے آتے ہی چوکا مار کر پھر ایک رن یوں لیا کہ لگنے لگا کہ پروفیسر صاحب آج برطانیہ کی ٹیم کی کلاس لے کر ہی جائیں گے اور انہیں سبق پڑھا کر ہی دم لیں گے۔ پھر دیکھئے وہ 84 رنز اور ایک وکٹ لے کر مین آف دی میچ ٹھہرے۔ سب ماہرین کے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ وہ بھی اپنی جگہ سچے تھے کہ ماضی قریب ہی میں ہم برطانیہ سے سارے ون ڈے ہارے تھے اور ویسے بھی برطانیہ کی کرکٹ ٹیم اس وقت پہلے نمبر پر ہے اور ان کی بدن بولی سے بھی لگ رہا تھا کہ وہ خود کو میچ سے پہلے ہی جیتا ہوا محسوس کر رہے تھے مگر پھر دامان یار کی طرح میچ ان کے ہاتھ سے نکلتا گیا۔ بھارتی کمنٹیٹر کی کمنٹری خاص طور پر سننے والی تھی۔ وہ آخری وقت تک برطانیہ کے بلے بازوں کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کھیلتے رہے۔ جب پاکستان اپنی فتح کے قریب تھا تب بھی وہ کہہ رہے تھے کہ معین علی بھی پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ پھر ان کی چیختی آوازیں مدہم پڑنے لگیں اور کہنے لگے اب تو تین چھکے بھی برطانیہ کو نہیں بچا سکتے۔ سب کچھ بہت دلچسپ تھا۔ ہماری تو اپنے وطن کی جیت کے ساتھ سانس اٹکی ہوئی تھی۔ یہ پاگل پن اور جنون نہیں، محبت ہے محبت۔ بات یہ ہے کہ ہمیں تو اپنے ملک سے تعلق ہے وہ جیتتا ہے تو ہمارے لیے ورلڈ کپ میں دلچسپی ہے۔ ناٹنگھم کے اس میچ کو پاکستان کرکٹ ٹیم نے کئی حوالوں سے یادگار بنا دیا۔ 348رنز ویسے ہی ورلڈ ریکارڈ بن گیا۔ نہ جانے لوگ اسے بڑا اپ سیٹ کیوں کہہ رہے ہیں۔ انگریز تجزیہ کار اسی بات کو لے کر بیٹھے ہوئے تھے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا مورال بہت پست ہو چکا ہے ان ساری باتوں کے درمیان وہ یہ ضرور کہہ رہے تھے کہ پاکستان کا یقین کچھ نہیں وہ اس ٹیم کو پہلے بھی Unpredictable کہتے آئے ہیں۔ جب یہ چلنے پہ آتے ہیں تو سب چلنے لگتے ہیں۔ وہاب ریاض نے بھی ثابت کر دیا کہ ان کو ٹھیک ہی بشارت ہوئی تھی۔ عامر اور شاداب نے بھی اپنی ورتھ ثابت کر دی۔ بہرحال ہماری عید کی خوشی دوبالا ہو گئی۔ ویسے بھی عید 29 روزوں کی ہے تو اس میں تھرل ہوتا ہے وگرنہ تیس روزوں کے بعد تو عید ہونا لازمی ہوتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں تو ایک روز پہلے عید ہو گئی مگر انہوں نے چاند دیکھ کر عید کی۔ 102شہادتیں تھیں یعنی 101 سے بھی زیادہ۔ اب کے پوپلزئی کا پلہ بھاری نظر آ رہا ہے کہ سرکاری طور پر ان کی بات مان کر اعلان کر دیا گیا۔ دوسری طرف سوالات اٹھنے لگے ہیں اور شاید یہ سوالات غلط بھی نہ ہوں۔ جب ہم نے رمضان شریف کا چاند دیکھا تھا تو تب بھی لوگوں کو کہتے سنا کہ اتنا صاف چاند دوسرے روزے کا لگتا ہے۔ ایسی بات پہلے بھی حافظ حسین احمد نے چاند دیکھ کر کی تھی کہ دوسرے روز کا چاند پوری آب و تاب سے اپنی عمر چھپاتا رہا۔ مگر اب ہم کے پی کے ساتھ تو عید نہیں منا سکتے تھے کہ ہم انہیں ویسے بھی درخور اعتنا نہیں سمجھتے۔ اس وقت یکجہتی اور بھائی چارہ کی اشد ضرورت ہے۔ پوپلزئی سے مل کر عید کا فیصلہ کیوں نہیں ہو سکتا۔ ان کی شہادتیں کیا شہادتیں نہیں ہیں۔ خدارا اس طرف توجہ دی جائے۔ بہرحال ہم اپنے 92نیوز کے تمام قارئین کو دل کی گہرائیوں سے عید مبارک کہیں گے۔ عید پر ضرورت مندوں اور غریبوں کا ضرور خیال رکھیں اور رشتہ داروں اور دوستوں سے ضرور ملیں۔ کبھی کبھی اسلم کولسری کا شعر یاد آتا ہے تو دل کو کرب سے بھر دیتا ہے: عید کا روز ہے کمرے میں پڑا ہوں اسلم گھر کے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے ویسے تو عید بچوں کی ہوتی ہے کہ انہیں عیدی ملتی ہے۔ وہ نئے نئے اور پیارے پیارے کپڑے پہنتے ہیں۔ ہمیں تو عیدی دینا ہوتی ہے اور آجکل کے بچے اپنی عیدی بھی مہنگائی کے حساب سے طے کرلیتے ہیں۔ واقعتاً جو روپے کی صورت حال ہے غریب کو دس روپے دیتے خود بھی شرم آتی ہے۔ بنک والے بھی پچاس اور سو کی کاپی دیتے ہیں۔ آپ دس روپے والی کاپی مانگیں تو بھی وہ آپ کو ایسے دیکھیں گے جیسے آپ کسی اور ستارے سے آئے ہیں۔ کام کرنے والے ملازمین اور ملازمائیں دس دن سے توقع باندھے ہوئے ہوتے ہیں آپ انہیں ہرگز مایوس نہ کریں۔ دوسروں کو خوشی دے کر آپ کو وہ فرحت محسوس ہو گی جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ حکومت نے تو خیر ہمارے ساتھ اچھی نہیں کی کہ پیڑول بم سے سب کو آزردہ اور مایوس کیا مگر چند لمحوں کے لئے سب کچھ بھول کر گرم گرم سویوں سے کیوں نہ لطف اٹھایا جائے۔ چلئے دو شعروں کے ساتھ اجازت دیں: مجھ کو اچھی نہیںلگتیں یہ شعوری باتیں ہائے بچپن کا زمانہ وہ ادھوری باتیں تجھ سے ملنا بھی بہت کام ہوا کرتا تھا روز ہوتی تھیں ترے ساتھ ضروری باتیں