اس نے پوچھا جناب کیسے ہو اس خوشی کا حساب کیسے ہو بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ قدرت فرحت و انبساط ارزاں کر دیتی ہے اور انسان نہال اور خوشی سے مالا مال ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ انفرادی سطح پر ہوتا ہے اور بعض مرتبہ اجتماعی سطح پر یہ عمل چشمہ پھوٹنے ‘ جھرنا گرنے یا صباکے جلنے کی طرح ہوتا ہے‘ بہت بے ساختہ کسی کی پہلی مسکراہٹ کی طرح کہ چہرے پر حیا کی سرخی پھیل جائے۔ شاید میں نے اپنی بات کو کچھ زیادہ ہی رومانٹک کر دیا ہے۔ اصل میں ‘میں خوش ہی اتنا ہوں میں ہی کیا ہر پاکستانی آپ سمجھ گئے ہونگے کہ میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کرکٹ میچ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ میرا اور آپ کا پاکستان سے پیار ہے کہ ہم تنقید بھی محبت میں کرتے ہیں اور دل میں آئی ہے کہ ’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے‘‘مگرآج تو وہ واقعتاً شہبازثابت ہوئے۔ جب لوگ سرفراز کی جمائیوں کی بات کرتے تھے تو میں کہتا تھا شیر جاگ چکے ہیں اور پھر تھوڑی بہت جمائیاں تو انہیں آتی ہیں۔ میرے شیر کے بیانیے کو ن لیگ اپنے حق میں استعمال نہ کرے۔ ایک بات کہ جس پر آپ کو بھی تعجب ہو گا کہ ایک امام مسجد کا کرکٹ سے کیا لینا دینا مگر اس وقت حیران ہو گیا کہ جب میں مغرب کی نماز ادا کرنے مسجد میں گیا تو جماعت تیار تھی۔ ہمارے مولانا عطاء الرحمن جماعت کروانے آ رہے تھے تو راستے میں مسجد کے صحن میں ان کا میرا آمنا سامنا ہو گیا۔ مسکرا کر میرے کان میں کہنے لگے’’میچ دیکھتاآ رہا ہوں‘ ابھی میں نے ان کے لئے دعا بھی کرنی ہے‘‘ ایک پٹاخہ میرے اندر پھوٹا میں سوچنے لگا کہ ان کو کیا تعلق کرکٹ سے۔ دل نے کہا’’یہ پاکستان ہے جو ہر پاکستانی کے دل میں دھڑکتا ہے جو اس کے باطن کو سرسبز رکھتا ہے‘‘ شاید اسی کا نام محبت ہے شیفتہ اک آگ سی ہے سینے کے اندر لگی ہوئی لوگوں کے سارے اندازے دھرے کے دھرے رہ گئے مخالفین بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کے لئے رطب السان ہو گئے۔ میں تو پہلے بھی کئی بار لکھ چکا ہوں کہ کوئی ہماری طرح ہار سکتا ہے اور نہ جیت سکتا ہے۔ یہ فیض کے مصرع کی تجسیم ہیں کہ ’’جورُکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو حد سے گزر گئے‘‘ کچھ ایسے ہی لگتا ہے کہ ہمیں صراط مستقیم پر آنے کے لئے اچھی خاصی ٹھوکریں کھانا پڑتی ہیں۔ وہی جو نوری نت کہتا ہے کہ ’’میرے پنڈے تے پھٹ لا ‘ میرا پنڈا جاگے‘‘ پتہ نہیں کیوں لگتا تھا کہ پاکستان جیت جائے گا شاید اس کے پیچھے یہ تھا کہ پاکستان ہمیشہ نیوزی لینڈ پر حاوی رہا ہے مجھے وہ میچ بھی یاد ہے جب اسی طرح پاکستان نیوزی لینڈ سے جیتا تھا اور اس میں عاقب جاوید کی وہ سلو بال جس کو ٹرن ہوتے ہوئے اور کٹوں میں جاتے ہوئے ان کا کھلاڑی دیکھتا رہا کہ وہ چھکا مارنے آگے بڑھ آیا تھا ہمارے دوست حافظ صدیق نے مزیدار پوسٹ لگائی ہے کہ تب بھی جب پاکستان نیوزی لینڈ سے جیتا تھا انہوں نے گھر میں ٹینڈے پکائے تھے اور اس مرتبہ بھی حافظ صاحب کو چاہیے کہ ٹینڈوں میں آئندہ گوشت بھی ڈالا لینا اور دوستوں کو مدعو بھی کر لینا۔ کچھ اور باتیں بڑی دلچسپ تھیں کہ جب پاکستان جنوبی افریقہ سے جیتا ہے تو لوگوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس میچ میں ہمارے سپہ سالارقمر جاوید باجوہ میچ کے دوران سٹک پکڑ کر میچ میں بیٹھے رہے ہیں اور لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ وہ اسی طرح ہر میچ میں آ کر بیٹھا کریں مگر اب تو لوگوں کو اپنی رائے سے رجوع کر لینا چاہیے کہ نیوزی لینڈ کے خلاف تو وہ اپنے ہی زور بازو پر جیتے ہیں۔ چلیے زور بازو پر ایک شعر بھی آپ کو پڑھا دیتے ہیں: میں نے تو لڑتے پرندوں سے سبق سیکھا ہے کام آئے تو فقط اپنے ہی بازو آئے ہمیں مکی آرتھرکو بھی تو مبارک دینی ہے کہ انہوں نے بھارت کے خلاف ہارنے پر خودکشی کا سوچا تھا اب تو ہماری ٹیم نے ان کو پھر سے جوان کر دیا ہے۔ ان سے مسکراہٹیں سنبھالے نہیں سنبھلتی تھیں۔ ٹیم کو واقعتاً ایک اعتماد کی فضا چاہیے تھی بہت ساری باتیں اب بھی سیکھنے کی ہیں۔ مثلاً ہمارے پروفیسر صاحب کو اچانک کیا سوجھتی ہے کہ وہ آسمان پر تنبو تان دیتے ہیں۔ اچھی خاصی بیٹنگ چل رہی ہوتی ہے کہ صرف سنگل سنگل درکار ہوتا ہے مگر حفیظ اچانک بونگی مار دیتے ہیں۔ اسی طرح فخر زمان کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر بال چوکے اور چھکے کے لئے نہیں ہوتی مگر یہ بات تو بابر اعظم جیسا بڑا کھلاڑی ہی جانتا ہے۔ دوست درست کہتے ہیں کہ حارث نے کلاس کی اننگز کھیلی اور اس میں بلا کا اعتماد تھا مگر یہ بھی تو دیکھیے کہ بابر اعظم کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری تھی اور اس نے کس فنکاری سے اپنی سنچری تراشی۔ بس اللہ مہربان تھا باقی سب باتیں ہیں۔ اس ساری خوشی میں یہ بات اپنی جگہ موجود رہے گی کہ سنچری میکر محمد رضوان کو ٹیم میں ہونا چاہیے ایسے ہی جیسے حارث ٹیم میں آیا اور اس نے اپنی ورتھ ثابت کی۔ اس کو باہر بٹھانے والے کچھ نہ کچھ شرمندہ تو ہونگے۔ سرفرازاحمد خوش ہیں کہ وننگ شاٹ لگائی اور ٹیم میں ان کی جگہ خالی ہوتی ہوتی رہ گئی۔ ویسے ان کے بارے میں دلچسپ پوسٹیں لگ رہی ہیں کہ وہ لوگ جو 92اور موجودہ ورلڈ کپ میں مماثلتیں ڈھونڈ رہے ہیں وہ بہت سی باتیں کر رہے ہیں یہ ضرور ہے کہ تب بھی نیوزی لینڈ کے خلاف بدھ کو میچ ہوا تھا اور اب بھی خدا کرے یہ مماثلث آخر تک چلے۔ اس وقت ہماری ٹیم کے حوصلے بلند ہیں ہمارا تو یہی مشورہ ہے کہ وہ جیت کے عزم کے ساتھ پورے یقین کے ساتھ کھیلیں کہ قدرت ان کا راستہ ہموارکرتی جا رہی ہے۔ کسی لمحے میں بھی مایوس نہیں ہونا اور یقین کا دامن نہیں چھوڑنا کہ: بے یقینی میں کبھی سعدؔ سفر مت کرنا یہ تو کشتی میں بھی گرداب بنا دیتی ہے اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ ہمیشہ ٹیم اپنے ٹیم ورک ہی سے جیتتی ہے ۔ کامیابی میں سب کا کچھ نہ کچھ حصہ ہوتا ہے۔ شاہین آفریدی کی توصیف کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ اس نے ٹاپ بیٹسمینوں کو باٹم کر دیا بال بھی صحیح لائن اور لینتھ پر رکھی۔ عامر تو ہے ہی بڑی کلاس کا بائولر۔ پہلی کامیابی اسی کی تھی بھارتیوں نے کہا تھا کہ انہوں نے عامر کو چھیڑا نہیں اور باقی کسی کو چھوڑا نہیں۔ مگر ہمارے سینئربھی اچھے ہیں۔ ایک اور بات یہ کہ ہمارے کھلاڑی ہی گرائونڈ میں نہیں کھیلتے‘ ہم دیکھنے والوں کا زیادہ زور لگتا ہے۔ میری پوری فیملی میچ دیکھ رہی تھی ہر فرد اس میں محو تھا۔ جو بوڑھے تھے وہ فقط اتنا پوچھتے کہ پاکستان جیت رہا ہے۔ یہ جذبہ سچ کی طرح خوشبودارہوتا ہے۔ ایسے ہی جیسے قائد کے الفاظ تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا ’’مجھے انگریزی نہیں آتی مگر یہ شخص جو کچھ کہہ رہا ہے وہ سچ ہے۔ کاش اس عہد کے گردن گردن جھوٹ میں دھنسے ہوئے سچ کی خوبصورتی سے آگاہ ہو جائیں۔ کاش ہم اپنے اداروں کی کامیابی پر بھی ایسے ہی خوش ہو سکیں۔ ہماری مسابقت صرف کرکٹ ہی میں کیوں؟ کاش ہم سب اس حوالے سے بھی سوچیں اور اس ملک کے وسائل غریب عوام پر خرچ ہوں چور اور ڈاکو اپنے انجام کو پہنچیں۔ پروڈکشن آرڈر کی پناہ میں نہیں۔ ہماری معاشی ترقی کرکٹ سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ تیمور حسن کے خوبصورت شعر کے ساتھ اجازت: میں مقابلے میں شریک تھا فقط اس لئے کوئی مجھ سے آ کے بھی پوچھتا ترا کیا بنا