سری لنکا سے ہم ون ڈے سیریز جیتے اور ٹی ٹونٹی سری لنکا نے کلین سویپ کر دی۔ اسکے بعد حسب توقع بلکہ اس سے پہلے ہی ایک آہ و بکا ہے، گالیوںکا طوفان ہے، کچھ پرواہ نہیں کہ کون اسکی زد میں ہے۔ ایک کرکٹ کے بہت بڑے ایکسپرٹ فرما رہے تھے کہ جس طرح دوسرے ٹی ٹونٹی میں فخر زمان آئوٹ ہوئے ہیں انکے کرکٹ گرائونڈ میں داخلے پر پابندی لگا دینی چاہئیے۔ اگر وہ شاٹ لگ جاتی تو شاید یہی صاحب فخر زمان کی improvisation کی تعریف کرتے نہ تھکتے۔کرکٹ فین بلکہ کھیلوں کے فین ہر جگہ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ہمیشہ پر امید، ہر بار اپنی ٹیم کے جیتنے کا سو فیصد یقین لئے، اور اگر خدانخواستہ انکی امیدیں بر نہ آئیں تو پھر کسی کی خیر نہیں۔ کھیل کے منتظمین سے لیکر ملک کے سربراہ تک شائقین کے غم وغصے کا شکار ہوتے ہیں۔پچھلے لیگ سیشن میں سپین کے میڈرڈ فٹبال کلب کی ٹیم نے پہلے ملکی لیگ اور پھر یوروپین لیگ میں ناقص کارکردگی دکھائی اسکا جو حشر شائقین نے کیا ہے خدا کی پناہ۔ہمارے کرکٹ کے فین تو انکے سامنے بہت معصوم نظر آتے ہیں۔ایک خرابی جو ہمارے فین میں بدرجہ اتم موجود ہے وہ ہے حد سے گزر جانا۔ جس میںکھلاڑی یا انتظامیہ ہی نہیں انکے گھر والے، بیوی بچے وغیرہ سب مغلظات کا نشانہ بنتے ہیں۔ جہاں تک ہماری کبھی بہت ہی غیر متوقع بہترین اور بدترین پرفارمنس کا تعلق ہے اسکی بنیادی وجہ تو وہی ہے جس سے ہمارے دیگر ملکی ادارے کارکردگی میں نیچے کی طرف جا رہے ہیں۔نہ کوئی نظام ہے نہ طریقہ کار۔کرتا دھرتا زیادہ تر غیر پیشہ ور لوگ ہوتے ہیں اگر کوئی پیشہ ور ہے بھی تو اقربا پروری کی جاتی ہے۔ ذاتی پسند نا پسند بھی بہت ہے۔ اور کرکٹ میں تو کوٹہ سسٹم چلتا ہے۔جب آپ کارکردگی کی بجائے کوٹے پر ٹیم بنائیں گے توکارکردگی بھی کوٹہ سسٹم کے تحت ہی ہو گی۔ پھر کھلاڑی کو پرکھنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ ایک میچ میںکسی بائولر نے نوّے میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گیند کر دی، واہ واہ ہوئی اور وہ ٹیم میں شامل۔جب بین الاقوامی سطح پر امتحان ہوا تو گیند سیدھی جا ہی نہیں رہی ہے۔ کسی نے ایک میچ میں سو کر دیا تو بس فوراً قومی ٹیم میں شامل کر لو۔ کبھی تو نئے ٹیلنٹ کی پکار ہوتی ہے، نوجوانوں کو کھلانے پر اصرار ہوتا ہے کہ آئندہ ٹورنامنٹ کے لئے کھیپ تیار کی جارہی ہے کبھی اہم ٹورنامنٹ کی آڑ میں تجربہ کار کھلاڑی بہت ضروری ہو جاتا ہے بھلے اس تجربہ کار کھلاڑی نے عرصے سے کچھ بھی نہ نہیں کیا ہو۔کوٹہ پورا کرنے کے لئے ہر بہانہ ڈھونڈا جاتا ہے لیکن میرٹ پر سیلیکشن کے لئے ایک بھی تاویل نہیں دی جاتی۔ ایک اور مسئلہ بھی ہے جس کا شکار مصباح الحق خود بھی ہوئے اور اب عابد علی بڑھاپے میں قومی ٹیم میں کھیلنے کے قابل ہوئے ہیں۔ اسکی وجہ ایسے کھلاڑی ہوتے ہیں جو سیاسی یا با اثر کرکٹ کمیونٹی کے چہیتے ہوتے ہیں کبھی انہیں ہجوم کھینچنے کے نام پر ٹیم میں رکھا جاتا ہے اور کبھی ایسے ہی ۔بلا جواز یہ لوگ ٹیم میں شامل رہتے ہیں۔ سال میں ایک آدھ بار کوئی غیر معمولی کارکردگی دکھاتے ہیں اور ایک سال اور پکّا کر لیتے ہیں۔پلئیر پاور بھی اسکی ایک وجہ ہے۔بہت سے ٹیلنٹڈ کھلاڑی جنکو آج سے دس سال پہلے ٹیم میں ہونا چاہیئے تھا وہ صرف بارہویں کھلاڑی بنے رہتے ہیں اور اسی حال میں بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ مجھے ٹیم کی شکست سے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا شاید قوم کو بھی نہ ہو لیکن ایک بہت بڑا مسئلہ بحر حال موجود ہے۔ دنیا میں کسی بھی کھیل میں ایک یا دو کھلاڑی ایسے ہوتے ہیں جنکو میچ جتانے میں ماہر سمجھا جاتا ہے اور ہر روز تو نہیں لیکن اکثر اپنی اس ساکھ پر پورا ترتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی یہ نہیں سنا ہو گا کسی کھیل میں ایسے کھلاڑی بھی موجود ہیں جو میچ ہرانے میں مہارت رکھتے ہیں۔یہ اعزاز صرف پاکستان کو حاصل ہے کہ اسکی کرکٹ ٹیم میں ایسے کھلاڑی بدرجہ اتم موجود رہے ہیں ۔ حالیہ ورلڈ کپ کے دوران اس بات سے کسی حد تک سیلیکٹرز نے اجتناب کیا لیکن ایک کھلاڑی پھر بھی ساتھ ہو لئے ۔ شکر ہے انکو بر وقت بنچ پر بٹھا دیا گیا ورنہ ورلڈ کپ میں ہمارا انجام اس سے بھی برا ہوتا۔ آپ کو یقین نہیں آرہا ہو گا کہ ایسے کھلاڑی بھی کسی ٹیم میں ہوتے ہیں۔ سری لنکا کے ساتھ ٹی ٹونٹی سیریز میں احمد شہزاد اور عمر اکمل کی کارکردگی سے بھی نہیں آیا ہو گا۔ہوتا یہ ہے کہ ایسے کھلاڑی مختلف حربوں سے میچ ہرانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اگر ٹیم بہت اچھا کھیل رہی ہے تو فیلڈ میں یہ کسی اہم مخالف کھلاڑی کا آسان رن آئوٹ یا کیچ ڈراپ کر دیں گے۔ اگر بیٹنگ ہو رہی ہے تو اچھی بنیاد فراہم ہونے کے بعد جب یہ میدان میں اتریں گے تو تین کام کریں گے۔ ایک تو کسی بھی سیٹ کھلاڑی کو رن آئوٹ کرائیں گے اور اسکے بعد رن ریٹ اتنا سلو کر دیں گے کہ بعد میں بڑے بڑے چھکے لگانے والے بھی کوئی بڑا ٹارگٹ حاصل نہ کر سکیں۔ اور عین اس وقت رن آئوٹ ہو جائیں گے جب انکی وکٹ پر رہنے کی ضرورت ہوگی تا کہ میچ کو آخری بال تک لے جایا جا سکے۔ان نکات کی روشنی میںاگر آپ لوگ میچ دیکھیں گے تو ایسی کالی بھیڑوں کو آپ آسانی سے شناخت کر لیں گے۔بائولر بھی ہیں جنکو شناخت کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ایک دم جنکی لائن ، لینگتھ خراب ہو جائے اور جب یقین ہو جائے کہ میچ ہار جائیں گے ، آخری اوورز میں دو تین وکٹیں اڑا دیں۔ ایک دم انکی لائن لینگتھ بہترین اور خوفناک یارکرunplayableہو جاتے ہیں۔ جہاں تک نئے کوچ مصباح الحق کا تعلق ہے ان کو میں اس میں قصور وار نہیں سمجھتا کہ وہ ابھی تجربے کریں گے۔ ایک دو سیریز کے بعد ان کی اصل کارکردگی سامنے آئے گی کیونکہ انکا مزاج ایسا ہی ہے۔ وہ ہر کھلاڑی کو اپنی بھرپور کارکردگی دکھانے کا پورا موقع دیں گے اور پھر ایک دن وہ ایسے تمام کھلاڑیوں کو دروازے کی راہ دکھائیں گے جو نہ صرف نکمے ہیںبلکہ ٹیم میں صرف اپنی مشہوری کے لئے آئے ہیں ملک کے لئے نہیں۔