جب سے جسٹس جناب گلزار احمد چیف جسٹس کے عظیم منصب پر متمکن ہوئے ہیں انہوں نے میری مایوس زندگی میں امیدوں کے جگنو جگمگا دئیے ہیں۔میں اس لئے خوش ہوں کہ پاکستان کے، کراچی کے کسی بیٹے نے تو میری طرح یا اس شہر کے پہلے منتخب میئر جمشید نسروانجی مہتا کی طرح کراچی کو دل سے اپنایا ہے اور اسے 1960ء کا کراچی بنانے کی کوششوں کا آغاز کردیاہے۔ گو کہ یہ مشکل ترین کام ہے لیکن نیتیں صاف ہوں اور ارادے پختہ ہوں تو انسان کے آگے پہاڑ بھی موم بن کر پگھل جاتے ہیں۔ چیف جسٹس جناب گلزار احمد جب عدالت عظمیٰ کے جج تھے تو جب بھی کراچی رجسٹری میں مقدمات سنتے اور کراچی کی بدحالی پر خون کے آنسو روتے تو میرے دل سے ان کے لئے دعا نکلتی کہ یا غفورالرحیم اس شخصیت کو صحت ،زندگی اور موقع دے کہ یہ اپنے شہر کے لئے کچھ کر گزرے۔ مجھے ان کے عدالت میں ریمارکس اور بولتے فیصلوں سے لگتا کہ کوئی تو ہے جو اس شہر کے نام پر سیاست کرنے اور کراچی کو محض پیسہ کمانے کی مشین سمجھنے کے بجائے اسے دوبارہ ’’عروس البلاد ‘‘بنانے کے جنون میں مبتلاہے۔ میں نے اوپر اپنا نام ماضی کی ایک عظیم المرتبت شخصیت سے جوڑنے کی جسارت کی ہے،میرا کسی طرح سے بھی جمشید نسروانجی مہتا سرکار سے کوئی موازنہ نہیں بنتا۔ وہ کراچی کے پہلے منتخب میئر تھے، کراچی سے ان کا عشق سوالوں اور مصلحتوں سے پاک تھا۔ انہوں نے سوال اٹھنے سے پہلے ہر شعبے میں بے مثال کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اپنے تمام ناقدین کو لاجواب کردیا لیکن اپنے کراچی سے عشق پر حرف نہیں آنے دیا۔ وہ خود کو کراچی کا بیٹا تصور کرتے تھے تو اس کا عملی مظاہرہ بھی کیا اور اپنا سب کچھ اس ماں جیسی محبت دینے والے شہر مہرباں پر دونوں ہاتھوں سے لٹا دیا جس کی کوئی اور مثال چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملے گی۔ میرا اوران کا ہجرت کا سانجھا اشتراک بنتا ہے۔ ان کے بابا مہتا صاحب پارسی تھے اور گجرات سے ہجرت کر کے کراچی آ بسے تھے اور جمشید نسروانجی مہتا نے مر کر بھی اپنی آبائی آخری آرام گاہوں کا رخ نہیں کیا بلکہ زندگی ہار کر بھی اپنے محبوب شہر سے جدائی کا تصور تک گوارا نہیں کیا اور اسی زمین میں آسودہ خاک ہوئے۔ میں خاندانی پس منظر اور دولت کے معاملے میں ان کے ہم پلہ ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتا اور میں جمشید نسروانجی مہتا کے قدموں کی دھول سے بھی خود کو ملانے کی بھول نہیں کر سکتا، وہ کراچی کے لئے دن میں آفتاب اور رات کے اندھیروں میں ماہتاب کی مانند تھے، البتہ ہماری ہجرت کی قدر مشترک اور کراچی کو ماں کا درجہ دینے، اپنا سب کچھ اس پر لٹا دینے کی اور مر کر بھی اس کے قدموں میں ہی پڑے رہنے کی سوچ نے ہمیں ایک ہی قبیلے سے جوڑ دیا ہے۔ مہتا خاندان وطن کو چھوڑ کر آیا تو کراچی کو زندگی اور موت کا ضامن کر لیا۔ کچھ ایسی ہی کہانی میری ہے۔میں تیس برس پہلے ریاست بہاول پور کی روایتی وڈیرہ شاہی سے بغاوت کر کے صحرا کے بگولوں کے شانوں پر سوار ہو کر دیبل کے ساحل پر اترنے والا کراچی کا وہ بیٹا ہوں کہ جس نے اپنی زندگی بھی اس خوب صورت ساحلی شہر کے سپرد کر دی ہے اور مرنے کے بعد بھی یہیں آسودہ خاک ہونے کا اردہ باندھ رکھا ہے۔اس شہر کی سڑکوں پہ میرے طویل بے نام سائے اور میرے پائوں سے لپٹی طویل مسافتیں اس شہر کی چوڑی چکلی شاہ راہوں پر محو استراحت ہیں۔کراچی کے فٹ پاتھ ایک زمانے میں بہت مہربان آستانے ہوا کرتے تھے ، جہاں شام کے سائے ڈھلے کراچی کی فراخ دل فٹ پاتھوں نے مجھے اور میرے جیسے کئی بے گھروں کو اپنی پناہوں میں لے لیا اور ہمارے اوپر شبنمی رات کی چادر اوڑھا دی۔ میں نے اپنی زندگی کے تین عشرے کراچی کے قدموں کی دھول پر نچھاور کر دیئے ہیں۔ میرے ہاتھ خالی اور کچھ بھی نہ تھا تو کراچی میرا تھا اور جب کچھ کھانے کمانے لگے تو اپنا تن من دھن سب کچھ اس پر وار دیا۔ حضرت جلال الدین رومی سرکار کے رقص درویش کی طرح اوپر والا ہاتھ خالق سے سوالی رکھا اور نیچے والا ہاتھ خلق خدا میں بانٹ کر خالی رکھا، اس بے نیازی میںبچوں کے لئے سائبان تک نہ جوڑ سکا۔ میرے لئے یہ کیا کم تھا کہ اس شہر کی سمندر جیسی فراخی نے اپنے اس راندہ درگاہ اور بھٹکے ہوئے بیٹے کو انسانوں کی اس بدمست بھیڑ میں گم نہیں ہونے دیا اور اسے شناخت، شہرت اور عزت کی روٹی دے کرایک مہذب انسان کہلانے کے لائق بنا دیا۔ میں نے بھی کراچی کو محض کمانے کی مشین سمجھنے کی بجائے اپنی خدمات اس شہر کی تاریخ اور تہذیب کو جنگل کے قانون اور جنگلی لوگوں سے محفوظ رکھنے کے لئے وقف کردیں۔ میری تازہ تصنیف’’ کراچی ٗ اوراق شبستان ‘‘میرے اسی زاویہ فکر کا نتیجہ ہے۔ اغیار کو کراچی کی دنیا کے مہذب شہروں کی فہرست میںاٹھان ایک آنکھ نہیں بھائی اور انہوں نے یہاں اپنے گماشتوں کو فعال کر کے سازشوں کے جال پھیلا کر مہذب شہروں کے لئے ناگزیرہر ہر شعبے کو بدامنی کے اندھے کنوئیں میں پھینک دیا ۔ دو تین عشروں میں میرے دیکھتے ہی دیکھتے کراچی دنیا کے انتہائی غیر محفوظ شہروں کی فہرست میںاوپر آگیا ۔چیف جسٹس پاکستان جسٹس جناب گلزار احمدسچے پاکستانی اور کراچی کے دردمند بیٹے ہیں۔ انہوں نے کراچی کو مافیائوں کے چنگل سے چھڑوا کراسے ایک بار پھر مہذب شہر بنانے کے لئے جس عمل کا آغاز کیا ہے وہ قابل ستائش ہے لیکن ان کا یہ عمل دونوں ہاتھوں سے کراچی کو لوٹنے والی مافیائوں کے لئے انتہائی ناپسندیدہ اور نا قابل برداشت عمل ہے۔ وہ یقیناً اس عمل کی راہ میں روڑے اٹکا کر جناب چیف جسٹس کی سمت کو کوئی اور رخ دینے کی کوششیں کریں گے اور ان کی خواہش ہوگی کہ ان کی ریٹائرمنٹ کا انتظار کیا جائے ، اس کے بعد کراچی کو ایک بار پھر اپنی آہنی گرفت میں لاکراپنے مذموم دھندے جاری رکھے جائیں اور کراچی کا چہرہ دوبارہ مسخ کر دیا جائے لیکن میرا یقین کامل ہے کہ اس بار چیف جسٹس پاکستان کوئی ایسا مستقل اہتمام ضرور کریں گے کہ کراچی جسے انگریزوں نے’’ مشرق کے شہروں کی ملکہ ‘‘قرار دیا تھا ، وہ ان کے بعد بھی ان کے اٹھائے گئے اقدامات کے نتیجے میں مافیائوں سے پاک ایک امن وآشتی کی مثبت تصویر بنا رہے۔ اگراس ملک اور اس شہرمیں قانون کی عملداری قائم ہو گئی تو یہ معجزانہ عمل ہوگا۔ ہم رہیں نہ رہیں پاکستان اورکراچی رہے گااور ہماری خواہش ہے کہ یہ شہر ایک بار پھر مہذب دنیا کی آنکھوں کا تارا بن جائے۔ اس خواب کی تعبیر کے لئے ہم سب کی نظریں چیف جسٹس پاکستان جسٹس جناب گلزار احمدپر لگی ہیں۔’’ شکریہ ! جناب چیف جسٹس کہ آپ نے اس شہر کو دنیاوی آفتوں سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو عمر خضری عطا کرے اور آپ پاکستان اور کراچی کی محبت میں جو بھی فیصلے کریں، خدا ان فیصلوںکی حفاظت کرے اور جناب چیف جسٹس، آپ کا،جمشید نسروانجی مہتاکا اور میرا محبوب شہر ایک بار پھر دنیا کے محبوب شہروں میں شمار ہونے لگے۔ ہماری خواہش اور خواب یہی ہے جو ہم نے اللہ کے بعد آپ کے سپرد کردیا ہے۔‘‘